جائیں تو جائیں کہاں

Inflation

Inflation

تحریر : ریاض احمد ملک

آج میں گھر سے نکلا تو ایک جگہ ٹہرنے کا اتفاق ہوا اس جگہ ایک دلخراش بات سامنے آئی ایک ننھا منا سا بچہ جس کی عمر شائد 6 سال ہو گی میں اس سے باتیں کر رہا تھا کہ اس نے بتایا کہ اس نے شام کو کھانا نہیں کھایا دوپہر کو بھی آٹا نہ ہونے کی وجہ سے اس نے کھانا نہیں کھایا اور صبح بھی وہ بغیر کھائے پئیے گھر سے آیا ہے میں اسے دیکھ کر سخت پریشان تھا ادھر میرے دوست نے بتایا کہ حکومتی تین سالہ کارکردگی پیش کر دی گئی ہے جس میں حکومت نے اربوں روپے کے پراجیکٹ مکمل کر لئے ہیں جن میں سڑکیں ہسپتال سکول کالجز وغیرہ شامل ہیں میں حکومتی کارکردگی کو دیکھ رہا تھا اور بار بار وہ بچہ میرے سامنے آ جاتا جس کے بارے میں معلوم ہوا کہ اس کا والد کہیں دھاڑی دار ہے ا ج دو روز سے ان کے گھر میں آٹا نہیں تھا۔

دوسری جانب میں نے ایک خبر پڑھی کہ چینی 5روپے مہنگی کر دی گئی ہے دالوں بیسن کے ریٹ بھی بڑھا دئیے گئے ہیں ایک دھاڑی دار مزدور جو اس وقت مہنگائی کی چکی میں پس رہا ہے وہ سارا دن مزدوری کر کے گھر کے لئے آٹا نہیں لا سکتا آٹا لائے تو گھی یا چینی لانا اس کے بس میں نہیں ہوتا یہ ایک کڑوا سچ ہے کہ موجودہ حکومت سے کچھ سمبھالا نہیں جا رہا اقتدار میں آنے سے قبل انہوں نے جو نوکریاں دینے کا وعدہ کیا تھا کہا ہے ان کا کہنا تھا کہ پیٹرول کی قیمت بڑھے تو سمجھو وزیراعظم چور ہے اب یہ بتائو کہ کون چور ہے یہاں تو ہر مہینے پیڑولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں۔

جناب کا فرمانا ہوتا تھا کہ ہم قرض نہیں لیں گے بلکہ ڈالر ان کی مٹھی میں ہیں کیا موجودہ حکومت قرض نہیں لے رہی قرض بھی ان شرائط پر لے رہی ہے کہ عوام زندہ درگور ہو رہے ہیں جناب نے بجلی کی قیمت میں اضافے کی بات کر کے بجلی کے بل جلا دئیے تھے اب بجلی کا بل دیکھ کر غریب کے ہوش اڑ جاتے ہیں کوئی شکایت سننے والا نہیں ہوتا ہر محکمہ میں کام نہ کرنے کی تو تنخواہ لی جاتی ہے جبکہ کام کرنے کی رشوت لی جاتی ہے پہلے تو اسے کریپشن کہا جاتھا اب نئے پاکستان میں اسے اللہ جانے کیا کہا جا رہا ہے ہم نے تو کریپشن سے پاک ملک بنانا تھا یہ کیا ہو رہا ْ؟اب آئیں تین سالہ کارکردگی پر تو کبھی میڈیا پر حکومتی پراجیکٹ مکمل ہوتے دیکھائی نہیں دئیے ملک میں کوئی موٹروے نہیں بنی اب میں چکوال کا تذکرہ کروں یہاں کونسی نئی سڑک بنی ہے۔

چکوال خوشاب روڈ اس کی مثال ہے جس پر سفر کرنا محال ہے ہسپتالوں کا رخ کریں تو سرکاری ہسپتال میں ایڈمنٹ مریض کو ایک گولی بھی نہیں ملتی اسے ایک پرچی تھما دی جاتی ہے کہ یہ ادویات لے آو یہاں صرف بیڈ فری ملتا ہے یا ڈاکٹر جو اسے چیک کرتے ہیں لیباٹریوں کی حالت یہ ہے کہ ان کے ٹیسٹ 80فیصد درست نہیں ہوتے آج میں راقم الحروف جو بات لکھ رہا ہوں میرے اپنے ساتھ بیتی ہے یہاں میری بیوی کو کالا یرقان قرار دے کر جس ازیت میں ڈالا گیا ببعد ازاں باہر لیباٹری کے ٹیست میں ایک فیصد بھی یرقان نہیں تھامگر کسی کو کوئی پسیمانی نہ ہوئی پرائیویٹ ہسپتال میں ڈلیوری کے 25ہزار لگتے ہیں سرکاری ہسپتالوں میں بھی اس سے کم خرچ نہیں آتامیرے پاس درجنوں ایسی خبریں آتی ہیں جن سے عوام کو سخت مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔

کیا خبر اخبار میں چھپنے کے بعد اس کا کوئی نوٹس لیتا ہے جواب نفی میں آئے گا ھکومت کی تین سالہ کارکردگی صفر ہے مہنگائی کو دیکھیں اب یہ بتائیں کہ کیا حضرت عمر فاروق نے یہ نہیں کہا تھا کہ دریائے دجلہ کے کنارے کتا بھوکھا مر گیا تو جواب عمر کو دینا پڑے گا کیا یہی ریاست مدینہ ہے جہاں غریب کو روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں اور حکمران سب ٹھیک کی رٹ لگائے ہوئے ہیں ان سے پوچھو تو میڈیا ان کے خلاف تاجر ان کے خلاف اپوزیشن ان کے خلاف یا سب کیوں آپ کے خلاف ہیں پلیز سوچو تو سہی کہ آپ کی حکومت میں غریب کے ساتھ کیا بیت رہی ہے اب غریب کو نہ سڑکوں کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی اور چیز کی پلیز مہنگائی پر کنٹرول کریں۔

Riaz malik

Riaz malik

تحریر : ریاض احمد ملک