وارث اور بے وارث

Police

Police

تحریر : ناصر اقبال خان

دن بھر رضائی پر تمہارا اختیار ہو گا جبکہ رات بھر میرے استعمال میں رہے گی ،دوچار پائیوں میں سے ایک پرتم اور دوسری پر میں سویا کروں گا ۔ ہماری واحد گائے آگے سے تمہاری جبکہ پیچھے سے میری ملکیت ہوگی ۔گائے کے منہ پر تمہارا حق ہے اسلئے روزانہ اسے چارہ دینا اور پانی پلانا تمہاری ڈیوٹی ہوگی لیکن گائے کے پچھلے حصہ سے دودھ میں استعمال کروںگا۔بڑے بھائی نے اپنے مرحوم باپ سے ملے ورثہ کابٹوارہ اوراپنی طرف سے مصنوعی رحمدلی کامظاہرہ کرتے ہوئے چھوٹے بھائی کواپنافیصلہ سنادیا،چھوٹا بھائی کئی روزتک اپنے بڑے بھائی کی شعبدہ بازی کوسمجھ نہ پایا ۔رات کوبڑا بھائی سونے کیلئے رضائی میں گھس جاتا جبکہ چھوٹارات بھر سردی میں ٹھٹھرتارہتا۔چھوٹابھائی اچھی خاصی مشقت کے بعد گائے کوچارہ اورپانی فراہم کرتا جبکہ بڑابھائی آرام سے دووقت اس کادودھ پی جاتا۔ پھرایک دن گائوں کے کسی دانا بزرگ نے اس نادان کو اپنے حق کی بازیابی کاطریقہ سمجھادیا جس پراس نے اگلی صبح رضائی بھگودی جب رات ہوئی توبڑے بھائی نے دیکھا تواسے پوچھا جس پراس نے کہادن کے وقت یہ میری ملکیت تھی سومجھے جومناسب لگامیں نے وہ کیا۔دوسرے دن صبح کے وقت بڑے بھائی نے گائے کادودھ دھوناشروع کیا توچھوٹے نے گائے کے منہ پر چھڑی مارناشروع کردی جس نے دودھ دھونادشوار ہوگیا ۔بڑے بھائی نے احتجاج کیا توچھوٹے نے کہا گائے آگے سے میری ملکیت ہے میں جومرضی کروں ۔چھوٹے بھائی میں یہ” تبدیلی” اورخوداعتمادی دیکھتے ہوئے بڑے بھائی نے اس کے ساتھ” برابری” کی بنیادپرسمجھوتہ کرلیا ۔ہمارابچپن سے پچپن تک کاسفر طے ہوگیا لیکن اس کہانی کامفہوم ،پیغام اور انجام آج بھی یادہے۔ یہ کہانی پنجاب کی سول انتظامیہ پرصادق آتی ہے ،پنجاب کے”بابو ”جس طرح پولیس کااستحصال کرتے ہیں اس طرح کسی دوسرے صوبہ میں پولیس کاحق غصب نہیں کیاجاتا۔امن وامان کیلئے جام شہادت پولیس آفیسرزاوراہلکارنوش کرتے ہیں جبکہ شاندار دفتر میں بیٹھا ”بابو”مراعات سے مستفید ہورہا ہے۔خیبرپختونخوا پولیس کو ایگزیکٹوالائونس کیلئے پشاورہائیکورٹ کادروازہ کھٹکھٹاناپڑا اورعدالت سے انہیں انصاف کی صورت میں اپناحق مل گیا۔گلگت بلتستان کے وزیراعلیٰ اپنے طورپروہاں کی پولیس کوایگزیکٹوالائونس دے رہے ہیںجوان پراحسان نہیں بلکہ ان کاحق ہے ۔

بحیثیت وزیراعلیٰ پنجاب میاںشہبازشریف کے دوراقتدارمیں پولیس آفیسرز اوراہلکاروں کی زندگی کودرپیش خطرات کودیکھتے ہوئے ان کی تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافہ کیا گیا اورانہیں رسک الائونس بھی ملتا رہا لیکن پھر ”بابوئوں”نے اپنااثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے ایگزیکٹوالائونس کی آڑ میں اپنی تنخواہوں میں ڈیڑھ سوگنااضافہ کروالیا جبکہ منافقت اورتعصب کے نتیجہ میںپنجاب پولیس اورجیل خانہ جات پولیس کے17ویں گریڈسے اوپرکے آفیسرز ایگزیکٹوالائونس سے محروم رہے ۔حقیقت میں فرض منصبی کی بجاآوری کے دوران” بابوئوں” کی زندگی کو اس طرح خطرات کاسامنا نہیں ہوتا جس طرح پنجاب پولیس اورجیل پولیس کے آفیسرزاوراہلکاردوران ڈیوٹی خطرات سے کھیلتے اورجام شہادت نوش کرتے ہیں ۔پنجاب پولیس اورجیل پولیس کے آفیسرزکوایگزیکٹوالائونس سے محروم رکھنایقیناپنجاب حکومت کا ایک عاقبت نااندیشانہ ،متعصبانہ اقدام اور امتیاز ی برتائو مانا جائے گا جس کے نتیجہ میں پولیس آفیسرز میں بددلی پھیلناجبکہ مجموعی طورپرپنجاب پولیس اورجیل پولیس کامورال ڈائون ہونافطری امر ہے۔

پنجاب میں ”ڈی ایم جی”گروپ کے ”بابو” خودساختہ بڑے بھائی بنے بیٹھے ہیں اوران کے ہاتھوں
” پی ایس پی” کا بدترین استحصال ہورہا ہے۔ ڈی ایم جی گروپ کولگتا ہے اقتدارواختیار ان کے محلات کی باندی جبکہ صوبہ ان کے رحم وکرم پرہے اوروہ نظام کیلئے ناگزیر ہیں جبکہ پی ایس پی اوران کے ماتحت وردی پوش سرفروش اہلکار ملک میں امن وامان کی حفاظت کیلئے اپنی بیش قیمت جانوں کانذرانہ پیش کرتے ہیں۔اگر یہ کہا جائے 1500سے زیادہ شہداء کی وارث پنجاب پولیس کاکوئی والی وارث نہیں توبیجانہیں ہوگا۔وارث شاہ نے شاید” بابوئوں” کیلئے کہا ہے ”وارث ناں کرمان وارثاں دا……ربّ بے وارث کرمارداای”۔ پنجاب پولیس اورجیل پولیس دونوں اداروں کے آفیسراوراہلکار7/24بنیادوں پرآن ڈیوٹی ہوتے ہیں،عیدین سمیت کسی تہوار پریہ ادارے ایک پل کیلئے بندنہیں ہوتے۔ملک میں کروناوبا سے بچائوکیلئے بھی پولیس کوہراول دستہ کاکرداردیاگیاجواس فورس کے فرض شناس آفیسرزاوراہلکاراپنا فرض بخوبی انجام دے رہے ہیں جبکہ جیل خانہ جات پولیس نے بھی زندانوں کے اندر کروناکاشکارہونیوالے قیدیوں کی تندرستی وبحالی کیلئے خودخطرات کاسامنا کیا ۔لاہور پولیس کے مستعداورپروفیشنل ڈی آئی جی آپریشنز اشفاق احمدخان ،انتھک ڈی آئی جی سہیل سکھیرا ،لاہور کے سمارٹ ایس ایس پی آپریشنز فیصل شہزاد،لاہور کے زیرک ایس ایس پی ایڈمن کیپٹن (ر)لیاقت علی ملک اورناروال کے فعال ڈی پی او چوہدری ذوالفقار سمیت متعدد پولیس آفیسرز شہریوں کوکروناوباسے بچاتے بچاتے خوداس مہلک وباکانشانہ بنے جبکہ متعددڈی ایس پی حضرات اوردوسرے اہلکاروں نے کرونا کے سبب جام شہادت نوش کیا۔انتھک کام کرنے ،اس قدرقربانیاں دینے اوراپنے فرض منصبی کے ساتھ مثالی کمٹمنٹ کے باوجودانہیں ڈی ایم جی کے مقابلے میں اچھوت سمجھنااوران کاحق غصب کرنا ایک بڑاسوالیہ نشان ہے ۔ فرض منصبی کی بجاآوری کے دوران جام شہادت نوش کرنیوالے پولیس آفیسرزاوراہلکاروں کو سول ایڈمنسٹریشن سے زیادہ تنخواہ دی جائے کیونکہ وہ بجاطورپراس کے مستحق ہیں۔ امن وامان کی بحالی کے دوران ہمارے وردی پوش سرفروش اپنے سینے کی ڈھال سے” گولیاں” روکتے اورالٹا شعور سے عاری شہریوں کی” گالیاں” بھی سنتے اورسہتے ہیں جبکہ ڈی ایم جی گروپ ٹھنڈے دفاتر میں بیٹھ کر اجلاسوں کی صدارت اورپولیس اہلکاروں کے حفاظتی حصار میںمختلف مقامات کے دورے کرتاہے۔1500سے زائدشہیدوں کی وارث پنجاب پولیس کوانڈراسٹیمیٹ کرنے اوراہلکاروں کوگالیاں دینے کاسلسلہ اب بندکردیاجائے ۔

ڈی آئی جی کیپٹن(ر) مبین شہید اورایس ایس پی زاہدمحمودگوندل شہید کے یتیم بچوں نے بھی کئی باریہ سوچاتو ہوگا،اے کاش ہمارے والدپنجاب پولیس کی بجائے سول انتظامیہ میں کوئی بڑے” بابو”اورکسی بڑی سیٹ پربراجمان ہوتے توان کی تنخواہ بھی ڈی آئی جی اورایس ایس پی سے ڈیڑھ سوگنازیادہ ہوتی اورانہیں صبح 9بجے سے شام 5تک کام کرناپڑتا اورباقی وقت وہ ہمارے ساتھ گزارتے توزندگی کس قدرآسان اوراطمینان بخش ہوتی۔باپ کی شفقت سے محروم ان بچوں کو یہ بھی خیال آیاہوگا،اگران کے پاس سول انتظامیہ کاکوئی منصب ہوتاتویقیناوہ لاہور کے مال روڈ پرہونیوالی دہشت گردی کے نتیجہ میں شہید اورہم یتیم نہ ہوتے۔بیشک شہید زندہ ہوتے ہیں، ڈی آئی جی کیپٹن(ر) مبین شہید اورایس ایس پی زاہدمحمودگوندل شہید بھی عالم ارواح میں یقینایہ سوچ رہے ہوں گے ،کیا ہماری شہادت رائیگاں چلی گئی ہے ۔انہیں یقینا یہ خیال بھی آتا ہوگامادروطن اورامن کیلئے جام شہادت نوش کرنے کے باوجود ہمارے اہل خانہ جوہماری تنخواہ وصول کرتے ہیں اس میں ایگزیکٹوالائونس شامل نہیں ہوتا جبکہ سول انتظامیہ کے وہ ”بابو”جواوایس ڈی بھی ہوں انہیں بھی گھر بیٹھے ایگزیکٹوالائونس دیاجارہا ہے۔پنجاب پولیس کے شہداء اوران کے مشن کی تکمیل کیلئے کوشاں باوردی آفیسرز اور اہلکاربزدار حکومت کی طرف سے اس امتیازی سلوک کے متحمل نہیں ہوسکتے۔اگرپنجاب میں بزدار کی بجائے کوئی بردبار سیاستدان وزیراعلیٰ ہوتا توپنجاب پولیس کے آفیسرزاوراہلکار اپنے حقوق سے محروم نہ ہوتے۔امید ہے پنجاب کے سابقہ آئی جی حضرات محمدطاہر اورعارف نوازخان نے جو ایگزیکٹوالائونس کیلئے کاوش شروع کی تھی اسے آئی جی شعیب دستگیر اپنے ہاتھوں سے پایہ تکمیل تک پہنچانے میں کامیاب رہیں گے۔

عثمان بزدار جوپچھلے دوسال سے شہبازشریف کی نقل کرنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں ۔پچھلے دنوں عثمان بزدار نے پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں اسمبلی ملازمین سمیت فنانس ڈیپارٹمنٹ کے اہلکاروں کیلئے بونس کی مدمیں تین اضافی تنخواہوں کااعلان کیا لیکن موصوف نے کرونا کیخلاف ہراول دستہ کے طورپرکام اورجانیں قربان کرنیوالے ڈاکٹرز، نرسز، پیرامیڈیکل اورپولیس اہلکاروں کودانستہ نظراندازکردیا۔پولیس آفیسرزاوراہلکاروں کو کروناسمیت دوسری وبائوں ،بلائوں اورموت کے رحم وکرم پرچھوڑنے والے حکمران خودہوشربامراعات سے مستفیدہورہے ہیں۔اسمبلی اجلاس میں صوبائی وزیرقانون راجابشارت نے کرونا کیخلاف پنجاب پولیس کے کلیدی کردارکوزبردست اندازمیں سراہا لیکن وہ بھی عثمان بزدار کی طرف سے پنجاب پولیس کوبونس نہ ملنے پرخاموش رہے،یہ مجرمانہ خاموشی ہے۔میں عثمان بزدار سمیت پنجاب کے وزیرقانون راجابشارت ، چیف سیکرٹری جوادرفیق ملک ،ایڈیشنل ہوم سیکرٹری مومن علی آغااور فنانس سیکرٹری عبداللہ سنبل سے پوچھتا ہوں کیا آپ لوگ ان پولیس آفیسرز کے ساتھ انصاف کررہے ہیںجوقانون کی رِٹ منوانے کیلئے کوئی کسر نہیں چھوڑتے،1500شہداء کے ورثا کاوارث کون ہے۔میں سمجھتاہوں جس کے پاس جتنا بڑا منصب یاعہدہ ہواسے اپناظرف بھی اتنا بڑا جبکہ اپناضمیر بیداررکھنا چاہئے۔

چیف سیکرٹری پنجاب جوادرفیق ملک اس دیرینہ ایشوکے باوقاراورپائیدار حل کیلئے اپناکلیدی کرداراداکریں۔سچائی تویہ ہے پولیس کے تعاون کے بغیرعدلیہ اور سول انتظامیہ ایک قدم نہیں چل سکتی۔کیا1500 شہیدوں کے وارثان کو بھی اپنے حق کیلئے خیبرپختونخواپولیس کی طرح عدالت عالیہ کادروازہ کھٹکھٹاناہوگا،اگرانہوں نے عدالت عالیہ لاہور سے رجوع کیا توچیف جسٹس محمدقاسم خان یقینا انصاف کریں گے۔چیف جسٹس لاہورہائیکورٹ جسٹس محمدقاسم خان کاقلم انصاف کاعلم ہے ،ان کے فیصلے یہ بتا رہے ہیں ۔میں سمجھتاہوں پنجاب میں پولیس کلچر تبدیل کرنے کیلئے وزیراعلیٰ پنجاب سمیت ”بابوئوں” کے مائنڈسیٹ میں تبدیلی ناگزیر ہے۔ پنجاب پولیس اورجیل پولیس کے انتھک آفیسرزکامورال اپ کرنے کیلئے ان کی توانائیوں،قربانیوں اور” وفائوں” کے مطابق ان کی” تنخواہوں” میں فوری اضافہ جبکہ انہیں ایگزیکٹوالائونس کی فراہمی ناگزیر ہے ۔سرکاری آفیسرزاوراہلکاروں کی ریٹائرمنٹ کی عمر 60کی بجائے55کرنے کاشوشہ چھوڑنے والے حکمرانوں اور سیاستدانوں کااپنے بارے میں کیا خیال ہیں ،ان کیلئے عمر کی حدکون مقررکرے گا۔دس دس بار پارلیمنٹ میں آنیوالے بتاناپسندکریں گے انہوں نے اس دوران اثاثے بنانے کے سوا ملک وقوم کیلئے کیا تیر مارا ہے۔جس ایوان میں متعدد جعلی ڈگریوں والے براجمان ہیں وہاں ایک وزیرہوابازی نے شعبدہ بازی کامظاہرہ کرتے ہوئے پی آئی اے جیسے قومی ادارے کو”ٹیک آف” کروانے کی بجائے ”گرائونڈ” کردیا۔ملک اورپی آئی اے کی بدنامی تبدیلی سرکار کے وزیرہوابازی کی عجلت بازی، ”شعبدہ بازی” اور” بدانتظامی” کاشاخسانہ ہے ، کپتان بتائے اس کامداواکون کرے گا۔

Muhammad Nasir Iqbal Khan

Muhammad Nasir Iqbal Khan

تحریر : ناصر اقبال خان