اپنے حصے کی شمع

Tars Foundation

Tars Foundation

تحریر : وقار احمد اعوان

19 اپریل 2010 کی شام چھ بجے پشاور کے مشہور بازار قصہ خوانی بازار میں جماعت اسلامی پشاور کے زیراہتمام بجلی کی ناروا لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاجی مظاہرہ چل رہاتھا کہ اس دوران ایک خود کش حملہ ہوا جس کے نتیجے میں جماعت اسلامی کے صوبائی رہنما حاجی دوست محمد،ڈی ایس پی گلفت حسین سمیت دیگر 20شہری شہیدہوگئے تھے،اسی حملے میںجماعت اسلامی کے موجودہ صوبائی نائب امیر اور تنظیم اعوان کے صوبائی صد ر اور سابق ایم این اے صابر حسین اعوان شدید زخمی ہوگئے تھے،مذکورہ سانحہ کو دس سال ہوچکے ۔جہاں یہ حادثہ شکار ہونے والے خاندانوں کے لئے انمٹ یادیں چھوڑ گیا وہیں کچھ افراد ایسے بھی ہیں جنہیں زندگی نے گلے سے تو لگالیا تاہم ان کا جینا نہ جینے کے برابر ہے۔جی ہاں ہم بات کررہے ہیں پشاور کے مضافاتی علاقے رینگ روڈ سے تعلق رکھنے والے شیر آغا کی۔جہاںمذکورہ حادثے میںسینکڑوں افراد شدید زخمی ہوئے تھے وہیں ایک نام شیر آغا کا بھی ہے۔

اس وقت حکومت خیبرپختونخوا نے شہید اور زخمی ہونے والے افراد کے لئے خطیر رقم کا باقاعدہ اعلان بھی کیا تھا،کہ جس میں شیر آغا کو بھی حکومت خیبرپختونخواکی جانب سے قریباً 2سے 3لاکھ کی رقم دے گئی۔لیکن شیر آغا جو اس حادثے کے نتیجے میں معذوری کاشکار چکا ہے کے علاج معالجے پر مذکورہ رقم خرچ ہوچکی ہے۔اس سانحہ کو آج دس برس ہوچکے مگر شیر آغا اور اس کے گھر والوں کے زخم آج بھی تازہ ہیں۔شیر آغا جو اپنی والدہ اور ایک بھائی کے ساتھ رہائش پذیر ہے اپنی زندگی ایسے تیسے کرکے گزار رہاہے۔رشتہ دار حتی کہ اس کی اپنی بیوی اسے دار فانی میں تنہا چھوڑ چکی ہے،حالانکہ بڑے بزرگوںسے سنتے آئے ہیں کہ بیوی تو سکھ دکھ کی ساتھی ہواکرتی ہے اور یہاں تک کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ” بے شک میاںبیوی ایک دوسرے کا پردہ ہیں”۔ لیکن کہاں ۔۔شیر آغا تو تنہا اپنی والدہ اور ایک بھائی جو رکشہ چلا کر گھر گرستی چلا رہاہے،کے ساتھ ایک کمرے میں بند اپنی تنہائیاںگن رہاہے تو کہیں اپنے خوشیوںکے دن یاد کرکے تھوڑا بہت ہی سہی پُر سکون ضرور ہے۔

کیونکہ اس کے نزدیک کوئی تو ہے تو اسے جینے کا ڈھنگ سکھا رہے ہیں اسے حوصلہ دے رہے ہیں۔مگر خالق کائنات تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور وہ تو ایک انسان سے ستر مائوںسے بھی زیادہ پیار کرتاہے،تو بھلا کیسے وہ ذات پاک شیر آغا کو اس کٹھور دنیا میں تنہا اور بے سہارا چھوڑ دے گی،اسی لئے شاید اللہ تعالیٰ نے اس لاچار اوردکھی انسان کے لئے اپنے نیک بندے پیدافرمائے ہیں۔کہ جن میں ایک نام عبدالماجد قریشی کا بھی ہے۔

عبدالماجد قریشی جو کہ ترس فائونڈیشن کے نام سے ایک ادارہ چلا رہے ہیں جب انہوںنے شیر آغا کی کہانی سنی تو اپنے طور ان کی بھرپورمالی امداد کرنے کی ٹھانی ،حالانکہ اس وقت عبدالماجد قریشی کے ادارے کی باقاعدہ رجسٹریشن بھی نہیںہوئی تھی تاہم اس خد اترس انسان نے شیر آغا کو ہر ممکن مالی ،جانی امداد پہنچانے کا تہیہ کیا اور جب ان کا ادارہ باقاعدہ حکومتی فائلوںمیں رجسٹرڈ ہوا تب سے اب تک شیر آغا کو ہرماہ دس ہزار کی خطیر رقم ماہانہ دی جاتی ہے، اسکے علاوہ کبھی کبھار رقم کے ساتھ ساتھ راشن پیکج بھی دیا جاتاہے تاکہ شیر آغا کے گھر والے اس کی خدمت میںکوئی کسر باقی نہ چھوڑیں۔یادرہے کہ ترس فائونڈیشن شہر پشاور کے کئی لاچار خاندانوںمیںماہانہ امدادی رقم تقسیم کرتی ہے کہ جس سے ان خاندانوںکی سفید پوشی کا بھرم رہ جاتا ہے،اسی کے ساتھ اس ادارے کے زیراہتمام کئی رفاہی اور سماجی کام سرانجام دیے جارہے ہیں کہ جنہیں سب جانتے ہیں۔

ہمارے یہاں لکھنے کا مقصد صر ف اور صرف اتنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان تمام احباب کو جنہیں دولت کی نعمت سے نوازا ہے وہ آگے بڑھ کر ایسے کئی شیر آغا ہونگے کی بھرپورمالی مدد کریں یا پھر اپنا حصہ تر س فائونڈیشن کو عطیہ کریں تاکہ عبدالماجد قریشی اور ان کی ٹیم آپ کی زکات خیرات کو غریب،لاچار،بیوائوں ،یتیموں ،بیماروں اورمستحقین میں احسن طریقے سے تقسیم کرسکیں۔اس کے علاوہ اگر کوئی دوست براہ راست شیر آغا یا کسی دوسر ے مستحق خاندان کی مالی امداد کرنے کا ارادہ رکھتا ہے وہ عبدالماجد قریشی سے رابطہ کرکے ان تمام خاندانوں تک براہ راست رقم یا دیگر امداد پہنچا سکتاہے،کیونکہ بہترین مال وہ ہے جو دوسروں پر خرچ کیاجائے اور اسی لئے احمد فراز کہہ گزرے ہیں کہ

شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

Waqar Ahmed Awan

Waqar Ahmed Awan

تحریر : وقار احمد اعوان