سیاسی صحافتی ٹِک ٹَاک

Journalism

Journalism

تحریر: محمد فاروق خان

تختِ سیاست پر بڑے متحمل، زیرک، معاملہ فہم اور انتہائی قوتِ برداست رکھنے والے ایسے سیاسی تاجدار عوامی دلوں پہ راج کرتے رہے جن کی بصیرت سے سیاست معتبر رہی۔وئہ رائے دہندگان کا مان اور فخر رہے۔وئہ سوال سُننے کا حوصلہ اورر جواب دینے کا ہنر بھی خوب جانتے تھے۔بڑا عرصہ سیاست کو عبادت اور خدمت کہا اور سمجھا جاتا رہا۔کئی دہائیوں سے اہلِ سیاست عوامی اعتماد اور احترام کا رشتہ نبھاتے رہے۔ جب سے کرپشن نے سیاست کو منافع بخش صنعت میں بدلا تب سے عوامی بد نصیبی کا آ غاز ہوا۔ سیاسی اخلاقیات نے طاقت، رعونت اور تکبر کا روپ دھار لیا۔ مفاد پرستی نے عوامی اعتماد کو ختم کیا۔ کرپشن کی ضرورت نے منی لانڈرنگ کے پیشے کو وجود بخشا،کیش بوائے منی لانڈرنگ میں معاون بنے،بے نامی اکاونٹس اور جائیدادوں نے اہل وطن کو متحیر کیا۔جب تبدیلی کا خان کنٹینر پر چڑھا تو لوگوں نے بھٹو کے بعد کسی لیڈر کو عوامی دلوں کو مسخر کرتے دیکھا۔

اُس کا لہجہ بڑا پُر اعتماد،مشن بڑا جاندار اور اُس کی للکار دلوں کو ہلا دینے والی تھی۔اُس نے خو ابیدہ عوامی آرزوں اور تمناوں کو آگ لگائی۔اُس نے خو اتین کو سحر زدہ کیا اور نوجوانوں کے دلوں میں امیدوں کے چراغ روشن کیئے۔وئہ نجات دہندہ اور ارضِ وطن کا آخری وفادار لگا۔چوروں، ڈاکووں، منی لانڈرنگ اور کرپشن کرنے والوں کو اُس نے انتہائی قوت سے للکارا۔اُس کی للکار کی قوت نے کرپٹ دلوں کو دہلایا۔اُس کی للکار کی کاٹ نے احتساب کا خوف پیدا کیا۔اُس نے کرپٹ مافیا کو نہ چھوڑنے کا اعلان عام کیا۔وئہ این۔ آر۔ او نہ دینے کا عزم دہراتے دہراتے تختِ حکمرانی تک جا پہنچا۔ پھر اُس نے عوام کو نہ گھبرانے کا مشورہ دیا۔ ووٹ کو عزت دینے والے اپنی مجبوریوں،محرومیوں اور ضرورتوں کے باوجود پورے حوصلے اور یقین کے ساتھ کھڑے ہیں۔

یہ بات درست ہے کہ اقتدار کی اپنی مجبوریاں اور حکومت کی اپنی ضرورتیں ہوتی ہیں لیکن اہلِ دانش کے نزدیک مفادات اور مصلحتیں تبدیلی کی موت ہوتی ہیں۔شاید تبدیلی سرکار نے سوچا ہو کہ عو امی دلوں پہ راج پھر کر لیں گے پہلے حکومت کر لی جائے۔ پہلے کرپشن معیشت ہوئی اور پھر معیشت اور احتساب میںعلیحدگی ہوگئی۔ معیشت نے احتساب کے ساتھ چلنے سے انکار کر دیا ۔اب شاید معیشت کرپشن کے ساتھ ہی محوِ سفر رہے گی۔

کنٹینر سے اُتر کر تختِ حکومت پر بیٹھنے والوں نے اپنا رنگ جمانا شروع کر دیا ہے۔کنٹینر پر کھڑے ہونے والے صحافیوں سے بھی لا تعلق ہوتے نظر اتے ہیں۔انہیں پہچاننے سے انکاری ہو رہے ہیں۔وئہ سارے رشتے توڑتے نظر آتے ہیں۔انہیں سازشی،گھس بیٹھیئے اور بے نامی دار صحافی کہہ کر اُن پر تشدد بھی کر رہے ہیں۔ کرپشن کو معیشت قرار دینے اور اپوزیشن کو مفاہمتی طوطا بنانے کے بعد حکومت کا سب سے بڑا حریف میڈیاہی ہو سکتا ہے۔ لیکن جب حکومتی ٹیم میں فواد چوہدری جیسے ہتھ چھوڑ وزیر سائنس اور ٹیکنالوجی موجود ہوں تو پھر حکومت کو اقتدار انجوائے کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ میڈیا کا منہ بند کرنے کا ایسا سائنسی تجربہ کیا ہے جس کی نظیر نہیں ملتی۔موجودہ حکومت کو کنٹینر سے اقتدار میں پہنچانے میں سب سے بڑا کردار میڈیا کا ہی رہا ہے۔قلمکاروں نے تبدیلی لانے کے لیئے اپنی توانائیاں صرف کیں۔کتنے چینلز اور اینکرز تبدیلی کے خواب کو شرمندہِ تعبیر کرنے کے لیئے کوشاں رہے۔ میڈیا کو کنٹرول کرنا لازم ہو گیا ہے کیونکہ اس کے بغیر سیاسی ٹِک ٹاک انجوائے نہیں ہو سکے گی۔ لازم ہورہا ہے کہ میڈیا کو خوفزدہ اور صحافیوں کو پابند سلاسل رکھا جائے۔

پاکستانی صحافت بلوغت کی عمر کو پہنچ چکی ہے اب صحافیوں کو ذمہ دارانہ صحافت کے ساتھ ساتھ محفوظ صحافت کے دائرے میں رہنا ہوگا۔ ہو سکتا ہے کہ اہلِ وطن کو مستقبل قریب میں سیاسی اور صحافتی ٹِک ٹاک کے کئی نئے انداز دیکھنے کو ملیں۔ صحافتی قائدین کی مصحلت پسندی،مفاد پرستی،گروہ بندی اور بے حسی بھی قابل ستائش ہے کہ وئہ قرار داد مذ مت سے اگے نہیں بڑھ سکے۔انہیں کوئی خبر کرے کہ صحافت کس منزل پہ جانے لگی ہے۔ تھپڑوں سے جواب دینے والی سیاسی اشرفیہ مذمتی قراردادوں سے رکنے والی نہی۔اگر کوئی سوچ کر خوش ہو رہا ہے کہ یہ تھپڑ تو سمیع ابراہیم اور مبشر لقمان کے چہروں پر پڑے ہیں۔

اُن کے مفاد پرست اور بے حس چہرے ابھی محفوظ ہیںتو پھر انتظار کرنا اِن تھپڑوں کی حدت بہت جلد محسوس ہوگی۔لیکن اُس وقت بہت دیر ہو چکی ہوگی۔ اِن تھپڑوں نے سمیع ابراہیم اور مبشر لقمان کے چہروں کو سرخ نہیں کیا بلکہ اِن تھپڑوں سے قومی صحافت کا چہرہ بھی گل رنگ ہوا ہے۔یہ اہلِ صحافت کے منہ پر اجتماعی تھپڑ ہیں۔یہ تھپڑ سوال کی موت ہیں۔سوال کو موت سے بچانے اور صحافیوں کو تھپڑوں سے محفوظ رکھنے کے لیئے قومی منظر نامے پر کسی صحافتی قائد کو انا ہوگا۔قومی صحافت اپنے اپ کو محفوظ اور معتبر رکھنے کے لیئے کسی صحافتی مولا جٹ کی ضرورت محسوس کرنے لگی ہے۔

M.Farooq Khan

M.Farooq Khan

تحریر: محمد فاروق خان