‘سیاسی حل کے بغیر افغانستان سرد جنگ کی لپیٹ میں آ سکتا ہے‘

Afghanistan War

Afghanistan War

افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق کئی ارب ڈالر خرچ کرنے اور تقریباﹰبیس سال تک کی فوجی موجودگی کے باوجود امریکا اور نیٹو کے پاس آج بھی افغانستان کے ایک پائیدار اور پر امن مستقبل کے لیے کوئی حل نظر نہیں آتا۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک رپورٹ کے مطابق دونوں طاقتیں یہ فیصلہ نہیں کر پارہیں کہ اس جنگ ذدہ ملک سے اپنے اپنے فوجیوں کو کیسے باہر نکالیں۔ امریکا کی سابقہ انتظامیہ کی جانب سے گزشتہ کچھ ماہ کے دوران تیزی سے امریکی فوجیوں کے انخلاء نے عیاں کر دیا ہے کہ افغانوں کی مشکلات حل ہونے والی نہیں۔

اے پی نے اپنی اس تحریر میں لکھا ہے کہ تشدد میں اضافہ ہو گیا ہے اور قصور وار سب ہی دکھائی دے رہے ہیں چاہے وہ طالبان ہوں، جنگی سردار، داعش یا بدعنوان سرکاری اہلکار۔ امریکا کے نو منتخب صدر جو بائیڈن ٹرمپ کی اس پالیسی پر نظر ثانی کر رہے ہیں جس کے تحت اس سال یکم مئی تک تمام امریکی فوجی افغانستان سے نکل جائیں گے۔ امریکا کے 2500 اور نیٹو کے دس ہزار فوجی اب بھی افغانستان میں تعینات ہیں۔ واشنگٹن میں وہ آوازیں زور پکڑ رہی ہیں جو افغانستان سے جلد انخلاء کے خلاف ہیں۔

افغانستان میں تمام اہم کھلاڑی جنگ کی تباہ کاریوں میں کسی نہ کسی طرح شامل ہیں۔

طالبان ملک کے قریب نصف حصے کا کنٹرول سنبھالے ہوئے ہیں۔ امن مذاکرات کے باوجود افغان طالبان اور افغان فوجی جنگی کاروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ طالبان کو حالیہ دنوں میں صحافیوں اور سول سوسائٹی کے رہنماؤں کے قتل کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ وہ ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔

اس بات کا بھی کوئی ثبوت نہیں ہے کہ وہ القاعدہ سے تعلقات ختم کر چکے ہیں جیسا کہ طالبان امریکا مذاکرات میں طے کیا گیا تھا۔ جنوری میں جاری ہونے والی ایک امریکی خفیہ رپورٹ کے مطابق طالبان اب بھی القاعدہ کی مدد کرتے ہیں اوریہ دہشت گرد تنظیم خطے میں مزید مضبوط ہو رہی ہے۔

سماجی کارکنوں کو فکر ہے کہ بین الاقوامی فوجیوں کے انخلاء کے بعد اسلحے سے لیس افغان جنگی سردار ایک مرتبہ پھر لڑائی کا راستہ اپنا لے لیں گے۔ سن 1992-1996 کے عرصے کے دوران جنگی سرداروں نے ایک دوسرے کے خلاف لڑائی میں پچاس ہزار افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ ان رہنماؤں نے دارالحکومت کابل کو بھی بری طرح تباہ کر دیا تھا۔

افغان فورسز کو بھی کڑی تنقید کا سامنا ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق افغان حراستی مراکز میں قریب ایک تہائی قیدیوں کو افغان فوجیوں کی جانب سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ افغان فورسز میں مالی بدعنوانیوں بھی عام ہیں اور کابل حکومت ان کے خلاف کوئی اقدامات نہیں کرتی ۔

داعش کا علاقائی اتحادی گروہ خاص طور پر خطے میں شیعہ مسلمانوں کو نشانہ بناتا ہے۔ ان کے حملوں کی تعداد اور شدت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس گروہ کی سرگرمیوں نے افغانستان میں سکیورٹی کے نظام پر سوالیہ نشان لگادہے ہیں۔ افغان فورسز اس گروہ کے خلاف لڑنے میں ناکام نظر آ رہی ہیں۔

تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ افغان مسئلے کا بظاہر کوئی آسان حل نہیں ہے چاہے غیر ملکی فوج رہیں یا ملک سے نکل جائیں۔ افغان تجزیہ کار طارق فرحدی کے مطابق،”امریکا اور نیٹو پر یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ انہیں مزید جنگ نہیں چاہیے انہیں افغانستان میں ایک پر امن سیاسی حل چاہیے اور وہ رہنما جو جنگ کا راستہ اپنانا چاہتے ہیں وہ بین الاقوامی برادری کے پارٹنر نہیں ہیں۔‘‘ فرحدی کا مزید کہنا ہے کہ ایک سیاسی حل کے بغیر افغانستان سرد جنگ کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔