قائد اعظم اور قومی زبان و اقدار

Urdu

Urdu

تحریر : میر افسر امان

قومی زبان اُردو کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے۔ تو ڈاکٹر عطااللہ خان” اُردو فارسی کے رابط” ڈاکٹریٹ کے مقالے میں لکھتے ہیں کہ ہند سے ایک حکیم مدینہ میںاُم ا لمومنین حضرت عائشہ صدیقہ کا علاج کرنے مدینہ گئے تھے۔ بصرہ کی اسلامی چھائونی میں ہند کے سپاہی ہندی زبان بوتے تھے وغیرہ وغیرہ۔اُردو لشکری زبان مانی گئی۔اُردو معلی بھی ہے ۔یہ ریختہ بھی ہے۔ اُردو کی ترقی میں اہل زبان سے زیادہ پنجاب کے شہر لاہورنے حصہ لیا ہے۔اُردو تحریک پاکستان کی زبان تھی۔ اُردو ہنددئوں کے متحصب رویہ کے باجود بھارت کے ہر حصہ میں بولی جاتی ہے۔بھارتی فلمی دنیا کی زبان اپردو ہے۔پاکستان اور دنیا میں کچریر تعداد میں اپردو اخبارات شائع ہوتے۔ بھارت میں اُردو کو مشاہروں نے زندہ کیا ہوا ہے۔بھارت کی سب سے بڑی ویب سائٹ (سماعت گاہ) ریختہ کام کر رہی ہے۔ اُردو ساری دنیا میں مانی ،جانی، پہچانی اور بولی جانے والی زبان ہے۔

دنیا کی زبانوں میںتیسری یا چوتھی بڑی زبان ہے۔ قیام پاکستان کے بعدبانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے ڈھاکا میں اعلان کیا تھا کہ پاکستان کی قومی سرکاری زبان اُردو اور صرف اُردو ہو گی۔ صوبے اپنے مقامی زبان رائج کر سکتے ہیں۔ اس ڈاکڑائین کو عام کرنے اور تشریع کرنامسلم لیگ کا کام تھا۔ مگرجہاں مسلم لیگ نے پاکستان میں اسلامی نظام رائج کرنے میںپس و پیش کیا وہاں اس ڈاکڑائین عام کرنے یعنی اُردو پورے پاکستان کے رابطے کی زبان ہے اس لیے اُرود ہی قومی زبان کے رائج ہونی چاہیے۔ یہ بات عام نہیں کی گئی کہ صوبے اپنے صواب دید پر اپنی مقامی زبانیں رائج کرنے میں آزاد ہیں۔جس کی وجہ سے مشرقی پاکستان میںبھارتی لابی نے بنگلہ زبان کی بنیاد پر بے اطمینانی پھیلائی گئی۔ ١٩٥٦ء کے مشترکہ پاکستان کے آئین میں اُردو کو قومی سرکاری زبان تسلیم کیا گیا تھا۔

اس کے بعد ١٩٧٣ء کے آئین میں بھی اُردو کے نفاذ کو تسلیم کیا گیا۔ اس کے سرکاری طور پر نفاذ کا وقت بھی دیا گیا تھا۔ پاکستان کی اعلیٰ عدالت سپریم کورٹ نے بھی قومی زبان اُردو کے نفاذ کا حکم جاری کیا۔پورے پاکستان میں مختلف تنظیمیں اُردو کے نفاذ کے لیے جدو جہد کرتی رہی ہیں۔جماعت اسلامی نے پاکستان کے ہر ضلع کی بنیاد پر” مرکزقومی زبان”کے نام سے اُردو کی تنظیم بنائی ہوئی ہے۔ جو اُردو کو قومی زبان بنانے کے لیے کوششیں کر رہی ہے۔اُردو کے قومی زبان کے نفاذ کے لیے دوسری بہت سے تنظیموں کے ساتھ ساتھ تنظیم ” تحریک نفاذ اردو” بھی اپنے طور پراُردو کے نفاذ کے لیے مصروف عمل ہے۔ یہ سب جانتے ہیں کہ پاکستان کے عوام کے رابطے کی زبان بھی اُردو ہے۔

اگر یہ سب کچھ ہے او صحیح ہے تو اُردو ہماری سرکاری،تعلیمی، پارلیمنٹ، عدلیہ اور حکومتی اداروں میں اس کے عملی نفاذ میں کیا رکاوٹ ہے؟۔ یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں۔ سیدھی سے بات ہے۔ جن کے ہاتھ میں اقتدار ہے وہ اسے نفاذ نہیں ہونے دیتے۔ کیوں نہیں ہونے دیتے۔ اس لیے نہیں ہونے دیتے کہ جیسے سیاستدانوں نے سیاست کو انڈسٹری بنا یا ہوا ہے۔ ایک سیٹ پر کروڑوں لگائو۔ الیکشن جیتنے کے بعد اربوں کی کرپشن کرو۔ جب کوئی سیاسی پارٹی اقتدار میں آتی ہے تو وہ بحیثیت پارٹی کرپشن کر کے غریب عوام کے خزانے کو اپنے باپ کا مال سمجھ کر لوٹتی ہے۔انہیں ہمیشہ لوٹ مار سے مطلب رہا ہے۔

قومی زبان سے کچھ لینا دینا نہیں۔اسی طرح انگریز کے بنائے ہوئے کالے انگریز جو بیروکریسی کے روپ میں اپنی اور اپنے اولاد کے مسقبل سنوارنے کے لیے اُردو کے نفاذ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ مقابلے کے سارے امتحانات انگریزی زبان میں ہوتے۔ ان کے بیٹے کرپشن کے پیسے سے ، اے اور او لیول پاس کر کے پھر پھر ا نگریزی بولتے ہیں اور امتحان میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور عوام کے سروں پر سوار ہوجاتے ہیں۔ اس لیے اس ملک کی بیروکریسی اُردوکے عملی نفاذ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ آج مقابلے کے امتحانات قومی زبان اُردو میںکر دیں۔ کل اُردو نفاذ ہو جائے گی اور بیروکریسی اپنے بچوں کو اُردو میں تعلیم دلانی شروع کر دے گی۔ غلام ذہن نے اُردو کانفاذ نہیںہونے دیا۔ پنجاب میں شہباز شریف نے اپنے دور میں محکمہ تعلیم کے لیے برطانیہ کے ایک فرد کو مشیر لگایا۔ اس نے اپنی حکومت سے امداد دلائی ۔پرائمری اسکوں میں انگلش رائج کر دی گئی ۔محصوم بچے گھروں میں مادری مقامی زبانوں میں بات کرتے ہیں۔ بار کھیل کے میدان میں رابطہ کی زبان اُردو بولتے ہیں۔ اسکول میں انگریزی سیکھ کے آتے ہیں ۔ محصوم بچوں کے ذہن پر اتنا بوج پڑتا ہے کہ بیان نہیں کیا جا سکتا۔ پرائیویٹ اسکولوں نے پیسے کمانے کے کیے مصنوعی انگلش میڈیم اسکول بنائے ہوئے ہیں۔یہ قوم کی خدمت نہیں پیسا کمانے کی تجارت ہے۔ قومی زبان اُردو کے نفاذ میں یہ پرائیویٹ اسکول بھی رکاوٹ ہیں۔

اب حکومت نے یکساں کوئی تعلیمی نصاب کے بہانے دکٹیٹر مشرف دور کا بنائے ہوا تعلیمی نصاب میں کچھ تبدیلی کے بعد نفاذ کرنے کا اعلان کیا ہے۔اس میں مکمل طور پر قومی زبان

اُردو کے نفاذ کا کو کائی بھی کام نہیں۔اعلی عدالت سپریم کورٹ ابھی بھی انگریزی مین ہی فیصلے لکھ رہی ہے۔بیروکریٹ اب بھی اُردو کے عملی نفاظ میں رکاوٹ ہیں۔جب تک ہماری لیڈر شپ امریکا اور آئی ایم ایف سے جان نہیں چھڑاتی اورملک کو اپنے پائوں پر کھڑا نہیں کرتی۔ اس وقت تک اُردو نفاظ نہیں ہو سکے گی۔ انگریز جب حکمران تھا تو مسلمانوں کا فارسی زبان سے رابطہ ختم کرنے کے اُردو کالج قائم کیا تھا۔ پھر اس بہانے انگریزی رائج کر دی۔لارڈ میکالے نے ایسا نظام تعلیم بنایا کہ لوگ انگریز تو نہیںبنے ۔مگر کالے انگریز ضرور بن گئے۔ پھر لوگ بچوںسے کہنے لگے کہ میٹرک کر لو کہیں نوکری مل جائے گی۔

بات یہ ہے کہ جب اقتدار ملتا ہے تو تب ہی قومیں اپنے روایات، زبان،تہذیب ،کلچر، تمدن اور مذہب پر قائم رہ سکتی ہیں۔ اقتدار بھی جد و جہد سے ہی ملتا ہے۔ اسی لیے اُردو کے عملی نفاذ کے لیے جو تنظیمیں کوششیں کر رہی ہیں وہ یقیناً قابل تعریف ہیں۔ حکومت نے بھی اُردو نفاظ کے لیے ایک کمیٹی بنائی ہوئی ہے۔مگر وہ کیمٹی کیمٹی ولا کھیل ہی ہے۔ جرأت کی ضرورت ہے۔ اگر عمران کے خان ایک سرکلر سے اپنے حکومتی پروگرام اُردو میں کرا سکتے ہیں۔تو پھر ان کو حکم جاری کرنا چاہیے کہ حکومت کے سارے اداروں میں ایک ماہ کے اندر اندر قومی زبان اُردو کے نفاذ کرنے کے انتظامات شروع کر دیے جائیں۔پھر دیکھیں قومی زبان اُردو رائج ہوتی کہ نہیں؟

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر : میر افسر امان