سیاسی عدم استحکام کا شکار گرین لائن بس سروس

Green Line Bus Service

Green Line Bus Service

کراچی (اصل میڈیا ڈیسک) جدید طرز تعمیر کا شاہکار کہلانے والی گرین لائن سروس منصوبے کا آغاز سن 2016 میں کیا گیا تھا۔ تاہم کراچی کے علاقے یوپی موڑ نارتھ کراچی پر واقع دھول مٹی میں اٹا اسٹیشن چار سال گزرنے کے باوجود آج بھی نامکمل ہے۔ تحریک انصاف کے متعدد وعدوں اور دعوؤں کے باوجود یہ منصوبہ اب بھی اپنے مقررہ وقت پر فعال ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔

یوپی موڑ پر واقع یہ ادھورا بس اسٹیشن پتھارے داروں کے روزگار کا مسکن زیادہ معلوم ہوتا ہے جبکہ پل کے کونے منصوبے کے آغاز سے پہلے ہی ٹوٹنے لگے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک متحرک سیڑھی بھی ٹوٹ کر منصوبے کی زبوں حالی کی داستان سنا رہی ہے۔

شہر میں بنائے گئے بقیہ بس اسٹیشن کی حالت زار بھی اس سے مختلف نظر نہیں آتی۔ کچھ جگہوں پر کام ابھی جاری ہے جبکہ کچھ بس اسٹیشن ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکے ہیں۔ اسٹیشنز کی راہداری میں تعفن، کچرا اور غلاظت بھی جا بجا دیکھی جاسکتی ہے۔ اس ابتر حالت کے باوجود وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے یہ دعوی کیا ہے کہ گرین لائن بس سروس اگست تک مکمل طور پر فعال کر دی جائے گی۔

گرین لائن منصوبے میں تاخیر کی وجہ بتاتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما ارسلان تاج حسین نے کہا، ”سندھ حکومت نے پورا منصوبہ وفاق کو دے دیا کہ ہم یہ نہیں کر سکتے۔ اگر یہ منصوبہ شروع سے ہی مکمل طور پر وفاق کے پاس ہوتا تو اب تک یہ مکمل ہو چکا ہوتا۔‘‘

تاج نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں مزید کہا، ”منصوبے میں تاخیر کی بڑی وجہ یہ ہے کہ مراد علی شاہ صاحب نے اس منصوبے کو مزارِ قائد سے تبت سینٹر تک بڑھا دیا اس کی وجہ سے پورے منصوبے میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔ پھر جو بسوں کا آرڈر انہیں کرنا تھا انہوں نے اس سے بھی ہاتھ کھینچ لیا۔‘‘

ارسلان تاج کا کہنا تھا کہ میگا پروجیکٹ میں اس طرح بار بار تبدیلی کرنے سے نہ صرف وقت بہت ضائع ہوا بلکہ اس منصوبے پر ہونے والی لاگت میں بھی اضافہ ہوا۔

سندھ حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے مزید کہا،”اگرچہ لوگ پشاور بی آر ٹی پر تنقید کرتے ہیں جو گرین لائن کے مقابلے میں نسبتا آسان منصوبہ تھا مگر وہ پورا منصوبہ صوبائی حکومت نے ایشیائی ترقیاتی بینک کے ساتھ مل کر مکمل کیا۔ وفاق کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ اس کے برعکس سندھ حکومت آج تک کوئی ایک منصوبہ بھی مکمل کرنے سے قاصر رہی ہے۔‘‘

تحریک انصاف کے نوجوان رہنما عدیل احمد کے مطابق وفاق کی جانب سے گرین لائن کے لیے 80 اور اورنج لائن کے لئے 20 بسوں کا آرڈر کر دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی انٹیگریٹڈ کٹنگ سافٹ ویئر کا ٹینڈر بھی ایوارڈ کردیا گیا ہے۔

احمد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”جولائی تک بسیں یہاں پر آجائیں گی اور آپ کو اگست تک گرین لائن مکمل طور پر فعال ملے گی۔”‘‘

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ”پشاور بی آر ٹی میں تاخیر نہیں ہوئی۔ عالمی بینک کے کاغذات میں بی آر ٹی منصوبہ مکمل کرنےکی تاریخ جولائی سن2021 ہے لیکن وہ منصوبہ ابھی سے فعال کردیا گیا ہے۔‘‘

میٹرو ٹرین کے زیر تعمیر ستونوں کے درمیان نظر آنے والا گنبد “بدو کا آوا” یا بدو کا مقبرہ ہے۔ مغل بادشاہ شاہجہان کے دور میں تعمیر ہونے والی اس عمارت کا دلکش طرز تعمیر اب متروک ہو چکا ہے۔ جی ٹی روڈ پر میٹرو ٹرین سے یہ عمارت بھی پس منظر میں چلی جائے گی۔ سترہویں صدی کی اس عمارت کو بھی قانونی تحفظ حاصل ہے۔

صوبائی وزیر برائے آمد و رفت اور ماس ٹرانزٹ سید اویس قادر شاہ نے ڈی ڈبلیو کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ سن 2018 کے منی بجٹ میں ہم نے بسوں اور کمپیوٹر سسٹم کے لیے 5 ارب روپے کی رقم مختص کی تھی،”عمران خان کے وزیر اعظم بننے کے بعد ایک اعلی سطحی اجلاس میں انہوں نے چیف منسٹر کے سامنے کہا کہ ہم یہ پروجیکٹ سندھ حکومت کو نہیں دے رہے۔ ہم بسوں کی خریداری اور ٹکٹنگ سسٹم بھی خود ہی کریں گے۔ تین سال چلانے کے بعد اسے سندھ حکومت کے حوالے کر دیا جائے گا۔‘‘

انہوں نے اس نظریہ کو یکسر مسترد کر دیا کہ سندھ حکومت اس منصوبے میں تاخیر کی ذمہ دار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس تمام کاغذات موجود ہیں، جن پر تاریخیں درج ہیں اور جو اس بات کا ثبوت ہے کہ سب کچھ انہیں وقت پر فراہم کر دیا تھا اور وہ وقتاً فوقتاً ان کے منصوبے میں موجود غلطیوں کی نشاندہی بھی کرتے رہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ”اورنج لائن کی بسوں کے آرڈر وفاق کو دینے کا مقصد صرف یہ تھا کہ دونوں منصوبے ایک ساتھ شروع کیے جا سکیں تاکہ عوام اس سے فائدہ اٹھا سکے۔ ہم اپریل میں ریڈ لائن کا افتتاح کرنے جا رہے ہیں جبکہ یلّولائن سال کے آخر تک آ جائے گی۔ جب یہ سارے منصوبے مکمل ہوں گے تو کراچی کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک سفر آسان ہو جائے گا۔‘‘

گرین لائن بس سروس کی راہ داری کے حوالے سے اویس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”راہداری پر نہ صرف کام نامکمل ہے بلکہ گرین لائن کے لیے بنائی گئی سڑک پر کام کا معیار بہت ہی ناقص ہے۔‘‘

انہوں نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ کراچی کی ہوا میں نمی کی موجودگی اور دھول مٹی سے اربوں روپے کے اس منصوبے کو زنگ کھا سکتا ہے، اس سے بچانے کے لیے انھیں پلاسٹک سے ڈھانپنا ضروری تھا لیکن اس بات کا خیال ہی نہیں رکھا گیا۔

منصوبے کے اگست تک مکمل ہونے پر ان کا کہنا تھا، ”ٹکٹنگ سوفٹ وئیر کے لیے نظام بنانے میں وقت لگے گا۔ یہ ایک بہت بڑا سسٹم ہوگا۔ اگر انہوں نے اس میں جلدی کی تو اس کا انجام بھی پشاور بی آر ٹی والا ہی ہوگا۔‘‘

تحریک انصاف کی تنقید کے جواب میں انہوں نے کہا، ”میں یہ مانتا ہوں کہ پچھلے سالوں میں جتنا کام ٹرانسپورٹ پر ہونا چاہیے تھا وہ نہیں ہوا۔ وسائل کی کمی کے باوجود بی آر ٹی کے بقیہ منصوبے سندھ حکومت عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے ساتھ مل کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ ملیر ایکسپریس وے بھی ایک میگا پروجیکٹ ہے۔ اب ہم بہت جلد منی بس کے لیے بھی ٹینڈر کھولنے جارہے ہیں، جس سے کراچی کے شہریوں کی ایک بہت بڑی شکایت دور ہو سکے گی.”

پچھلی کئی دہائیوں سے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں عوامی ذرائع آمدورفت کی صورت حال خاصی ابتر رہی ہے۔ ٹوٹ پھوٹ کا شکار بسیں اور ان میں موجود خطرناک گیس سیلنڈرز ، جنسی ہراسانی اور اب کرونا وائرس کے خطرے نے منی بسوں میں سفر کرنا ناممکن بنا دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شہریوں کی ایک بڑی تعداد نے موٹرسائیکل کو ہی سفر کا ذریعہ بنا لیا ہے، جس کے باعث سڑکوں پر ٹریفک جام معمول کی بات بن چکی ہے۔

عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق کراچی میں ہر روز تقریبا چودہ ملین سفر افراد سفر کرتے ہیں، جن میں سے 58 فیصد نجی ٹرانسپورٹ سے جبکہ 42 فیصد پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے کیے جاتے ہیں۔ پاکستان میں نجی گاڑیاں کل رجسٹرڈ ہونے والی گاڑیوں کا 84 فیصد بنتی ہیں جبکہ پبلک ٹرانسپورٹ صرف 4.5 فیصد مسافروں کا سروس مہیا کرتی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق کراچی کی آبادی اور جغرافیہ کو مد نظر رکھتے ہوئے کم ازکم پندرہ ہزار ماڈرن بسیں درکار ہیں۔

کراچی میں تیزی سے بڑھتی آبادی کے ساتھ ساتھ سڑک پر بڑھتی ہوئی گاڑیوں کی تعداد، شہر کا جغرافیہ اور دیگر مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے کراچی اربن ٹرانسپورٹ ماسٹر پلان 2030 تشکیل دیا گیا تھا۔ گرین لائن بس سروس اسی منصوبے کا ایک حصہ ہے۔ اس پلان کے تحت کراچی میں دو سرکلر میٹرو ریل ٹرانزٹ، چار لائٹ ریل ٹرانزٹ اور پانچ بی آر ٹی شامل ہیں۔ تاہم وسائل کی کمی کے باعث گرین، اورنج، ریڈ، بلیو اور یلّو لائنز کو ترجیحی بنیادوں پر شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

ان منصوبوں پر کام کرنے کے لیے کراچی انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ کمپنی لمیٹڈ قائم کی گئی تھی، جس کا نام بعد میں تبدیل کرکے سندھ انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ کمپنی لمیٹڈ رکھ دیا گیا۔ یہ ادارہ وفاقی وزارت برائے منصوبہ بندی کے زیرنگرانی ایک سال تک کام کرے گا۔

کراچی میں ٹریفک کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر ن لیگ کی حکومت نے فروری سن 2016 میں گرین لائن بس سروس منصوبے کی منظوری دی تھی۔

اس منصوبے کو وفاق اور صوبائی حکومت کے اشتراک سے پایہ تکمیل تک پہنچنا تھا۔ منصوبے کے مطابق وفاق کو اس کا زمینی ڈھانچہ، جب کہ صوبائی حکومت کو اس کے لیے بس، انٹیگریٹڈ کٹنگ اور روز مرہ کی ذمہ داریاں سنبھالنا تھا۔ اس منصوبے کو 2017 میں مکمل ہونا تھا مگر سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے یہ ممکن نہ ہو سکا۔

جب پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے یہ منصوبہ اپنے ذمہ لیا تو سندھ حکومت کے ساتھ متعدد تنازعات کی بناء پر یہ منصوبہ تعطل کا شکار ہوا۔ نقشے میں چند تبدیلیوں کے بعد یہ منصوبہ 26 کلومیٹر طویل اور 22 بس اسٹیشنوں پر مشتمل ہوگا۔ گرین لائن میونسپل پارک سے سرجانی ٹاؤن تک سفر ممکن بنائے گی۔

گرین لائن منصوبے کے دوران بے شمار رکاوٹ آئیں۔ اس منصوبے کے مطابق مزارِ قائد کے سامنے سے ایک پل گزرنا تھا۔ جس پر مزار کی انتظامیہ نے یہ اعتراض اٹھایا کہ مزار کے احترام اور تقدس کو مدنظر رکھتے ہوۓ کوئی تعمیر مزار کی اونچائی سے بلند نہیں کی جاسکتی۔ جس کے باعث نمائش چورنگی پر انڈر پاس کی تعمیر شروع کرنا پڑی جو تاحال نامکمل ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک گرین لائن منصوبہ کراچی میں آمد و رفت کے مسائل حل نہیں کر سکتا۔ اس کے لیے بی آر ٹی کے تمام منصوبوں کو کامیابی سے مکمل کرنا ہوگا۔ تاہم جہاں اس منصوبے کی موجودہ حالت اور تحریک انصاف کی جانب سے پشاور بی آر ٹی میں کی جانے والی کوتاہیاں گرین لائن پر سوال اٹھاتی ہیں وہیں وفاق اور صوبائی حکومت میں سیاسی عدم استحکام اورعدم اعتماد بھی اس منصوبے کو کھوکھلا کر رہا ہے۔