’’پہلے برآمد پر پیسہ بنایا اور اب درآمد پر بنائیں گے؟‘‘

Chapati

Chapati

اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) پی ٹی آئی حکومت کی طرف سے پہلے لاکھوں ٹن گندم برآمد کرنے اور اب درآمد کرنے پر شدید نکتہ چینی ہو رہی ہے۔ کیا گندم درآمد کرنے سے آٹے کا بحران ختم ہو جائے گا اور اس کے کسانوں پر کیا اثرات پڑیں گے؟

پی ٹی آئی کے رہنما ڈاکٹر رمیش کمار کا کہنا ہے کہ انہوں نے گندم کے بحران کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان کو آگاہ کیا تھا لیکن ان کی بات پر توجہ نہیں دی گئی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ چار پانچ مہینے سے یہ کوشش کر رہے تھے کہ وزیر اعظم اس مسئلے پر توجہ دیں۔

اس سوال پر کہ گندم کا بحران کیوں آیا؟ ان کا موقف تھا کہ یہ بد انتظامی ہے۔ وفاقی حکومت کو پچھلے سال گندم بر آمد نہیں کرنا چاہییے تھی۔
ڈاکٹر رمیش کمار نے کہا کہ گندم کا مسئلہ آسانی سے حل نہیں ہو گا۔ انہوں نے مزید خبردار کیا کہ “ابھی چینی پانچ چھ روپے بڑھ گئی ہے، پندرہ دن میں مزید بڑھ جائے گی۔ پھر اسی روپے میں بھی آپ کو چینی نہیں ملے گی۔”
انہوں نے کہا کہ اس بارے میں صرف وفاقی نہیں بلکہ صوبائی حکومتوں کو بھی سوچنا ہوگا۔

سندھ کے صوبائی وزیر سعید غنی کے مطابق ملک میں گندم کا بحران وفاقی حکومت کی بڑی ناکامی ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ ایک ایسا ملک جہاں گندم کی قلت نہیں ہوتی وہاں گندم باہر سے کیوں منگوانا پڑ رہی ہے؟

جب ڈی ڈبلیو نے پیپلز پارٹی کے رہنما سے پوچھا کہ سندھ میں آٹے کی کمی کا مسئلہ کیوں ہوا، تو انہوں نے کہا کہ سندھ میں گیارہ لاکھ ٹن گندم کی مانگ ہوتی ہے جبکہ سات لاکھ ٹن گندم اسٹا ک میں تھی۔ “ہم نے ایک لاکھ ٹن ڈسٹرکٹ وئیر ہاوس سے اٹھا لی ہے۔ جب ہم نے پنجاب سے گندم اٹھانا چاہی تو وہاں ہڑتال کے باعث نہ اٹھا سکے۔” انہوں نے کہا کہ سندھ پر آٹا کنٹرول پرائس پر فروخت کیا جا رہا ہے اور حکومت تین دن کے اندر اس بحران سے نمٹ لے گی۔

حکومتی موقف
پیر کو وفاقی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے اکتیس مارچ تک تین لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کی منظوری دے دی۔ توقع ہے کہ یوکرائن سے گندم کی پہلی کھیپ پندرہ فروری کو پاکستان پہنچے گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ صرف چھ مہینے پہلے کابینہ کی اسی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کی سربراہی میں چھ لاکھ ٹن گندم دوسرے مما لک کو برآمد کرنے کی منظوری دی تھی۔

اس سے قبل، وفاق میں پی ٹی آئی کے وزیر خوراک خسرو بختیار کہہ چکے ہیں کہ گذشتہ برس خراب موسم کی وجہ سے گندم کی پیداوار بارہ لاکھ ٹن کم ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ بیس جنوری سے آٹے کے بحران میں کمی آئے گی اور یہ مسئلہ تین سے چار دن میں ختم ہو جائے گا۔

میڈیا کی تنقید

حالیہ دنوں میں پاکستانی میڈیا میں اس مسئلہ کو اٹھانے والوں میں صحافی رؤف کلاسرہ پیش پیش رہے ہیں۔

ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ “حکومت نے پہلے گندم کی بڑی مقدار افغانستان کو بیچی دی۔ اب یہ چار لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ پہلے خود ہی برآمد کی اور اب در آمد کریں گے۔”

انہوں نے سوال کیا کہ “جب ایک ایک ڈالر قرض لینے کے لیے دنیا بھر میں جا رہے ہیں تو ایسے وقت میں گندم درآمد کرنا کہاں کی دانشمندی تھی؟ کیا ہم یہ سمجھیں کہ لوگوں نے پہلے برآمد پر پیسہ بنایا اور اب درآمد پر بنائیں گے؟

رؤف کلاسرہ کا کہنا ہے کہ گندم در آمد کرنے کے فیصلے سے پاکستان کا کسان تباہ ہو جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ “مارچ کے مہینے میں سندھ میں اور اپریل تک پنجاب میں گندم کی فصل اتر جائے گی، تو پھر یہاں کے کسان کا کیا ہو گا؟