پی پی پی گگلی ماسٹر بمقابلہ متحدہ کنگ میکر

Bilawal Bhutto

Bilawal Bhutto

تحریر : قادر خان یوسف

پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت نے ایم کیو ایم پاکستان کو سندھ حکومت میں دوبارہ شمولیت کے لئے ایک غیر رسمی دعوت دی ۔ متحدہ نے پی پی پی کو ایک نپا تلا ردعمل دیا ہے لیکن اس وقت تحریک انصاف میں ہلچل مچی ہوئی ہے،کیونکہ ایم کیو ایم پاکستان نے وزرات اعظمیٰ کے لئے جن شرائط پر ووٹ دیا تھا، اس پر ابھی تک کوئی عمل درآمد نہیں ہوا، پی ٹی آئی جانتی ہے کہ ان کی حکومت،متحدہ پاکستان کے ہی مرہون منت بنی۔ایم کیو ایم پاکستان دوبارہ کنگ میکر بن کر ابھری، گو کہ ماضی کے مقابلے میں ان کی نشستیں بھی کم تھی اور تنظیمی ڈھانچے میں ٹوٹ پھوٹ کے عمل اور گروپ بندیوں کی وجہ سے سندھ کے شہری علاقوں سے پی ٹی آئی کو خلاف توقع ووٹ ملا۔ تاہم اس کے باوجود شاید ”قدرت“نے متحدہ پاکستان کو ایک موقع دیا کہ وہ اپنی ماضی کی غلطیوں کو درست کرلے اور جو کچھ لندن قیادت کی ایما پر کیا جاتا رہا، اس کا مدوا کرے۔

ایم کیو ایم پاکستان کئی حصوں میں تقسیم ہونے کے باوجود اپنا اتنا ووٹ بنک ضرور رکھتی ہے کہ اسے نظر انداز و ختم نہیں کیا جاسکتا۔پاکستان جب تک قائم ہے تب تک وہ عوام کے لئے کچھ کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ متحدہ کی ماضی کی پالیسوں و اقتدا ر میں ”آنیاں جانیاں“ والی داستانوں سے قطع نظر، سندھ کے شہری علاقے ترقیاتی کاموں و اپنے مسائل کے حل کے لئے منتظر ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کراچی کی معیشت،امن و سکون کو صرف ایم کیو ایم نے ہی نہیں بلکہ عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلز پارٹی سمیت کئی چھوٹے چھوٹے گروپوں نے مل جل کر نقصان پہنچایا۔ اس لئے کالی بھیڑوں کے خلاف آپریشن بھی بہت طویل ہوا، اب بھی ایسے عناصر موجود ہیں جو سندھ کے شہری علاقوں کے احساس محرومی کو ختم نہیں کرنا چاہتے، لیکن اس بار گیند ایک بار پھر متحدہ کی کورٹ میں ہے۔

ایم کیو ایم پاکستان یقینی طور پر وفاق سے اس موقع کا بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گی، جس میں سب سے پہلے متحدہ کے نائن زیرو کا کنٹرول اور سیکٹر و یونٹس کی بحالی سمیت کراچی آپریشن میں نرمی سرفہرست ہے۔ایم کیو ایم پاکستان کے نزدیک اُس کی بقا،اُس کے بیانیے میں ہے کہ اگر وہ پرانے سیٹ اپ کو تشدد کی پالیسی سے ہٹا کر دوبارہ آجاتی ہے تو عوام میں ختم ہوتے اعتماد کو اپنے چنداراکین اسمبلی کی مدد سے بھی دوبارہ بحال کرسکتی ہے۔ لیکن دوسری جانب وفاق کے لئے بڑا کڑا چیلنج بھی ہے کہ وہ ایم کیو ایم پاکستان کے سب سے اہم مطالبے کو پورا کرنے کے لئے کس طرح اسٹبلشمنٹ کو راضی کرانے میں معاون ہوسکتی ہے، تاہم اس کے لئے تحریک انصاف کو سب سے پہلے اپنے درمیان ہی اختلافات کا سونامی کو روکنا ہوگا۔متحدہ چاہے تو بیک وقت وفاق و صوبے میں دونوں جماعتوں کی اتحادی بن کر بھی رہ سکتی ہے۔ لیکن پی پی پی، تحریک انصا ف کی حکومت کو گرانے کے لئے بہت کچھ داؤ پر لگانے کے لئے تیار ہے اور سیاسی جماعتیں اچھی طرح جانتی ہیں کہ سیاست کے بازی گر کے پاس ایسے کئی پتے ہیں جو ابھی تک ظاہر نہیں کئے۔

ایم کیو ایم پاکستان، وفاقی دھارے میں شامل رہتے ہوئے بھی اپنے مقاصد حاصل کرسکتی ہے، لیکن اس کے لئے انہیں شہری علاقوں سے منتخب ہوجانے والوں کی شدید مزاحمت کا سامنا کرنا ہوگا۔ پی ٹی آئی سندھ کے اراکین اسمبلی، ذہنی طور پر فاروڈ بلاک بنا چکے ہیں، کیونکہ پی ٹی آئی سندھ کے منتخب اراکانِ قومی اور صوبائی اسمبلی اس وقت بری طرح فرسٹریشن و عوامی دباؤ کا سامنا کررہے ہیں۔انہیں عوام کے مسائل حل کرنے کے لئے ایک بڑے پیکج کی ضرورت ہے جو خالصتاََ تحریک انصاف کے اراکین کے لئے ہو، لیکن بدقسمتی سے وفاق، مسلسل کراچی کو ہی نظر انداز کررہا ہے اور یہ احساس محرومی بڑھتا ہوا، خود پی ٹی آئی کے اراکین، ووٹر و سپورٹر میں سرایت کرگیا ہے۔ وزیر اعظم لاکھ بار اپنے اراکین اسمبلی سے ملاقاتیں کریں، لیکن جب تک کراچی کے لئے اپنے نمائندوں کی سمریوں کو منظور نہیں کریں گے اُس وقت تک کچھ حاصل نہیں ہوگا۔

ایم کیو ایم پاکستان، پی پی پی کی باضابطہ پیش کش پر جلد بازی کرنے سے گریز کررہی ہے کیونکہ ماضی میں پی پی پی کے ساتھ ایم کیو ایم پاکستان کے تعلقات مثالی نہیں رہے،اس لئے صرف چند بے اختیار وزراتوں لے کر بھی ان کے دیرینہ مسائل حل نہیں ہوسکتے، بلکہ اس بات کا امکان زیادہ ہے کہ ان کی مشکلات میں اضافہ ہوجائے، کیونکہ ملک میں سیاسی انتقام کی جو لہر چل رہی ہے اُس کی ہواؤں کا رخ کراچی کا موسم تبدیل کرنے میں وقت نہیں لگائے گا۔ دو کشتیوں میں سوار ہونے سے قبل ان کے سامنے کئی امکانات ضرور موجود ہیں، لیکن اہم ترین امر یہ ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان، شہری علاقوں میں اپنا جوبن دوبارہ دیکھنے کے لئے ”مناسب وقت“ کا انتظار کررہی ہے۔

پی پی پی سے دوبارہ اتحاد، وفاق کے لئے خطرہ ہے، کیونکہ،مینگل گروپ بھی حکومت کی بدعہدیوں سے نالاں ہوچکے ہیں۔ چوہدری برداران ایک نئے سیٹ اپ کے لئے اس وقت مضبوط پوزیشن میں ہیں، ان حالات میں اگر ایم کیو ایم پاکستا ن، پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ق نے ایک ایسا میثاق حکومت بنا لیا تو تحریک انصاف کے لئے پنجاب سمیت وفاق میں حکومت میں رہنا ناممکن ہوجائے گا۔ ایم کیو ایم پاکستان ایک نئے میثاق حکومت میں شامل ہوکر وفاق سمیت صوبے میں بھی فوائد سمیٹ سکتی ہے، اس وقت پاکستان مسلم لیگ ن کسی بھی ایسے ٹرائیکا کی حمایت کرنے میں کسی پس و پیش کا مظاہرہ نہیں کرے گی جو موجودہ حکومت کوکسی طرح بھی اقتدار سے محروم کردے، یہی کچھ پی پی پی بھی کرنے کے لئے تیا ر ہے۔ ان حالات میں تحریک انصاف کے لئے اُن الیکٹیبلز کو سنبھالنا بہت مشکل ہوجائے گا جو ہر اُس حکومت کا حصہ ہوتے ہیں جہاں اقتدار کی فضائیں چل رہی ہوں، اُس وقت کسی کے لئے یہ کہنا مشکل نہیں ہوگا کہ”صبح کا بھولا شام کو گھر واپس آجائے تو اسے کوئی کچھ بھی نہیں کہے گا“،اس لئے ایم کیو ایم پاکستان کو اپنی صفوں میں موجود رکھنے کے لئے تحریک انصاف کو دل پر اوربڑا پتھر رکھنا ہوگا، ورنہ ”عوامی مفاد“ میں فیصلہ کرنے کا کسی بھی سیاسی جماعت کو جمہوری حق حاصل ہے۔

Qadir Khan Yousafzai

Qadir Khan Yousafzai

تحریر : قادر خان یوسف