انسانی خون کا ضیاع

Ukraine Russian War

Ukraine Russian War

تحریر: طارق حسین بٹ شان

اس کرہِ ارض پر ریا ستیں ہمیشہ ایک جیسی نہیں رہتیں، کبھی سلطنتِ روما ،کبھی عجمی سلطنت، کبھی یونانی سلطنت ۔کبھی برطانوی سلطنت، کبھی سلطنتِ عثمانیہ ،کبھی سویت یونین اور کبھی امریکہ جو زیادہ طاقت کا حا مل ہو تا ہے دوسروں کو دبوچ لیتا ہے۔ملکہ وکٹوریہ نے پانیوں پر اپنا تسلط قائم کیا تو آدھی دنیا ان کے جھنڈے تلے آ گئی۔ان کی سلطنت اتنی وسیع و عریض تھی کہ اس پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔دوسری جنگِ عظیم کے بعد امریکہ اور سویت یونین دو بڑے طاقتور ممالک بن کر ابھرے ۔روس نے اپنی پڑوسی ریاستوں پر قبضہ کر کے سویت یونین کی بنیاد رکھی۔

دنیا سویت یونین کے نام سے کانپتی تھی ۔اس کا سکہ ہر سو چلتا تھا کیونکہ اس کے پاس بڑی فوج،بڑا علاقہ اور بڑا رقبہ تھا۔وہ زرعی پیداوار اور معدنی دولت سے بھی مالا مال تھا۔اس کی قیادت بھی سخت مزاج اور دبنگ تھی۔لینن،سٹالن،خرو شیف اور برز نیف جیسے قائدین نے روس کی توسیع پسندی میں جس طرح رنگ بھرے اس سے روس کی سرحدیں وسیع سے وسیع تر ہوتی گئیں۔١٩٧٩ میں افغانستان پر سویت یونین کی جارحیت نے اس کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیا۔دس سالہ جنگ سویت یونین کی تبای کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔١٩ ممالک سویت یونین کے آہنی پنجہ سے آزاد ہو گے اور یوں سویت یونین کا شیرازہ بکھر کر رہ گیا۔سویت یونین کے زمین بوس ہو جانے کے باعث روسی جا ہ جلال پر بھی ضعف کے آثار نمودار ہونے لگے ۔یہی وہ مقام تھا جہاں امریکہ دنیا کی اکلوتی سپر پاور بن کر ابھرا اور ساری دنیا اس کے ہاتھوں یرغمال بن گئی۔اس کرہِ ارض پر جو کچھ امریکہ چاہتا تھاویسا ہی ہوجاتا تھا۔

حکومتیں بنانا اور گرانا امریکہ کی چشمِ آبرو کی مار تھیں۔ پاکستان کے سارے مارشل لاء امریکی اشیر واد کے بغیر نا ممکن تھے۔امریکہ کا دنیا کی معیشت پر قبضہ تھا لہذا ساری دنیا کے مفادات امریکہ کے ساتھ جڑے ہوئے تھے ۔ دنیا اسلحہ اور ٹیکنالوجی میں امریکہ کی محتاج تھی اور یہی امریکہ سپر میسی کا نقطہ عروج تھا۔سویت یونین نابود ہو چکا تھا، برطانیہ ،فرانس،جرمنی ،جاپان،اسٹریلیا اور بھارت جیسے بڑے ممالک امریکی نوازشوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے تھے ۔کہیں امید کی کوئی کرن نہیں تھی کہ ایسے میں مشرق سے چین جیسی سرزمین پر زندگی کے آثار نظر آئے اور دیکھتے ہی دیکھتے چین تجارتی دنیا کا نیا لیڈر بن کر سامنے آیا ۔چینی معیشت دنیا کی دوسری بڑی معیشت بنی تو اس سے امریکہ ،یورپ اور بھارت پر لرزہ طاری ہو گیا۔

نائن الیون کے بعد دنیا دھشت گردی کا نشانہ بنی تو امریکہ نے افغانستان پر چڑھائی کر دی۔سینکڑوں ارب ڈالرز کے ضیاع کے باعث امریکہ کو دن میں تارے نظر آ نے لگے۔افغانستان میں طالبان کی حکومت تو ختم ہو گئی لیکن امریکہ کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔ملا عمر اور اسامہ بن لادن امریکی حملوں میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے لیکن ان کے لگائے ہوئے پودے کو جڑ سے اکھاڑا نہ جا سکا۔دو دہائیوں کے بعد ایک سمجھوتہ کے تحت طالبان کو اسی افغانستان میں حکومت سازی کا اختیار واپس دیا گیا جسے نائین الیون کے واقعہ کی وجہ سے چھین لیا گیا تھا۔امریکہ کی اس پسپائی نے قوانینِ قدرت پر اس انسانی یقین کو تقویت بخشی کہ دنیا تغیر پذیر ہے۔کہاں امریکہ جیسی سپر پاور اور کہاں افغانستان جیسا پسماندہ اور غریب ملک لیکن فتح اسی قوم کا مقدر بنی جس نے استقامت اور یقینِ کامل کا مظاہرہ کیا۔ افغانستان میں امریکی مداخلت کی وجہ سے امریکی معیشت زوال کا شکار ہوئی جبکہ چین روز افزوں ترقی کی علامت بن کر پوری دنیا پر چھا تا جا رہا ہے ۔،۔

روسی قیادت افغانستا ن پر امریکی چڑھائی کے بعد اپنی ضائع شدہ توانائی کی بحالی میں لگ گئی۔امریکہ کی کمزور معیشت اس کے لئے نعمتِ غیر متبرکہ ثابت ہوئی ۔ڈولنڈ ٹرمپ کا عہدِ صدارت بھی روسی اثرو رسوخ میں اضافہ کا پیش خیمہ ثابت ہوا ۔ صدر ڈولنڈ ٹرمپ نے جس طرح روس کیلئے میدان کھلا چھوڑا اس سے روس نے پڑوسی ریاستوں پر اپنے پنجے گاڑنے شرع کر دئے کیونکہ امریکی قصرِ صدا رت میں جو شخص برا جمان تھا وہ سیاسی دائو پیچ سے بالکل عاری تھا۔سیاست کے رموز سے نابلد شخص ریاستی باریکیوں کو محسوس کرنے سے قاصر تھا کیونکہ اسے امریکی مفادات کی بجائے ذاتی مفادات زیادہ عزیز تھے۔وہ نسلی امتیاز (گوروں اور سیاہ فاموں ) کی باہمی چپقلش سے اپنی سیاست کو تقویت دینے میں مگن تھا۔وہ امریکہ کو نسلی امتیاز میں تقسیم کے نظریہ سے اپنی دوسری ٹرم کی صدارت پکی کرنے کے خواب دیکھ رہا تھا لہذا اس کا سارا دھیان عالمی سیاست کی بجائے امریکی نسلی امتیاز پر مرکوز تھا۔

اس نے امریکی مفادات کو جس قدر نقصان پہنچایا اس کا تصور بھی محال ہے ۔اس کی صدارت کسی ڈرائونے خواب سے کم نہ تھی۔اس نے امریکہ کا وقار مٹی میں ملا دیااور اسے سرِ عام رسوا کر کے دم لیا۔ڈولنڈ ٹرمپ کا روسی صدر میخائل گوربا چوف سے موازنہ کیا جا سکتا ہے ،جس طرح گوربا چوف کے عہدِ حکومت میں سویت یونین کا شیرازہ بکھرا تھا ایسی ہی کیفیت ڈولنڈ ٹرمپ کے عہدصدارت میں امریکہ کیلئے پیدا ہو گئی تھی لیکن امریکہ کی خوش قسمتی کہ امریکہ شکست و ریخت سے بچ گیا۔لیکن اتنا بہر حال ضرور ہوا کہ اس کی ہوا اکھڑ گئی اور اس کی سپر میسی پر کئی بد نما داغ دھبے نمایاں ہو گے۔

جو بائیڈن کے صدر امریکہ بننے کے بعد امریکی سپر میسی کی بحالی کی جدو جہد شرع ہو ئی لیکن اس وقت تک پلوں کے نیچے سے کافی پانی بہہ چکا تھا۔یورپی اتحادی ناراض تھے اور نیٹو جیسا ادارہ غیر فعال ہو چکا تھا۔ایشیاکے اتحادی بھی ا فغانستان میں امریکی مداخلت کی وجہ سے نارا ض تھے ۔پاکستان کی اپنی شکایات تھیں،ایران کے اپنے شکوے تھے، سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں کے اپنے تحفظات تھے لیکن ڈولنڈ ٹرمپ بھارتی دوستی کی مستی میں کسی کو در خورِ اعتنا نہیں سمجھ رہا تھے ۔نریندر مودی اور ڈولنڈ ٹرمپ گہرے دوست بن کر ابھرے اور امریکی صدر نے دنیا میں بھارتی چودھراہٹ کی نئی راہیں کشادہ کرنے کی سعی کی۔ چین سے دشمنی اورمخا صمت کی نئی بنیادیں رکھیں اور اس کام کیلئے بھارت کو اہم ذمہ داریاں سونپی گئیں۔

پاکستان اور چین امریکی نشانے پر آگے ۔پاکستان نے اس پر دبے دبے لہجے میں اعتراض کیا لیکن نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے؟ڈولنڈ ٹرمپ کی شہ پر نریندرر مودی کا کشمیر پر بھارتی قبضہ اسی دور کی یاد گار ہے۔ پاکستان نے بڑا احتجاج کیا لیکن کہیں بھی شنوائی نہ ہوئی ۔علامہ اقبال نے تو کہا تھا(اے طائرِ لا ہوتی اس رزق سے موت اچھی ۔،۔جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کو تا ہی ) لیکن ایسا کہاں سے لائوں کہ تجھ سا کہیں جسے؟ بڑھکتے شعلوں میں کون چھلانگ لگا تا ہے؟پاکستان فقط بیانات کی حد تک محدود ہو گیا کیونکہ امریکہ اور بھارت سے بیک وقت پنجہ آزمائی اس کی بساط سے باہر تھی ۔قوم روتی رہی کشمیری قتل ہوتے رہے لیکن کسی کا دل نہ پسیجا کیونکہ (جرمِ ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات ہی ہوتی ہے)یہی تھا وہ ٹرننگ پوائنٹ جب روس میں دلامیر پیوٹن کی قیادت نے روسیوں کے اندر نئی روح پھونک دی۔

دلامیر پیو ٹن کی دانش، بے باکی اور جرات مندی نے روس کی ترقی اور مضبوطی کو مزید ہوا دی۔قیادت امین اور ذہین ہو تو قوم خود بخود مضبوط بن جاتی ہے۔یہ قیادت ہی تو ہوتی ہے جو عوام میں نئے جذبہ اور جوش کو جنم دیتی ہے،قائد کی جرات عوامی جرات کی مظہر بن جاتی ہے ۔قائد کی للکار قوم کی للکار بن جاتی ہے اور معمولے بھی شاہینوں کو شکست دے دیتے ہیں۔اب ایک طرف چین کی ابھرتی ہوئی معیشت تھی جبکہ دوسری جانب روس کی عسکری قوت تھی۔ان دونوں کی باہم یکجائی نے امریکہ کیلئے تشویشناک صورتِ حال پیداکر دی۔ چین کی بڑھتی ہوئی تجارتی سر گرمیوں اور روس کی توسیع پسندی نے نئے مسائل کھڑے کر دئے۔اسی کشمکش میں یوکرین پر روسی حملہ نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے جس میںانسانی تباہی یقینی ہے ۔ایک طویل جنگ کا آغاز ہو چکا ہے اور انسانی خون کا ضیاع نا گزیر ہو چکا ہے۔کاش کوئی سامنے آ کر اس کو اس ضیاع کو روک لے ؟

Tariq Hussain Butt

Tariq Hussain Butt

تحریر: طارق حسین بٹ شان