کائی میں موجود پروٹینز 20 سال سے نابینا شخص کی بینائی لوٹانے کا سبب بن گئے

Blind

Blind

برطانیہ : کائی یا ایلجی میں پہلی بار دریافت ہونے والے پروٹینز کی مدد سے ایک مکمل طور پر نابینا شخص کی بینائی جزوی طور پر بحال کرنے میں مدد ملی ہے۔

اس شخص کا علاج اوپٹوجینیٹکس نامی تکنیک سے کیا گیا ہے جس کے ذریعے اُن کی آنکھ کی پشت پر موجود خلیوں کو ان پروٹینز کی مدد سے کنٹرول کیا گیا۔

اُنھیں پہلی مرتبہ بینائی ملنے کا تب معلوم ہوا جب اُنھیں احساس ہوا کہ وہ سڑک پر راہگیروں کے لیے بنائی گئی رنگین پٹیاں دیکھ سکتے ہیں۔

نیچر میڈیسن نامی جریدے میں شائع ہونے والے اس مطالعے کے مطابق اب وہ میز پر پڑی چیزوں کو پکڑ اور گن سکتے ہیں۔

فرانس کے شہر بریٹنی میں رہنے والے اس شخص کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی ہے۔ ان کا علاج پیرس میں کیا گیا۔

اُن میں 40 سال قبل ریٹینیٹس پگمینٹوسا نامی بیماری کی تشخیص کی گئی تھی جو آنکھ کے پردے پر روشنی محسوس کرنے والے خلیوں کی موت کا سبب بنتی ہے۔

اس بیماری سے دنیا بھر میں اندازاً 20 لاکھ سے زیادہ لوگ متاثر ہوتے ہیں۔ ویسے تو اس بیماری میں مکمل نابینا پن کم ہی سامنے آیا ہے مگر گذشتہ دو دہائیوں سے اس شخص کی بینائی مکمل طور پر ختم ہو چکی تھی۔

اُن کا علاج اوپٹوجینیٹکس کے ذریعے کیا گیا۔ یہ طب میں ایک نیا شعبہ ہے مگر ایک طویل عرصے نیوروسائنس کا بنیادی حصہ رہی ہے۔

اس تکنیک میں روشنی کے ذریعے دماغی خلیوں کی حرکات کو کنٹرول کیا جاتا ہے اور اس کے ذریعے سائنسدان اُن کی ایک آنکھ میں روشنی محسوس کرنے کی صلاحیت لوٹانے میں کامیاب ہوئے۔

یہ تکنیک اُن پروٹینز پر مبنی ہے جو الجی یعنی سمندری کائی میں پیدا ہوتے ہیں۔ اُنھیں چینل رھوڈوپسن کہتے ہیں جن میں روشنی پڑنے پر تبدیلیاں پیدا ہونے لگتی ہیں۔ خردبینی جاندار ان کے استعمال سے روشنی کی جانب جانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔

اس علاج کا سب سے پہلا قدم جین تھیراپی ہے۔ رھوڈوپسن بنانے کی جینیاتی ترکیب الجی سے لی گئی اور اُن کی آنکھ کے پردے پر موجود گہری تہوں میں موجود خلیوں میں شامل کی گئیں۔ پھر اس کے بعد جب اُنھیں روشنی پہنچائی گئی تو وہ دماغ کو برقی سگنل بھیجنے لگے۔

لیکن وہ صرف زردی مائل روشنی پر ہی ردِعمل دے رہے تھے، چنانچہ مریض کو سامنے ویڈیو کیمرا اور پیچھے پروجیکٹر والے چشمے پہنائے گئے تاکہ حقیقی دنیا میں ہونے والے واقعات کو عکس بند کیا جا سکے اور پھر درست ویو لینتھ کے ذریعے اُن کی آنکھ تک پہنچایا جائے۔

اُن کی آنکھ میں رھوڈوپسنز کی کافی مقدار تیار کرنے اور دماغ کو دوبارہ دیکھنا سیکھنے میں کئی مہینے لگے۔

اس علاج کے کارگر ہونے کا سب سے پہلے اندازہ تب ہوا جب مریض چہل قدمی کے لیے گئے اور اچانک اُن کے سامنے ایک زیبرا کراسنگ کی پٹیاں آئیں۔

پیرس میں انسٹیٹیوٹ آف وژن کے ڈاکٹر ہوزے ایلین سہل کا کہنا ہے: ‘یہ مریض شروع میں کچھ بے چین تھے کیونکہ اُنھیں انجیکشن لگانے کے بعد بھی اُن کی بینائی لوٹنے میں ایک طویل عرصہ لگا۔

‘مگر جب وہ اچانک بتانے لگے کہ وہ سڑک پر موجود سفید پٹیاں دیکھ سکتے ہیں تو آپ سوچ سکتے ہیں کہ وہ کتنے پرجوش ہوں گے۔ ہم سب ہی بہت پرجوش تھے۔’

ان کی بینائی اب تک مکمل طور پر بحال نہیں ہوئی ہے مگر بینائی نہ ہونے اور بالکل معمولی بینائی ہونے میں بھی جو فرق ہے، وہ زندگی تبدیل کر دینے جیسا ہو سکتا ہہے۔

یونیورسٹی آف بیسل کے پروفیسر بوٹونڈ روسکا کہتے ہیں: ‘اس مطالعے کے نتائج سے اس تصور کی تصدیق ہوتی ہے کہ اوپٹوجینیٹکس تھیراپی کے ذریعے جزوی طور پر بینائی کی بحالی ممکن ہے۔’

بینائی لوٹانے کے لیے اور بھی کئی قسم کے علاج آزمائے جا رہے ہیں۔

ان میں سے ایک طریقہ اُن جینیاتی نقصان کی مرمت کرنا ہے جو نابیناپن کی وجہ بنتے ہیں، مگر ریٹینیٹس پگمینٹوسا 71 سے زائد جینز میں تبدیلی کی وجہ بنتی ہے جس کے باعث یہ ایک چیلنج بن جاتا ہے۔

اس کے علاوہ ایک اور تکنیک میں آنکھ کی پشت پر الیکٹروڈز نصب کیے جاتے ہیں جنھیں ایک کیمرا سے منسلک کر دیا جاتا ہے۔

اوپٹوجینیٹکس کے ذریعے پارکنسنز کے علاج کے لیے بھی تحقیق کی جا رہی ہے اور یہ بھی دیکھا جا رہا ہے کہ کیا اس سے سٹروک سے بحالی میں مدد مل سکتی ہے یا نہیں۔

برطانیہ کی یونیورسٹی کالج لندن میں ریٹینل سٹڈیز کے پروفیسر جیمز برین برج کہتے ہیں کہ یہ مطالعہ اعلیٰ معیار کا ہے مگر صرف ایک مریض پر مشتمل ہے۔

اُنھوں نے کہا: ‘یہ نئی ٹیکنالوجی شاید اُن لوگوں کی مدد کر سکے جن کی بینائی شدید متاثر ہے۔’