وزیراعظم کے مشیروں اور معاونین خصوصی کے اثاثہ جات کی تفصیلات میں بڑے تضادات

Prime Minister Advisors Assets

Prime Minister Advisors Assets

اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) وزیراعظم کے مشیروں اور معاونین خصوصی کی طرف سے حکومت کو جمع کرائے گئے اثاثہ جات کی تفصیل میں ان کی طرف سے حکومت پاکستان کو اداکیے گئے ٹیکسوں کی تفصیلات موجود نہیں ہیں جب کہ اکثر کی طرف سے اپنے اثاثوں کی مالیت کو مارکیٹ قیمت سے کہیں کم ظاہر کیا گیا ہے۔

مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کی طرف سے جاری اثاثہ جات میں ابہام اور تضادات پائے جاتے ہیں۔

مشیر خزانہ نے اپنے نام زمین کی مد میں 20۔۔ ایم اور اہلیہ کے نام 103 ایم لکھا ہے ۔۔ یہ واضح نہیں کیا گیا یہ کہ مربعہ ہے یا کچھ اور ہے۔

مشیر خزانہ نے اپنی مرسیڈیز ای سیریز کی گاڑی کا ماڈل نہیں لکھا اور اس کی قیمت صرف پانچ ملین ظاہرکی ہے۔

پاکستانی مشیر خزانہ کے سات غیر ملکی اکاؤنٹس میں 134 کروڑ 75 لاکھ روپے مالیت کے مساوی ڈالرز و درہم ہیں جب کہ ان کے دو پاکستانی بینکو ں میں صرف اور صرف 25 ہزار روپے ہیں۔

حفیظ شیخ کی طرف سے ٹیکس کی مد میں جمع کرائے گئے کسی ایک دھیلے کا ذکر نہیں ہے۔

لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عاصم سلیم باجوہ کے اثاثہ جات میں ان کے بچوں کے اثاثہ جات کا ذکر موجود نہیں ہے، اہلیہ کے نام صرف 31 لاکھ کے شیئرز کا ذکر ہے جب کہ انہوں نے 2016 ماڈل کی ٹیوٹا پراڈو زیڈ ایکس کی قیمت صرف 30 لاکھ روپے لکھی ہے جو مارکیٹ میں کم و بیش 3 کروڑ روپے ملکیت کی حامل ہے۔

عاصم باجوہ کے اثاثوں میں گلبرگ گرین میں 5 کنال کا گھر، ڈی ایچ اے کراچی، ڈی ایچ اے اسلام آباد میں رہائشی پلاٹ، ڈی ایچ اے لاہور میں کمرشل پلاٹ جب کہ رحیم یار خان اور بہاولپور میں زرعی اراضی بھی شامل ہے۔

معاون خصوصی شہباز گل نے گلبرگ گرین میں 39 لاکھ روپے کا رہائشی پلاٹ اور 3 کروڑ 60 ہزار روپے مالیت کے فارم ہاؤس کا ذکر کیا ہے تاہم اس کی خریداری کے لیے آمدن کا ذریعہ نہیں لکھا، ان کے مجموعی اثاثہ جات 11 کروڑ 85 لاکھ 90 ہزار سے زائد ہیں۔ انہوں نے بھی اپنے ذرائع آمدن اور ٹیکسوں کی تفصیلات کا ذکر نہیں کیا۔

بابر اعوان نے اپنے اثاثہ جات میں بیٹے کے نام اسلام آباد کے سیکٹر آئی الیون میں دو پلاٹوں کی قیمت بالترتیب 31 لاکھ اور 29 لاکھ درج کی ہے تاہم پلاٹوں کا سائز نہیں لکھا، یاد رہے کہ اس سیکٹر میں پانچ مرلے کے پلاٹ کی قمیت کم و بیش 90 لاکھ روپے ہے۔

بابر اعوان نے اپنے ٹیکسوں اور آمدن کی تفصیلات کا ذکر بھی نہیں کیا۔

ثانیہ نشتر کے پاس صرف 5 لاکھ روپے کی جیولری ہے، ان کے شوہر کے چار مختلف اکاؤنٹس میں کم و بیش ایک کروڑ 81 لاکھ روپے ہیں جب کہ ان پر 30 لاکھ روپے کا قرض بھی واجب الادا ہے۔

تانیہ شاہد ایدرس کے پاکستان میں کوئی غیرمنقولہ اثاثہ جات سرے سے موجود ہی نہیں تاہم ان کے پاس 82 لاکھ روپے کی پاکستان میں ایک ٹیوٹا گاڑی ہے جس کا ماڈل اور دیگر تفصیلات لکھنا انہوں نے مناسب نہیں سمجھا۔

ان کے پاس 50 تولے سونا، امریکا اور برطانیہ میں پراپرٹی اور بینک اکاونٹس الگ سے ہیں ۔ انہوں نے اپنے شوہر کے اثاثہ جات کی تفصیل بھی لکھی ہے۔

زلفی بخاری برطانیہ میں ایک فلیٹ کے مالک ہیں جوکہ بینک کے ساتھ مارگیج کی گئی ہے، زلفی بخاری سیک ویلے لمیٹڈ نامی ایک کمپنی کے بھی مالک ہیں جس کی ملکیت برطانیہ میں دو اپارٹمنٹ بھی ہیں۔

زلفی برطانیہ میں چار قیمتی گاڑیوں اور پاکستان میں ایک لینڈ کروزر کے بھی مالک ہیں۔

وزیراعظم کے مشیران و معاونین کی طرف سے جمع کرائے گئے اثاثہ جات میں آمدن کے ذرائعے لکھے گئے اور نہ ہی ٹیکسوں کی تفصیلات، بعض نے تو اپنے اہل خانہ کے ملکیتی اثاثوں کا ذکر بھی نہیں کیا۔