پولیس، صحافی اور عام عوام

Police

Police

تحریر : حکیم فریاد افضل رانا

کل رات میں لاہور اپنے ہیڈ آفس سے گھر کی طرف روانہ ہوا تو دھند اتنی شدید تھی کہ مجھے گھر پہنچنے میں تقریبا دو گھنٹے لگے جیسے ہی میں اپنے آبائی گائوں کی حدود میں داخل ہوا تو شدید دھند ، خون جما دینے والی سردی ، دیہاتی آبادی کے قریب ویرانے میں جہاں پر کھڑا ہونا تو دور کی بات بندہ آہستہ گاڑی بھی نہیں چلا سکتا کہ کہیں کسی ڈاکو کے ہتھے نہ چڑھ جائے چند پولیس وردیوں میں ملبوسٹھٹھرتے ہوئے اجسام نے ٹارچ کے ذریعے سے رکنے کا اشارہ کیا میں نے فورا گاڑی روکی ،شیشہ نیچے کر کے بڑے احترام کے ساتھ پوچھا جی حکم کریں ، خون جما دینے والی سردی کی وجہ سے تنو مند نوجوان جو اپنی فرائض کی ادائیگی کے لیے اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر اپنے پیاروں سے دور ،ویرانے میں بے خوف وخطر، ہرقیامت کا ڈٹ کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت کے ساتھ مگر سردی کی لہروں کے سامنے ہار نہ مانتے ہوئے میرے چہرے پر ٹارچ کی روشنی ڈالتے ہوئے بولا حکیم فریاد بھائی آپ ؟ اتنی رات کو خیر تو ہے ناں ؟ میں نے عرض کی کہ پیارے بھائی آج ویک اینڈ ہے تو گھر جا رہا ہوں ،لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ لیے کہنے لگا کہ حکیم بھائی گاڑی چیک کرنا ہے تعاون کریں میں نے کہا جی بالکل آپ کی اپنی گاڑی ہے مکمل اعتماد کے ساتھ چیک کریں دوسرے جوانوں نے گاڑی کو سرچ کیا اور وہ میرے ساتھ ہلکی ہلکی مسکراہٹ کیساتھ محو گفتگو رہا چند منٹ کے بعد مجھے محبت بھرے لہجے میں کہا حکیم بھائی آپ جا سکتے ہیں تعاون کا شکریہ ۔ دوران گفتگو مجھے پتہ چلا کہ جو شخصیت میرے ساتھ محو گفتگو ہے وہ تھانہ مانگامنڈی کاکرائم فائٹر ایس ایچ او جاوید اقبال چیمہ ہے جو اپنی ٹیم کے ساتھ علاقے میں امن و امان کی صورتحال کے پیش نظر پٹرولنگ کر رہے تھے۔

میں نیچے اترا ان سے گلے ملا اور ان کو سلیوٹ پیش کیاکہ آپ جیسے نواجوانوں کی وجہ سے ہی ہم جیسے لوگ ،عوام الناس آرام کی نیند سوتے ہیں مجھے فخر ہے آپ سب پر میری آنکھیں نم ہو گئیں گھر پہنچ کر نیند نہیں آ رہی تھی تو میں نے ان گمنام ہیروز کے لیے لکھنے کا فیصلہ کیا بس یونہی دماغ میں ایک نہ ختم ہونے والی جنگ چھڑ گئی۔میں نے سوچا اور سوچتا ہی گیا اورلکھتا گیا کہ کسی بھی ریاست کا نظم و نسق اور انتظام چلانے کیلئے کچھ اقدار اور قوانین مرتب کئے جاتے ہیں جن پر عملدرآمد کیلئے ادارے وجود میں آتے ہیں۔انہی اداروں میں سے ایک ادارہ پولیس بھی ہے جو قوانین پر عملدرآمد کرواتا ہے اور قوانین توڑنے والوں کے خلاف کاروائی عمل میں لاتا ہے۔دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی پولیس کا محکمہ موجود ہے جو انتہائی خوش اسلوبی سے فرائض سر انجام دے رہا ہے۔

لیکن پاکستان میں موجود گندی سیاسیت اور بدمعاش سیاستدانوں نے اس محکمہ میں اپنے چندمن پسندقسم کے لوگ بھرتی کروائے اور ان کے ذریعے لوگوں کو قتل کروانا، ناجائز مقدمات درج کروانا، اپنے مخالفین کو راستے سے ہٹانا جیسے کام کروائے جاتے ہیں۔جس کی وجہ سے عوام میں پولیس کیلئے مثبت تاثر نہیں پایا جاتا لیکن اگر غور کریں تو سخت گرمی، سردی کی شدت، موسموں کے تھپیڑوں کا سامنا کرنے والا پولیس کا سپاہی جو ہماری حفاظت کیلئے مامور ہے وہ چند ہزار روپے کی تنخواہ کی خاطر یہ سب نہیں کر رہا ہوتا۔بلکہ جذبہ حب الوطنی اور احساسِ انسانیت کی خاطر اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر دن، رات کسی روبوٹ کی طرح اپنی نجی زندگی کو قربان کرتے ہوئے فرائض انجام دے رہا ہوتا ہے۔عیدین ایسے تہوار ہیں جن پر پردیس میں رہنے والے لوگ بھی گھروں کو واپس لوٹ آتے ہیں لیکن پولیس ملازمین و افسران عوام کی حفاظت کیلیے اپنوں سے دور ڈیوٹی سر انجام دے رہے ہوتے ہیں۔

اُن سے ہمارا رویہ ایسا ہوتا ہے کہ کوئی عید کے بعد اُن سے گلے ملنا بھی گوارا نہیں کرتا۔پچھلے کئی برسوں سے پاکستان میں دہشت گردی کی وجہ سے شہید ہونے والے لوگوں میں سب سے پہلے پولیس کے جوانوں کی فہرست آتی ہے۔وہ شہداء اور اُن کی طرح حفاظت پر مامور پولیس ملازمین کے بھی بوڑھے ماں باپ،بیوی بچے اور چھوٹے بہن بھائی ہوتے ہیں جو اُنکی جدائی کا صدمہ ہر عام آدمی کی طرح رکھتے ہیں۔کبھی تھانے میں جا کر تھانہ محرر کے ساتھ ایک دن گزار کر دیکھیں تو آپ کو سمجھ آ جائے گی کہ کس قدر کام کا بوجھ ہوتا ہے جو ایک طاقتور اعصاب رکھنے والے بندے کی برداشت سے زیادہ ہوتا ہے۔یہ ایک تھانہ محرر کی ہی نہیں قریب ہر پولیس کانسٹیبل اور افسر کا احوال ہے۔ہر وقت ذہنی تناؤ کے باعث طبیعت میں روکھا پن اور غصہ پیدا ہو جانا ایک فطری عمل ہے۔اور اسی عمل کی وجہ سے ہم انہیں معاشرے کے سب سے بڑے بداخلاق کا درجہ دیتے ہیں جو نا انصافی ہے۔ہمیں استحقاق کے مطالبے میں عدل پسند بھی ہونا چاہئے یعنی ہم جن رویوں کی دوسروں سے امید رکھتے ہیں وہی ہمارا بھی حق بنتا ہے کہ ہم انہیں دیں۔ رشوت ستانی یا رویوں میں بگاڑ کا سبب ہم خود ہیں۔ ایک تو ہمارے معاشرے عدم برداشت اس حد تک ہے کہ چھوٹے چھوٹے معاملات میں اداروں تک پہنچ جاتے ہیں اور سچ جھوٹ کی ایک لمبی کہانی بنا کر اس طرح مظلوم بننے کی کوشش کرتے ہیں کہ جیسے شہر سارا سوتے میں خواب بیچتا پھرتا ہو۔ ایسے خوابوں کے خریدار کہیں نہیں ہوتے بس ہم بیچنے کی ناکام کوشش میں معاشرے کو بگاڑتے ہیں نہ کہ سنوارتے ہیں۔

جب ہمیں مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو رہے ہوتے تو ہم اپنی ذاتی بلا وجہ انا کیلئے سیاستدانوں اور جاگیر داروں کو اداروں میں مداخلت کیلئے موقع فراہم کرتے ہیں۔ ہمیں حق اور باطل کی تمیز سب سے پہلے سیکھنی چاہئے اس کے بعد خودی میں چھپی انا کیلئے جھگڑا کرنا چاہئے۔ ایسی جھوٹی درخواستوں سے بلا وجہ پولیس کے وقت کو برباد کریں گے تو پولیس خود ہی عوام سے زچ ہو کر متنفر ہونا شروع ہوجائے گی۔ کسی بھی معاشرے میں رویے اس کی بگاڑ یا استحکام کا مؤجب بنتے ہیں تو پھر شکوہ صرف اداروں سے ہی کیوں؟شعبہ صحافت کسی بھی ریاست میں چوتھے ستون کی حیثیت رکھتا ہے اور اس پیشے سے وابستہ افراد صحافی کہلاتے ہیں جو معاشرے کی آنکھ، کان اور زبان ہوتے ہیں۔ان پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ معاشرے کی اچھائی اور برائی متوازن اور مثبت انداز میں پیش کریں اور تنقید کے ساتھ حل بتانا دانشوارانہ عنصر ہے جس کیلئے فہم و دانش اور فکر و عمل انتہائی اہم ہیں۔

مجھے افسوس ہے کہ شعبہ صحافت میں بھی اب ایسی کالی بھیڑیں موجود ہیں جو فہم و دانش اور فکر و عمل سے کوسوں دور محض کسی ذاتی مفاد، یا کاروباری شیلٹر کیلئے اداروں کو بلیک میل کر کے نا صرف شعبہ صحافت بلکہ ملک کی بھی ساکھ کم کرنے کا سبب بنتے ہیں۔شہر تو کہنے کو فسانے مانگے کے اصول پر قائم ایسے ٹی وی چینلز محض اداروں کی بدخوہی اور ان پر تنقید کے موقع تلاش کرتے پھرتے ہیں اور لوگوں میں سنسنی پھیلا کر انہیں اب ایسا کر دیا ہے کہ ان کیلئے کوئی بری خبر خبر نہیں ہوتی اور جب تک وہ سنسنی خیز اور تہلکہ مچا دینے والے مسالے دار لہجے میں کوئی بات نہ سنیں ان کے کان تسلیم ہی نہیں کرتے کہ یہ کوئی خبر ہے۔

اگر پولیس کوئی غلط کام کر دے تو اس پر بحث و مباحثہ اور تبصرے اور سارا دن ٹی وی چینل پر مختلف برانڈز اور مسالوں کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہوتا ہے لیکن جب پولیس کے نوجوان شہید ہوتے ہیں یا وہ جس طرح سے دن رات اپنی فرائض کی انجام دہی کیلئے سر پر کفن باندھے پھرتے ہیں اس کی بات کوئی نہیں بتاتا۔ میرا ان سے سوال ہے کہ کیا یہ خبر نہیں بنتی کہ فلاں پولیس اہلکار رات بھر فلاں دیہات کے چوک پر اکیلا رات بھر ڈیوٹی انجام دیتا رہا جسے ہر ایک گولی اور ہر ایک منٹ کا حساب دینا پڑتا ہے چاہے وہ وقت یا گولی اس نے اپنی جان کی دفاع میں ہی کیوں نہ خرچ کی ہورویے تہذیب و تمدن کا عکاس ہوتے ہیں اگر مغرب میں ادارے مثبت اقدار کو فروغ دیتے ہیں تو وہاں کا تمدن اور معاشرتی رویہ بھی مثبت ہے۔ ہمیں ملک کے خدمت گزاروں اور اداروں کے ساتھ مخلص ہونا چاہئیے کیونکہ کسی بھی ریاست کی بقاء اور ستون اس کے ادارے ہوتے ہیں۔ ریاست ہمارا گھر ہے اور اگر ہم گھر کے ستون کھوکھلے کرنے شروع کر دیں گے تو کیا ہم اس میں رہ پائیں گے؟۔

Faryad Afzal Rana

Faryad Afzal Rana

تحریر : حکیم فریاد افضل رانا