تھانہ برائے فروخت

Police Station

Police Station

تحریر : روہیل اکبر

پولیس کو ضلعی انتظامیہ کے ماتحت کرنے کا عمل بہت اچھا اقدام ہے مگر سنا ہے کہ ہمارے آئی جی صاحب نے دبے لفظوں میں اس کی مخالفت کردی ہے کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ پولیس کی جو غنڈہ گردی ہے وہ برقرار رہے اور گذشتہ 73 برسوں سے پولیس نے اپنی وحشیانہ دہشت سے بڑی مشکل سے جو اجارہ داری قائم رکھی ہوئی اسے کوئی ختم نہ کرسکے اور جس نظام کے تحت وہ سیاسی لٹیروں،وڈیروں اور سرمایہ داروں کے ہاتھوں بکے ہوئے ہیں جن کے کہنے پر تعیناتیاں ہوتی ہیں جنکے کہنے پر پکڑن پکڑائی ہوتی ہے اور جو بیٹھ کر تھانوں کو خریدتے ہیں اور پھروہ اپنے زر خریدوں کے زریعے اپنی مرضی کے فیصلے کرواتے ہیں اس وقت پورے پنجاب کی پولیس کا نظام فوری تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اس محکمہ کو فوری طور پر ضلعی انتظامیہ کے ماتحت کرکے شریف اور معزز شہریوں کی نگرانی میں دیدیا جائے ورنہ ہمارا ہر تھانہ برائے فروخت رہے گا جیسے تھانہ کوٹ ادو برائے فروخت ہے۔

جی ہاں یہ مذاق نہیں بلکہ حقیقت اور وہ بھی ایک جیتی جاگتی اور زندہ وجاوید حقیقت کہ اس وقت پورے پنجاب کی پولیس اپنی نام نہاد کارکردگی دکھانے کے لیے ہر وہ حد پار کررہی ہے جسے ایک معزز معاشرہ ہر گز اجازت نہیں دیتا بلکہ ایسے ممالک جہاں قانون کی حکمرانی ہو اداروں کا تقدس ہو اور عام شہری کو احساس تحفظ ہو وہاں کسی بے گناہ کو پکڑ کر مقدمات میں الجھانا اور پھر بلیک میل کرکے لاکھوں روپے اکٹھے کرنا یہ صرف ہماری پولیس کا ہی کمال ہے اور اس وقت ہماری پنجاب پولیس میں ایسے ایسے شیر جوان موجود ہیں جو ناممکن اور نامعلوم مقدمات کو منٹوں میں حل کرلیتے ہیں لوگوں کو انکی چیزوں کی بجائے پیسے دلوادیتے ہیں اور اپنے کھاتے میں ایسی ایسی انکوائریاں ڈلوا لیتے ہیں جنکا ایک لفظ بھی انکے ہاتھ کا لکھا ہوا نہیں ہوتا نہ انکی زبان ہوتی ہے اور نہ ہی انکی تحریر بھاڑے کے رکھے ہوئے افراد جنکا محکمہ پولیس سے دور دور تک بھی تعلق نہیں ہوتا وہ دن رات اپنی مرضی سے پولیس کی خدمت کررہے ہیں وہ بھی بغیر کسی مفاد اور لالچ کے مگر ہر کیس میں دیہاڑی لگانا وہ اپنا فرض سمجھتے ہیں جو مال دیدے اسی کے حق میں لکھ دیا جاتا ہے۔

ہاں تو میں بات کررہا تھا کہ ہماری پولیس کے ہاتھوں میں وہ جادو ہے کہ وہ بیٹھے بٹھائے اپنے موکلوں کے زریعے اپنے اپنے سرپرستوں کو خوش کرنے کے لیے انہیں انکے مال مسروقہ کے پیسے واپس لوٹا رہے ہیں یہ کمال میں نے اپنی آنکھوں سے ہوتے ہوئے دیکھا تھانہ کوٹ ادو کے ایس ایچ او عبدالکریم جو عہدے میں سب انسپکٹر اور اپنے ہر کام میں ے ایس آئی ریاض کے محتاج ہیں اور ریاض اپنے ہر کام میں کرائے پر رکھے ہوئے ایسے فرد کا محتاج ہے جسکا پولیس سروس سے دور دور تک بھی تعلق نہیں اور تھانہ میں اسی کی حکمرانی ہے وہ جسے چاہے ملزم بنا دے جسے چاہے بے گناہ لکھ دے تھانے میں پکڑے گئے فرد کی تقدیر اسی پرائیوٹ فرد کے ہاتھوں لکھی جارہی ہے ڈی ایس پی اور ڈی پی او کا اس پر کسی قسم کی کوئی کاروائی نہ کرنا اس بات کامظہر ہے کہ وہ بھی پوری طرح انکی سرپرستی میں مصروف ہیں صبح سے شام تک اسی تھانہ میں ٹاؤٹوں کا راج رہتا ہے۔

لکھنے پڑھنے سے عاری پولیس افسران عوام کو ریلیف دینے کی بجائے انہیں مزید مشکلات میں پھنسا رہے ہیں اصل واقعہ کی بجائے اپنی مرضی کے مقدمات درج کیے جارہے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پورے ضلع کے نکمے اور کام چور پولیس اہلکاروں کو اسی تھانہ میں تعینات کررکھا ہے جو تھانہ میں آنے والے ملزمان کی تلاشی لیتے ہوئے قیمتی ایشاء اور پیسے خود ہضم کرجاتے ہیں اور پھر انکو ایسے ایسے مقدمات میں پھنساتے ہیں کہ وہ بیچارہ غریب ان مقدمات سے نکلنے کے لیے پولیس کی مرضی کا محتاج بن جاتا ہے یہ صرف ایک تھانے میں نہیں ہورہا بلکہ ہماری پولیس بزدار سرکارکی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے ہر تھانے میں اپنی کارکردگی بڑھانے کے لیے ایسے ہی گھناؤنے کھیل میں مصروف ہے۔

تھانہ کوٹ ادو میں میں نے اپنی آنکھوں سے کیا دیکھا،اپنے کانوں سے کیا سنا اور پھر میرے موبائل میں کیا کیا باتیں محفوظ ہیں انہیں میں بذات خود معزز جج صاحبان اور آئی جی صاحب کے سامنے رکھوں گا کہ وہ کس دیدہ دلیری سے کیا کیا گل کھلا رہے ہیں گذشتہ ایک ہفتہ میرا کوٹ ادو میں گذرا اور اس دوران پولیس والوں سے کیا کیا باتیں ہوئی وہ سب میرے موبائی میں محفوظ ہیں اور یہ میری زندگی کا پہلا تجربہ تھا اس سے پہلے پولیس کے حوالہ سے میرا کوئی ذاتی تجربہ نہیں رہا مگر اس گذرے ہوئے ایک ہفتہ میں مجھ پر کیا کیا انکشافات ہوئے وہ میرے لیے حیران کن تھے کہ پولیس کی وردی میں انسان نہیں بلکہ بھیڑیے چھپے ہوئے ہیں کہتے ہیں ناں کہ پوری دیک میں سے صرف چند دانے چاولوں کے چکھنے سے پوری دیگ کے ذائقے کا پتہ چل جاتا ہے بلکل اسی طرح صرف تھانہ کوٹ ادو کے کم چور اہلکاوروں کے ساتھ ہونے والی چند اہم ملاقاتوں میں پورے پولیس کے نظام کی قلعی کھل گئی کہ کیسے نااہلوں کو چن چن کر تھانوں میں تعینات کیا جاتا ہے اور پھر ان نااہلوں اور نکموں سے کیسے جعلی کارکردگی رپورٹ جاری کروائی جاتی ہے۔

ہمارے اس نظام میں کتنے بڑے آپریشن کی ضرورت ہے اسکا اندازہ ہر اس شہری کو بخوبی ہوگا جو کبھی کسی بھی کام سے کسی تھانہ میں گیا ہوگا ہماری یہ ذ ہنی طور پر معذوراور غلام پولیس نے پورے نظام کو بھی غلامی کی لپیٹ میں رکھا ہوا اگر اس نظام کو وزیراعظم عمران خان تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو اس میں کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ایسے بوسیدہ نظام اور کام چور پولیس اہلکاروں سے شریف شہریوں کی جان چھوٹ جائیگی اس گھٹیا نظام میں اگر کسی کو کہیں سے ریلیف ملتا ہے تو وہ عدلیہ ہے ہمارے جج صاحبان لائق تحسین ہیں جو پولیس کی ان حرامزدگیوں کو سمجھتے ہیں اور شہریوں کو ریلیف دیتے ہیں ورنہ تو ہمارے پولیس اہلکار اور پولیس کا نظام شریف شہریوں کو زندہ نگل جائے گا اور اس حوالہ سے میرے پاس کیا کیا ثبوت ہیں ان پر لکھ کر عوام کو پولیس کا اصل چہرہ دکھاتا رہونگا۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر : روہیل اکبر