پنجاب کلچر ڈے اور ہم

Punjab Culture Day

Punjab Culture Day

تحریر : روہیل اکبر

پنجاب میں کلچر ڈے پہلی بار بڑے جوش اور جذبے سے منایا گیا پلاک کے زیر انتظام چلنے والے ریڈیو ایف ایم 95 پر سارا دان پنجاب کلچر پر باتیں ہوتی رہیں ڈی جی پی آر میں خوبصورت لوگوں نے رنگا نگ لباس زیب تن کررکھا تھا بلخصوص جاوید یونس کی حقہ کے ساتھ تصویر نے بڑا لطف دیا ڈی جی پی آر ثمن رائے اور ڈی جی پلاک ڈاکٹر صغراں صدف کے دیدہ زیب پنجابی لباسوں نے انہیں الہڑ مٹیار بنا رکھا تھا یہ دن نہ صرف لاہور میں بلکہ پورے پنجاب میں بھر پور جوش وخروش سے منایا گیا تمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنر صاحبان نے پگڑی باندھ کر اپنے اپنے دفتروں میں کام کیا جبکہ پنجاب کا واحد پنجابی ریڈیوایم ایف 95جو پنجاب زبان کی ترویج و ترقی کے لیے دن رات کوشاں ہے وہی پر کلچر ڈے کے حوالہ سے خصوصی نشریات براہ راست پیش کی گئی۔

پنجاب حکومت کی اپنے کلچر کو پروان چڑھانے یہ بہت اہم کوشش تھی ہم نہ صرف پنجاب بلکہ دوسری صوبوں کے کلچر کو بھی پروان چڑھانے میں اپنا کردار ادا کرتے رہتے ہیں ابھی کچھ دن پہلے پنجاب میں بلوچ بھائیوں کے ساتھ ایک دن منایا گیا مگر بدقسمتی سے پنجاب کے ساتھ ہمیشہ ظلم و زیادتی ہوتی رہی جو ابھی تک جاری ہے انگریز نے 1849 ء میں پنجاب پر قبضہ کر لیا آپ یہ جان کر حیران ہوں گے اس وقت پنجاب میں تعلیم سو فیصد تھی انگریز اس تعلیم کو خطرناک سمجھتا تھا چناں چہ یہ لوگ کنگز کالج لندن کے ایک نوجوان پروفیسر گوٹلیب ولیم لیٹنر کو لاہور لے آئے لیٹنر بھی ایک عجیب وغریب کردار تھا یہ 50 زبانیں جانتا تھا عربی،ترکی اور فارسی مقامی لوگوں کی طرح بولتا تھا،کچھ عرصہ ”مسلمان“ بھی رہا تھا۔ اس نے داڑھی بڑھا کر اپنا نام عبدالرشید سیاح رکھا اور تمام اسلامی ملکوں کی سیاحت کی وہ مسجدوں میں نماز تک پڑھ لیتا تھا وائسرائے نے اسے ہندوستان بلایا اور اسے پنجاب کا نظام تعلیم بدلنے کی ذمہ داری سونپ دی لیٹنر نے پنجاب کا دورہ کیا اور وائسرائے کو لکھا مجھے پڑھے لکھے پنجاب کو جاہل بنانے کے لیے 50 سال درکار ہوں گے۔

وائسرائے نے اسے 50 سال دے دیے اسے انسپکٹر جنرل آف سکولز پنجاب بنانے کے ساتھ ساتھ لیٹنر کو گورنمنٹ کالج لاہورکا پرنسپل بنا دیا گیا۔ اس نے آگے چل کر پنجاب یونیورسٹی کی بنیاد بھی رکھی یہ ان دونوں اداروں کا ابتدائی سربراہ تھا انگریز نے پنجابیوں کو غیر مسلح اور ان پڑھ بنانے کے لیے پنجاب میں ”ہتھیار جمع کرائیں اور حکومت سے تین آنے لے لیں اور عربی سنسکرت اور گورمکھی کی کتاب دیں اور چھ آنے وصول کر لیں جیسی سکیم بھی متعارف کرا ئی اور پورے پنجاب سے کتابیں اور اسلحہ جمع کر لیا انگریز نے اس کے بعد انگریزی زبان کو سرکاری اور دفتری زبان بنا دیا اور سکولوں کو عبادت گاہوں سے الگ کر دیا۔جاگیر داروں اور زمین داروں کے بچوں کو انگلش میڈیم تعلیم دے کر متوسط طبقے کو دبانے کی ذمہ داری بھی دے دی گئی انگریزوں کو سمجھ دار قانون پسند اور انصاف کا پیکر بنا کر پیش کرنا بھی شروع کر دیا گیا۔

دھوپ گھڑی پر پابندی لگا دی گئی اور مقامی زبانوں اور کتابوں کو جہالت کا مرکب قرار دے دیا گیا ولیم لیٹنر کا منصوبہ کامیاب ہو گیا اور اس نے 50 کی بجائے 30 برس میں پورے پنجاب کو غیرتعلیم یافتہ اور جاہل بنا دیا لیٹنر نے اپنے ہاتھ سے لکھامیں نے پورے پنجاب کا دورہ کیااورآج یہاں کوئی پڑھا لکھا شخص نہیں اس نے سیالکوٹ کے ایک گاؤں چوڑیاں کلاں کی مثال دی اس کا کہنا تھا میں پنجاب آیا تو اس گاؤں میں ڈیڑھ ہزار پڑھے لکھے لوگ تھے آج یہاں صرف 10لوگ گورمکھی اور ایک اردو پڑھ سکتا ہے اور یہ بھی چند برسوں میں مرکھپ جائیں گے لیٹنر نے پنجاب میں رہ کر اردو سیکھ لی اور پھر اردو میں دو والیم کی تاریخ اسلام لکھی یہ کتاب 1871ء اور 1876ء میں دو بار شائع ہوئی لیٹنر 1870 کی دہائی میں اپنا کام مکمل کر کے برطانیہ واپس چلا گیا جسکے بعد ہم نہ انگریز رہے نہ پنجابی رہے اور نہ ہی وطن پرست رہے ہم کاٹھے انگریز بن گئے ایک خاص طبقہ ہم پر حکمران بن گیا جن کی اولادوں کے لیے بڑے بڑے انگریزی تعلیمی ادارے بن گئے۔

انکی اولادیں وہاں سے پڑھ لکھ کر بیرون ملک جاکر مزید پکے انگریز بن جاتے اور پھر واپس آکر ہم جیسے جاہلوں پر کوئی افسر بن جاتا تو کوئی حکمران اب دور یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ ہم اپنی مادری زبان میں بات کرنا ہی توہین سمجھتے ہیں سکولوں کا نظام تعلیم مختلف ہے سرکاری اداروں کا اس سے بھی مختلف ہے ہماری اکثریت انگریزی سے ناواقف ہے مگر پھر بھی ٹوٹی پھوٹی انگریزی بول کر فخر محسوس کرتی ہے یہی وجہ ہے کہ بطور قوم ہم ترقی نہ کرسکے اور ہم تنزلی کی طرف بڑھت رہے بڑھتے رہے آج صورتحال یہ ہے کہ لالچ،حرص اور طمع نے ہمیں تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے بھوک اور غربت ہماری ہڈیوں میں رچ بس گئی ہے اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات کی خاطر ہم ایک دوسرے کی گردنیں کاٹ رہے ہیں اور حالت ہماری حبیب جالب کے اس شعر کے مانند ہو چکی ہے۔

مفلس جو اگر تن کی قبا بیچ رہا ہے
واعِظ بھی تو منبر پہ دُعا بیچ رہا ہے
دونوں کو ہے درپیش سوال اپنے شِکَم کا
اِک اپنی خودی ایک خدا بیچ رہا ہے۔

وقت تیزی سے ریت کی مانند ہمارے ہاتھوں سے سرک رہا ہے اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنے ریت ورواج اور کلچر سے جڑ جائیں ورنہ گردن تک تو ہم جہالت کی دلدل میں دھنس چکے صر ف سر باہر ہیں خدارا آنکھیں کھولیں کبوتر کی طرح بند نہ کریں۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر : روہیل اکبر