پروفیسر غفور احمد کی کتابوں میں پاکستانی سیاست کی چشم دید کہانی !

Professor Ghafoor Ahmed

Professor Ghafoor Ahmed

تحریر : میر افسر امان

پروفیسر غفور احمد صاحب سابق نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان جوانی ہی میں جماعت اسلامی میں شریک ہوئے اور آخر دم تک جماعت سے ہی وابستہ رہے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ممبر رہے۔ کئی موقعوں پر گرفتارکیے گئے۔ کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔جن میں پھر مارشل لا آ گیا،اور الیکشن نہ ہو سکے، جنرل ضیاء الحق کے آخری دس سال، بے نظیر بھٹو کی نامزدگی سے برطرفی تک، نواز شریف کا پہلا دور حکومت ،بے نظیر کا پہلا دور حکومت، بے نظیر کا دوسرا دور حکومت بے نظیر حکومت کا عروج وزوال، پرویز مشرف آرمی ہائوس سے ایوان صدر تک اور نواز شریف اقتدار سے عتاب قابل ذکر ہیں۔ وہ پاکستان اور کراچی کے عوام کی توانا آواز تھے۔انہوں نے سیاست میں شرافت کے چلن کو عام کیا۔جماعتی زندگی میں نظم وضبط درخشاں مثالیں قائم کیں۔ ایم کیو ایم کے عروج کے زمانے کی بات کرتے ہوئے،ا یک سینئر صحافی نے ان کے گھر پہلی دفعہ جانے کا واقعہ بیان کرتے ہو ئے کہا کہ، میرا فون خود رسیو کیا ،دروازے پر خود آئے، جائے خود بنا کر لائے، کوئی سیکرٹیری، خدمت گار، گارڈ، محافظ نہ تھا۔ جبکہ اس شہر کراچی میں لوگ محافظوں اور خدمت گاروں کی فوج رکھتے ہیں۔ بہادر نڈر اور راست باز شخص تھے۔ سادگی کا پیکر تھے۔

پروفیسر غفوار حمد یو ڈی ایف اور پاکستان قومی اتحاد کے سیکر ٹری جرنل رہے۔ ان اتحادوں کی مذاکراتی ٹیموں کے سرکردہ ممبر بھی رہے۔ اتحادوں کی سیاست مفاہمت سے شروع ہوتی ہے۔ پروفیسر غفور احمد کو اس پر عبور حاصل تھا۔ وہ سیاسی رہنمائوں کو ملاتے تھے۔ تمام سیاسی لیڈروں سے ان کی ذاتی تعلقات تھے ۔ محاز آرائی پر آمادہ سیاست دانوںکو ہمیشہ یکجا کرتے۔ پروفیسر غفور احمد نے بزرگ سیاسی رہنمائوں نواب زادہ نصراللہ خان ،مولانا مفتی محمود پیر پگارا اور دوسرے سینئر سیاسی راہنمائوں میںہر دلعزیز تھے۔ وہ آئی جی آئی کے سیکرٹری جرنل تھے۔ ان کا ١٩٧٣ ء کے آئین بنانے میں بہت بڑا کردار تھا۔ ختم نبوت کی تحریک میں پیش پیش تھے۔

ہر سیاسی جماعت اور مکتبہ فکر میں یکساںمقبول تھے۔ایم کیو ایم کے عروج کے دوران جماعت اسلامی برنس روڈ پر جلسہ کیا۔ جلسہ تو جماعت اسلامی کا تھا مگر ایم کیو ایم زور ذبردستی سے برنس روڈ کے درمیان اور فلیٹوں پر دہشت گرد الطاف حسین کی تصویروں اور ایم کیو ایم کے جھنڈوں سے سجا تھا۔ عین اسٹیج کے برابر دہشت گرد الطاف حسین کا بہت بڑا پورٹریٹ سجا دیا۔ ایم کیو ایم کے ترانے بھی بجائے جاتے رہے۔جماعت اسلامی پاکستان کے امیر قاضی حسین احمد اور دو دفعہ کراچی کا میئر رہنے والے عبدلالستار افغانی سمیت جماعت اسلامی کے رہنمائوں نے ایم کیو ایم کے مظالم کے خلاف سخت تقریریں کیں۔ ہم کارکنوں پر خوف کا عالم طاری تھا۔

ہم لوگ سمجھ رہے کہ اب گولی چلی اور اب گولی چلی۔ ۔ ۔ جب پروفیسرغفور احمدنے تقریر کی تو الطاف حسین کی تصوریر کی طرف اشارہ کر کے کہا الطاف حسین تم برنس روڈ کے بے جان کھمبوں کی طرح ایک کھمبا ہو۔ میں بھی مہاجو ہوں۔تم نے مہاجروں کی فلاح بہبود کے لیے کچھ بھی نہیں کیا۔ جیسے یہ کھمبے نہیں حرکت نہیں کر سکتے ،ایسے تم نے بھی کوئی حرکت نہیں کی۔ کراچی سے قومی اسمبلی کی ٩ سیٹیں جیتنے کے بعد تمھارے ٩ کھمبوں نے بھی کچھ نہیں کیا۔ اس زمانے میں ایم کیو ایم کے سامنے کراچی میں کوئی سیاسی دینی جماعت نہیں کھڑی تھی۔ صرف جماعت اسلامی نے ا یم کیو ایم کی قومیت اور لسانی کی سیاست کی مذمت کی اور مقابلے پر ڈٹی رہی۔

متحدہ پاکستان کے آخری الیکشن میں مشرقی پاکستان سے مجیب اور مغربی پاکستان سے بھٹو کامیاب ہوئے تھے۔ بھٹو کو چاہیے تھا کہ وہ دوبارہ عوام کے پاس جاتا مگر ان ہی ممبران کی بنیاد پر حکومت کی۔فاشسٹ سوچ کی وجہ سے لوگ بھٹو کے خلاف ہوگئے تھے۔١٩٧٧ء کے انتخابات میں بھٹو نے کھل کر دھاندلی کرائی۔ پاکستان قومی اتحاد بنا۔بھٹو کے خلاف تحریک چلی۔پروفیسر غفور پاکستان قومی اتحاد کے سیکرٹیری کے منصب کی وجہ سے مذاکرات میں شامل تھے۔اپنی کتاب ” نواز شریف کا پہلا دور حکومت” میں لکھتے ہیں کہ پاکستان قومی اتحاد اور بھٹو میں مذاکرات کامیاب ہو گئے تھے، مگر ضیاء الحق نے مارشل لالگا دیا۔ ضیاء الحق نے دس سال تک حکومت کی۔قوم سے الیکشن کا وعدہ کر کے پورا نہیں کیا۔ اسی دور میں قصوری کے قتل کے الزام میں عدالت نے بھٹو کو پھانسی کی سزا دی۔ ضیاء الحق بہاول پور کے دورے کے دوران ضیاء الحق طیارے کے حادثے میں شہید ہو گیا۔

پروفیسر غفورلکھتے ہیں کہ نواز شریف نے کہا کہ اسلامی جمہوری اتحاد اقتدار میں آکر اسلام کے اعلیٰ قدروں کا احیاء کرے گا۔٢٤ اکتوبر کو اسلامی نظام کا سورج طلوع ہو گا۔نومبر ١٩٩٠ء میں اسلامی جمہوری اتحاد کو قومی اسمبلی کی ١٠٦ پی ڈی اے کو ٤٤ نشستیں ملیں۔ووٹو کے لحاظ سے پی ڈی اے کو صرف سوا لاکھ ووٹ کم ملے۔بے نظیر نے الزام لگایا کہ عوام کے ساتھ دھوکا ہواہے۔ نواز شریف اقتدار میں آکر اپنے وعدے سے مکر گئے۔ الٹا شرعی کورٹ کے سود ختم کرنے کے فیصلے کے خلاف سپریم کوٹ میں درخواست دی جو آج تک اٹکی ہوئی ہے۔ جب کبھی نواز شریف کو متوجہ کیا جاتا تو فرماتے کہ میں بنیاد پرست نہیں۔ لوگ نماز پڑھیں، روزہ رکھیں، زکوٰة دیں اور حج کریں اسلام نافذ ہو جائے گا۔ اس دور میں فوج کے تین سپہ سالار

٢
تبدیل ہوئے۔صدر اسحاق خان سے اختلاف پید ا کیے اور صدر نے ١٨ اپریل ١٩٩٣ء کو اسمبلی توڑ کر نواز شریف اور کابینہ کو بر طرف کر دیا۔ عدالت نے نواز شریف کو بحال کر دیا۔نواز شریف نے اپنا رویہ نہیں بدلاآخر کار فوج نے مداخلت کی۔ جنرل عبدالوحید کاکڑ نے شٹل ڈپلومیسی کر کے دونوں کو رخصت کر دیا۔۔ اپنی کتاب ”وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نامزدگی اور برطرفی تک” میں لکھتے ہیں کہ ملک میں نظام مصطفےٰ میں مقبولیت کی وجہ سے بے نظیر نے بیان دیا کہ وہ اپنے والد کی سوشلسٹ سوچ سے ہمیشہ دو ر رہی۔٨نومبر١٩٨٨ء کے الیکشن میں کامیابی کے بعد ٢ دسمبر ١٩٨٨ء بے نظیر نے حلف اٹھایا۔وہ پاکستان کی پیلی خاتون وزیر اعظم تھیں۔صدر اسحاق خان سے اختلاف ہوا ۔ صدر نے ٦ اگست ١٩٩٠ء کو اسمبلی توڑ کر بے نظیر کو برطرف کر دیا۔پھر ١٩٩٣ء کے ا لیکشن ہوئے۔ اس میں جماعت اسلامی اسلامک فرنٹ کے نام سے الیکشن میںحصہ لیا۔ اسلامک فرنٹ کو تین سیٹیں ملیں۔پیپلز پارٹی کو ٨٩ مسلم لیگ کو ٧٣ ملیں۔ پیپلز پارٹی کے مقابلہ میں تین لاکھ زائد ووٹ ملے۔ مرکز میںپیپلز پارٹی نے حکومت بنائی۔

فاروق لغاری صاحب کو صدر منتخب کیا۔بے نظیر نے امریکا کی حمایت حاصل کرنے کے لیے بیان دیا کہ ایٹمی پروگرام منجمد رکھیں گی۔ میر مرتضیٰ بھٹو بے نظیر کی مرضی کے خلاف پاکستان آئے۔اسی دور میں گھر کے سامنے قتل کر دیے گئے۔ غنوہ بھٹو نے اس قتل کا الزام زرداری اور بے نظیر پر لگایا۔بے نظیر نے فوج کے خلاف باتیں کیں۔بے نظیر جنرل نصیر اختر کو فوج کا سربراہ بنانے چاہتی تھیں صدر فارق لغاری سنیارٹی کے لحاظ سے جنرل جہانگیر کرامت کے حق میں تھے۔ دونوں میں اختلاف پیدا ہوئے۔ اس دور میں کرپشن عروج پر تھی۔نواز شریف نے بے نظیر کے خلاف سیاسی مہم شروع کی۔صدرلغاری نے کرپشن کے متعلق بے نظیرکو پانچ خطوط لکھے۔ بے نظیر نے کہا لغاری ہمارے بندے ہیں۔ لغاری نے کہا میں اللہ کو بندہ ہو۔ اگر حکومت غلط کام کیے تو عوام کان سے پکڑ کا ناکال دیں گے۔نواز شریف نے صدر سے کہا کہ پیپلز پارٹی کو چلتا کریں۔ قاضی حسین احمد نے پارلیمنٹ کے سامنے پر امن مظاہرہ کرنے کا اعلان کیا تو پیپلز پارٹی تکبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد میں نے کسی کو داخل نہیں ہونے دیں گے۔

سارے راستے سیل کر دیے ۔ مگر قاضی حسین احمد اسلام آباد میں داخل ہو ئے۔٢٤ جون ١٩٩٦ء کو قاضی حسین احمد کی زیرقیادت اسلام آباد میں تاریخ دھرنا دیا اور اپنی تنظیمی طاقت کا لوہا منوایا۔ رولپنڈی میں احتجاج پر جماعت اسلامی کے جلوس پر فائرنگ کی گئی۔ جماعت اسلامی کے دور کاکن شہید اور کئی زخمی ہوئی۔ مگر جماعت اسلامی نے اسلام آباد میں دھرنا دیا۔ کامیاب دھرنے کے بعد پارلیمنٹ کے سامنے جماعت اسلامی کے کارکنوں نے دو رکعت نماز شکرانہ ادا کیے۔صدر لغاری نے ٣ نومبر ١٩٩٦ء کو رات دو بجے بے نظیر کی حکومت برطرف کر دی۔ صدارتی ذرایع نے کہا کہ بے نظیر خود کرپشن کی تمام حدود پار کر چکی ہے۔پیپلز پارٹی کے ساتھ فرنڈلی اپوزیش کا کرادر ادا کرنے کے بعدنواز شریف تیری بار ١٩٩٧ء کے الیکشن میں ٹو تھرڈ مجارٹی کے ساتھ اقتدار میں آئے۔ اپنی کتاب” پرویز مشرف آرمی ہائوس سے ایوان صدر تک” میںلکھتے ہیں کہ بھارت پانچ ایٹمی دھماکوں کے مقابلے میں ١٩٩٨ء میںچھ ایٹمی دھماکے کروا کر پاکستان کے ہیرو بن گے۔ پرویز مشرف کو فوج کا سربراہ بنایا۔ نواز شریف کی جیسے پہلے فوجی سربراہوں سے ان بن تھی۔ پرویز مشرف سے بھی نہ بن سکی۔

پرویز مشرف نے کارگل کی جنگ چھیڑ دی۔ نواز شریف نے پرویز مشرف کو زبردستی کولمبو میں ایک میٹینگ میں بھیجا ۔ جب پرویز مشرف مشرف واپس ملک آرہے تھے جہاز میں سوار تھے، تو اسی ددران مشرف کو برطرف کر کے جنرل ضیا بٹ صاحب کو فوج کا سربراہ بنا دیا۔فوج نے اسے اپنی انسلٹ سمجھا اور ملک میں اقتدار پر قبضہ کر لیا ۔١٢ اکتوبر١٩٩٩ء کو فوج نے ملک میںمار شل لاء لگا کر نواز شریف کا اقدار ختم کر دیا۔ پرویزمشرف نے طیارہ اغوا کا مقدمہ قائم کیا۔٦ اپریل ٢٠٠٠ء کو خصوصی عدالت نے نواز شریف کو عمر قید کی سزا سنائی۔١٤ دسمبر ٢٠٠٠ء کو نواز شریف ایک معاہدے کیا۔ اس کے تحت جس میں دس سال تک سیاست میں حصہ نہیں لیں گے۔ ملک بھی نہیں آسکیںگے۔ اپنے خاندان کے ساتھ سعودی عرب چلے گئے۔

پروفیسر غفور احمد لکھتے ہیں کہ١٢مئی٢٠٠٠ء کوبارا رکنی عدالتی بینچ نے ١٢اکتوبر کے اقدام کوریاستی نظریہ ضرورت کے تحت جائز قرار دیتے ہوئے کہا کہ تین سال کے اندر قومی اور صوبائی الیکشن کرائے جائیں ۔سپریم کورٹ نے پاکستان کے آئین میںمحدود اور مشروت ترمیم کا حق بھی دیا۔وزارت دفاع نے پرویز مشرف کی مدت ملازمت جو ٦ اکتوبر ٢٠٠١ء کوختم ہونے سے قبل غیر معینہ توسیع کر دی۔ پرویز مشرف نے٢٠ جون کو نواز شریف کے لگائے گئے رفیق تاڑ کو صدر کے عہدہ سے سبکدوش کر کے خود صدر کا عہدہ سنبھال لیا۔٢٠٠٢ء کو ریفرنڈ م کروا کے ملک کے صدر بن گئے۔امریکا نے پرویز مشرف کی حکومت کو تسلیم کر لیا۔ دولت مشترکہ نے رکنیت معطل کر دی۔١١ ستمبر ٢٠٠١ء کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر اسامہ بن لادن پر الزام لگا کر افغانستان پر حملہ کرنے فیصلہ کیا۔ وزیر خارجہ کولن پاول نے رات گئے پرویز مشرف کوفون پر دھمکی دے کر تعاون طلب کیا۔ پرویز مشرف نے بغیر مشورے کے سارے کے سارے مطالبات مان کر امریکا کو لاجسٹک سپورٹ کے نام پر پاکستان کے ہوائی ،بری اور بحری راستے استعمال کرنے کی اجازت دے دی۔ ١٠ اکتوبر ٢٠٠١ء کو امریکا نے ٤٠ ملکوں کے ناٹو اتحادیوں کے ساتھ مل کر پڑوسی مسلمان ملک افغانستان کی امارت اسلامیہ افغانستان پر قبضہ کر کے اسے ختم کر دیا۔دنیا کا سب سے بڑا بم گرا دیا۔ کارپٹ بمباری کی۔ کیمیائی ہتھیار استعمال کیے۔جماعت اسلامی، جمعیت علمائ(س) اور جمعیت علمائے پاکستان کے، قاضی حسین احمد، مولانا سمیع اللہ، شاہ احمدنورانی اور عمران خان نے مخالفت کی تھی۔بے نظیر اوراسفند یارولی نے حمایت کی۔امریکا کی کونڈا لیزا رائس نے کہا کہ ہم غالب ہیں ۔اپنے مفادات کے لیے سب کچھ کر سکتے ہیں۔لیکن امریکا تکبر ،فاقہ کش افغانوں نے زمین میں ملا دیا۔ امریکا اور ٤٠ ناٹو اتحادیوں کو ا

٣
فغان طالبان نے شکست دی۔ اب امریکا نے طالبان سے ایک معاہدہ کیاہے کہ وہ افغانستان سے مکمل نکل جائے گا۔ بھارت نے پاکستان کو دھمکی دی کہ وہ پاکستان کی شکل بدل دے گا۔بھارت نے اپنے دس لاکھ فوج پاکستان کی سردوں پر لگا دی۔ پرویز مشرف نے کہا کہ ہم ڈٹ کر مقابلہ کریں گے، پھر بھارت پیچھے ہٹ گیا۔ پرویز مشرف نے کہا تھا کہ ٣١٨ افراد نے ملک کے ٢٠٠سور بلین روپے لوٹ لیے ہیں۔ یہ سب واپس لائیں گے۔ کرپشن کو ختم کرنے کے لیے پرویز مشرف نے ایک احتساب بیورو بنایا۔مگر اس کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ کرپشن کو کوئی بھی پیسا رواپس نہیں لایا۔پہلے ہی سال مہنگاہی میں٣٠ فی صد اضافہ ہوا۔سپریم کورٹ کے معدود اختیار دینے کو استعمال کر کے ٢٩ ترمیم کے ذریعے صدر کو اسمبلی ٹورنے کا اختیار ، صوبوں میں مرضی کے گورنر لگانے کا اختیار، کلیدی عہدوں پر تقرری کے اختیار،قبل از وقت اسمبلی تحلیل کرنے ، نگران کابینہ کا اختیار اور سلامتی کونسل کے چیئرمین کا اختیار حاصل کر لیا۔پرویز مشرف نے اپنی حمایت کے لیے (ق) لیگ بنائی۔ وزیر اعظم کے بجائے اختیارت صدر کے پاس منتقل ہو گئے۔اس کے باجود ١٠ اکتوبر ٢٠٠٢ء کو سیاسی جماعتوں نے الیکشن میںحصہ لیا۔پرویز مشرف صدر اور آرمی چیف تھے۔ قومی اسمبلی میں ایم ایم کے مولانا فضل لالرحمان قائد حذ ب اختلاف بنے۔ مرکزی اقتدار پرویز مشرف کے پاس ہی رہا۔ پنجاب میں ق، سندھ میںپیپلز پارٹی،، سرحد اور بلوچستان میں ایم ایم اے نے حکومتیں بنائیں۔

صاحبو! پاکستان میں سیاست دانوں کی غلطیوں کی وجہ سے چار بار مارشل لاء لگا۔ طاقت ور جمہوریت کی رہ کھوٹی ہوئی۔ پھر بھی جمہوری عمل جاری رہا۔ملک میں کرپشن عام ہے۔موجودہ نیب کی کاردگی بھی صحیح نہیں۔ کرپٹ سیاست دان اپنے اپنے سوشل میڈیا ٹیموں کی وجہ سے پھر ہیرو بن رہے ہیں۔ غریب عوام کی خزانے میں کوئی بھی قابل ذکر پیسا داخل نہیں ہوا۔اس لیے عمران خان حکومت کو صدراتی ایکٹ کے ذریعے کوئی قانون بنانا چاہیے ۔ بار ثبوت کرپٹ لوگوں کی ذمہ ہو۔ آمدنی سے زیادہ اثاثے رکھنے والے ہر فرد کو عدالت کی طرف سے چھ ماہ کا وقت دیا جائے کہ وہ خود اپنے اثاثوں کے بارے میں ثبوت پیش کریں۔ ثبوت نہ پیش کرنے کی صورت میں اس شخص کے آمدنی سے زاہد اثاثے ضبط کر کے غریب عوام کے خزانے میں داخل کیے جائیں تو عوام مطمئن ہوں گے۔

عمران خان جو علامہ اقبال کے خواب اور قائد اعظم کے وژن کے مطابق پاکستان میں مدینے کی اسلامی فلاحی ریاست کے دستور کے ساتھ الیکشن میں کامیاب ہوئے تھے۔ مگر اب ارد گرد کرپٹ سیاست دانوں کی وجہ سے غیر مقبول ہو رہے ہیں۔مہنگاہی روز بہ روز بڑھ رہی ہے۔ عوام آئی ایم ایف کی پالیسیوں کی وجہ سے غریب سے غریب تر ہوتے جارہے ہیں۔ عمران خان بھی اپنے پیش روں کی طرح غیر مقبول ہو رہے ہیں۔جب تک اس ملک میں صحیح اسلام کا نظام حکومت قائم نہیں ہوتا عوام کی حالت نہیں بدلے گی۔ ملک کی حالت بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔لہٰذا ملک میں وہ ہی پارٹی عوام کے دکھوں کا مداوا کر سکتی ہے جس کی پوری تنظیم کرپشن سے پاک ہے۔اس کے امیر کو پاکستان کی سپریم کورٹ نے بھی کرپشن سے پاک ہونے کا سرٹیفیکیٹ دے دیا ہے۔ پروفیر غفور احمد نے بھٹوسے لے کرپرویز مشرف تک ملک کی خرابیوں کی کہانی اپنی ان کتابوں میں بیان کر دی ہے۔ مقتدر حلقے اس کہانی سے سبق حاصل کر سکتے ہیں۔۔مگر تاریخ کا یہ المیا ہے کہ مقتدر حلقے تاریخ سے سبق حاصل نہیں کرتے؟ اللہ پاکستان میں کرپشن سے پاک سیاست دانوں کے ذریعے خوشحالی لائے آمین۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر : میر افسر امان