احتجاج کے دوران صحافیوں پر حملے، یونیسکو کو تشویش

Protests Journalists Attacks

Protests Journalists Attacks

یونیسکو (اصل میڈیا ڈیسک) یونیسکو کے مطابق جنوری سے جون تک دنیا بھر میں ایسے 21 مظاہرے ہوئے، جن کے دوران مظاہرہ کرنے والے صحافیوں پر حملے کیے گئے، ان کی گرفتاریاں عمل میں آئیں یا پھر انہیں ہلاک کر دیا گیا۔

دنیا بھر میں مظاہرے کرنے والے صحافیوں کے خلاف تشدد کے واقعات کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کی سب سے زیادہ ذمہ داری پولیس اور سکیورٹی فورسز پر عائد ہوتی ہے۔ اس بارے میں اقوام متحدہ کے ثقافتی ادارے یونیسکو نے پیر چودہ ستمبر کو ایک بیان بھی جاری کیا۔

یونیسکو کے مطابق جنوری سے جون تک دنیا بھر میں ایسے اکیس مظاہرے ہوئے، جن کے دوران مظاہرہ کرنے والے صحافیوں پر حملے کیے گئے، ان کی گرفتاریاں عمل میں آئیں یا پھر انہیں ہلاک کر دیا گیا۔

یونیسکو کی دیگر ذمہ داریوں کے علاوہ یہ ایجنسی ‘میڈیا ڈویلپمنٹ‘ یا میڈیا کی ترقی سے متعلق پیش رفت کو بھی مانیٹر کرتی ہے۔ اس ادارے کی ایک رپورٹ سے انکشاف ہوا ہے کہ پچھلے پانچ سالوں میں ”پولیس اور سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں طاقت کا غیر قانونی استعمال ان ادارں کے دیگر رجحانات میں تیزی سے اضافے کا ایک حصہ ہے۔‘‘

یونیسکو کی اس رپورٹ کے مطابق 2015ء سے لے کر 2020ء کے وسط تک کم از کم 10 صحافی مظاہروں کے دوران مارے گئے۔ مزید برآں رپورٹروں پر پولیس اور سکیورٹی فورسز کے حملوں، یا ان کی گرفتاریوں کے 125 واقعات بھی رونما ہوئے۔ یونیسکو نے اپنی اس رپورٹ میں اس عرصے کے دوران دنیا کے 65 ممالک میں ہونے والے مظاہروں کی تفتیش کے بعد سامنے آنے والے اعداد و شمار شامل کیے۔ بتایا گیا ہے کہ دوران ملازمت ہلاک ہونے والے رپورٹروں کی ہلاکتیں شام، میکسیکو، اسرائیل، نکاراگوا، شمالی آئرلینڈ، نائجیریا اور عراق میں ہوئیں۔

رپورٹ کے مطابق، ”دنیا بھر میں مظاہروں کی کوریج کی کوشش کے دوران سینکڑوں صحافیوں کو ہراساں کیا گیا، مارا پیٹا، ڈرایا دھمکایا اور گرفتار کیا گیا، نگرانی میں رکھا گیا، اغوا کیا گیا اور ان کے پیشہ وارانہ ساز و سامان کو نقصان پہنچایا گیا اور یہ سب کچھ پولیس اور سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں نے کیا۔‘‘

یونیسکو کی اس رپورٹ سے مزید کہا گیا ہے، ”مظاہروں کے دوران پولیس نے ربڑ کی گولیوں سے لے کر کالی مرچوں کی گیندوں تک غیر مہلک اشیاء سے لے کر گولہ بارود تک کا استعمال کیا، جس کے سبب کئی انسانوں کی بینائی بھی ضائع ہو گئی۔‘‘

یونیسکو کا یہ بھی کہنا ہے کہ پولیس کو اکثر رپورٹروں کے ساتھ اپنے اس رویے کے بارے میں کسی قسم کا کوئی خوف یا سزا ملنے کا ڈر نہیں ہوتا۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے، ”حالیہ برسوں میں مظاہروں کی کوریج کرنے والوں پرحملوں کو سزاؤں سے مستثنیٰ سمجھنے کا رجحان معمول بن گیا ہے۔‘‘ یونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل آڈرے ایزولے نے حکومتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس امر کو یقینی بنائیں کہ صحافی اپنی حفاظت کو داؤ پر لگائے بغیر اپنے فرائض انجام دے سکیں۔ ایزولے کا کہنا تھا، ”احتجاجی تحریکوں کے بارے میں رپورٹنگ اور ناظرین کو معلومات اور آ گاہی فراہم کرنے میں صحافیوں کا غیر معمولی اور انتہائی مشکل کردار ہوتا ہے۔‘‘ اس بارے میں عالمی برادری سے مخاطب ہوتے ہوئے آڈرے ایزولے نے کہا، ”ہم عالمی برادری اور تمام متعلقہ حکام سے مطالبہ کرتے ہیں کہ صحافیوں کے بنیادی حقوق کا احترام کیا جائے۔‘‘

یونیسکو نے کہا کہ مظاہرے اکثر معاشی ناانصافی، حکومتی بدعنوانی ، سیاسی آزادیوں کے خاتمے اور بڑھتی ہوئی آمریت کے بارے میں ہوتے ہیں ، جس سے کچھ حکومتوں کو متوازن رپورٹنگ کی روک تھام سے ذاتی مفاد حاصل ہوتا ہے۔ یونیسکو نے کہا ہے، ”اقوام متحدہ نے متعدد قراردادوں میں پریس کے خلاف سیاسی رہنماؤں کی طرف سے مخالفانہ بیان بازی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔‘‘