آبادی بم کی ٹک ٹک جاری: پاکستان اب دنیا کا پانچواں بڑا ملک

Population - Pakistan

Population – Pakistan

اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستان کو آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا سب سے بڑا ملک سمجھا جاتا تھا لیکن اب یہ حقیقت بدل چکی ہے۔ پاکستان کی آبادی میں اضافہ اتنا تیز رفتار ہے کہ جنوبی ایشیا کی یہ ریاست اب دنیا کا پانچواں بڑا ملک بن چکی ہے۔

آج گیارہ جولائی کو منائے جانے والے عالمی یوم آبادی کے حوالے سے یہ بات بہت کم پاکستانیوں کو معلوم ہو گی کہ گزشتہ سات دہائیوں کے دوران ان کے ملک کی آبادی ناقابل یقین حد تک تیز رفتار اضافے سے تقریباﹰ چھ گنا ہو چکی ہے۔ اقوام متحدہ کے پاپولیشن ڈویژن کے اعداد و شمار کے مطابق قیام پاکستان کے تین سال بعد 1950ء کے وسط میں پاکستان کی مجموعی آبادی 37.54 ملین یا پونے چار کروڑ سے کچھ ہی زیادہ تھی۔

لیکن بیسویں صدی کے وسط سے لے کر اکیسویں صدی کے پہلے بیس سال تک کے دوران پاکستان کی آبادی میں اضافہ اتنی تیزی سے ہوا کہ اب اس بات کو بھی عشرے ہو گئے ہیں کہ ماہرین آبادی میں اس اضافے کے لیے ‘ٹائم بم‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ آبادی سے متعلقہ امور کے ماہرین کے مطابق یہ ‘پاپولیشن بم‘ آج بھی ٹک ٹک کر رہا ہے اور ملکی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ثابت ہو رہا ہے۔ ماہرین اس رکاوٹ کی وضاحت یوں کرتے ہیں کہ پاکستان میں سماجی ترقی، قومی وسائل اور اوسط فی کس آمدنی میں اضافہ اس رفتار سے نہیں ہو رہا، جس رفتار سے آبادی بڑھتی جا رہی ہے۔

اقوام متحدہ کے آبادی سے متعلقہ امور کے شعبے کے گزشتہ برس اگست میں سال رواں کے لیے لگائے گئے اندازوں کے مطابق آج سے دس روز پہلے، یعنی سال رواں کی دوسری ششماہی شروع ہونے تک پاکستان کی مجموعی آبادی یقینی طور پر تقریباﹰ 220.9 ملین یا 22 کروڑ 10 لاکھ کے قریب ہو جانا تھی۔ اس کا مطلب ہے جولائی 1950 سے لے کر جولائی 2020 تک ملکی آبادی میں تقریباﹰ چھ گنا اضافہ۔

یہ اسی ‘پالولیشن بم‘ کا نتیجہ ہے کہ پہلے اگر پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا سب سے بڑا ملک تھا تو آج مزید ایک درجہ اوپر آ کر یہ ملک دنیا کا پانچواں بڑا ملک بن چکا ہے۔ اس وقت دنیا کی مجموعی آبادی 7.8 بلین کے قریب ہے اور عالمی سطح پر سالانہ شرح پیدائش دو فیصد سے زیادہ۔ خود اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان میں سالانہ شرح پیدائش 2.8 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ اس وقت دنیا میں صرف چار ممالک ایسے ہیں، جن کی آبادی پاکستان سے زیادہ ہے۔ پہلے سے چوتھے نمبر تک کے یہ چار ممالک چین، بھارت، امریکا اور انڈونیشیا ہیں۔ پاکستان برازیل کی جگہ اب پانچواں بڑا ملک بن چکا ہے۔ برازیل اب چھٹے نمبر پر ہے۔

عالمی آبادی اور اس میں تبدیلیوں پر نگاہ رکھنے والی ایک غیر سرکاری بین الاقوامی ویب سائٹ کنٹری میٹرز ڈاٹ انفو کی ڈیٹا بیس کے مطابق پاکستان میں گزشتہ برس 60 لاکھ 50 ہزار زندہ بچے پیدا ہوئے۔ یہ تعداد تقریباﹰ ساڑھے سولہ ہزار روزانہ یا تقریباﹰ سات سو فی گھنٹہ بنتی ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ 2019ء میں پاکستان میں اوسطاﹰ ہر ایک منٹ میں 11 زندہ بچے پیدا ہوئے، یعنی تقریباﹰ ہر پانچ سیکنڈ بعد ملکی آبادی میں ایک شہری کا اضافہ۔

پاکستانی وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے بھی حال ہی میں میڈیا سے بات چیت میں اعتراف کیا تھا کہ ملکی آبادی میں اضافے کی شرح دنیا کے بہت سے دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ ڈاکٹر مرزا کے مطابق اصل مسئلہ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی پر قابو پانا ہے کیونکہ عموماﹰ زچہ اور بچہ دونوں ہی کی زندگی کو خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ ان کے مطابق ہر سال نو ملین پاکستانی خواتین زچگی کے عمل سے گزرتی ہیں، لیکن ان میں سے تقریباﹰ چار ملین ایسی ہوتی ہیں، جو اپنی خواہش کے برعکس حاملہ ہوئی ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر مرزا کے مطابق موجودہ حکومت آبادی میں بہت تیز اضافے کے خلاف ایک آٹھ نکاتی پروگرام پر عمل درآمد جاری رکھے ہوئے ہے۔

پاکستانی دفتر شماریات سے وابستہ معاون ماہر طاہر آصف نے تازہ ملکی ڈیٹا کا حوالہ دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”اس سال اب تک قومی شرح پیدائش دو فیصد سے کچھ زیادہ ہے، جو گزشتہ برس کی نسبت کچھ کم ہے۔ فیملی پلاننگ سے متعلق عوامی شعور بڑھ تو رہا ہے، مگر ملکی اقتصادی حالات، بے روزگاری کی اونچی شرح اور اب کورونا وائرس کی وبا بھی عوام میں تشویش اور پریشانی کی وجہ بن رہے ہیں۔‘‘

طاہر آصف نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ اگر قومی وسائل میں اضافہ کیا جائے، فی کس اوسط آمدنی بڑھائی جائے اور عوام کو بہتر روزگار بھی میسر ہو تو آبادی میں یہ اضافہ کوئی بہت نقصان دہ بات بھی نہیں، ”زیادہ آبادی کا مطلب زیادہ افرادی قوت ہے، جسے صحیح استعمال کیا جائے، تو وہ بہت فائدہ مند اور قومی ترقی میں بڑی معاون بھی ثابت ہو سکتی ہے۔‘‘ طاہر آصف نے مزید کہا کہ ان کی رائے میں ماضی میں خاص طور پر بےنظیر بھٹو کے دور حکومت میں فیملی پلاننگ پر کافی زیادہ توجہ دی گئی تھی، جبکہ میں موجودہ حکومت کے دور میں زیادہ زیادہ سرگرمی نظر نہیں آتی۔

اسلام آباد میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) کے فیملی پلاننگ شعبے کی سابقہ سربراہ اور اب اپنا نجی کلینک چلانے والی سیدہ نگہت گیلانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”میں روزانہ ایسی کئی حاملہ خواتین کا علاج کرتی ہوں جو کہتی ہیں کہ انہیں بچے پیدا کرنے پر مجبور کیا جاتا یے۔ ان پر بیٹے جنم دینے کا دباؤ ہوتا ہے یا پھر ان کے گھرانوں میں مانع حمل ذرائع کا استعمال ہی گناہ سمجھا جاتا ہے۔ ایسے گھرانوں میں زیادہ تر ماں اور بچے کی صحت کو پس پشت ڈال کر ہر سال ایک اور بچے کی پیدائش کے خواہش کی جاتی ہے۔‘‘

نگہت گیلانی کے مطابق، ”حکومت کو پختہ ارادے کے ساتھ ملک میں فیملی پلاننگ کی عملی صورت حال بہتر بنانے پر کام کرنا چاہیے۔ ملک میں فیملی پلاننگ کے طریقوں پر بھی تحقیق کی ضرورت ہے۔ ہر مانع حمل طریقہ ہر خاتون کے لیے طبی طور پر یکساں قابل عمل نہیں ہوتا۔‘‘

تین عشروں سے تعلیمی شعبے سے منسلک ماہرعمرانیات سید منظر گردیزی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”ہمارے ہاں آبادی میں کمی کی بھی بس باتیں ہی کی جاتی ہیں جبکہ وسائل بڑھانے کی کوششیں بھی انتہائی کم ہیں۔ نتیجہ یہ کہ آبادی مسلسل بڑھتی جاتی ہے اور وسائل میں اضافہ نہیں ہو رہا۔ ملکی آبادی میں نوجوانوں کی شرح بہت زیادہ ہے، لیکن ان میں سے بہت سے بے روزگار ہیں۔

منظر گردیزی کے مطابق، ”ہمارا المیہ وہ معاشرتی رویے اور روایات بھی ہیں، جو عام گھرانوں میں انفرادی سطح پر فیملی پلاننگ کی سوچ کو کامیاب نہیں ہونے دیتے، حالانکہ آبادی میں اضافے سے جڑے مسائل حل کیے بغیر پاکستان کے دیگر مسائل پر بھی قابو نہیں پایا جا سکتا۔‘‘