دینی تعلیم میں اچھائی و برائی

Madrassas

Madrassas

تحریر : ڈاکٹر خالد فواد الازہری

انسان کے دنیا میں آنے کے بعد اس کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری کا انتظام کیا جانا ضروری تھا تاکہ وہ خیر و شر سے بخوبی آگاہ ہو سکے اور وہ نیک راستے کی جانب گامزن اور برائی کے طریق سے مجتنب ہوجائے۔اس لئے اللہ تعالیٰ نے ایک لاکھ چوبیس ہزار کم و بیش انبیاء مبعوث کیے ہیں اور انبیاء کی بعثت کے سلسلہ کو حضور سرورکونینۖ پر ختم فرمادیا اب امت کی اصلاح کا فریضہ علماء کی ذمہ داری ٹھہرا ہے لیے ہر مسلم ملک میں مسلمانوں کی دینی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا جاتاہے۔جیساکہ پاکستانی معاشرے کی بنیاد میں دینی تعلیم کا کردار مسلم ہے۔اسی ذریعہ سے اسلامی تہذیب و تمدن کی حفاظت کے ساتھ ملک کی بقاء وابستہ و مرتبط ہے۔انسان کی بہتر تعلیم و تربیت کا واحد ذریعہ دینی تعلیم ہی ہے۔

یہ وحید ذریعہ ہے جس کی طرف انسان اپنی توجہ ملتفت کرتے رہتے ہیں۔اور اگر عصر اداروں میں بعض اسلامی نصاب پر مشتمل کتب کو شامل نصاب کردیا جائے تو یہ سونے پر سہاگہ کے مترادف ہے۔جو لوگ دینی تعلیم کے ساتھ وابستہ ہیں ان کے ہاں بعض غلطیوں کو سرزد ہونا معمول بن چکا ہے۔جس میں اہم ترین امر تقویٰ کا فقدان ہے جبکہ تعلیم اور عبادت کی قبولیت اور عدم قبولیت کا انحصار تقویٰ پر قائم و دائم ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ”پہلی مسجد کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی وہ مسجد سے کلمہ حق کا اظہار کیا گیا”۔موجودہ دور میں مسجدیں بہت ہیں اور مدارس بھی بکثرت موجود ہیں مگر ان کی تاثیر مفقود ہے اس کی بنیادی وجہ تقویٰ سے تہی دامنی ہے۔تقویٰ کا مطلب یہ ہے کہ انسان ہمہ وقت اللہ تعالیٰ کی نگرانی و حفاظت میں ہے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں تقویٰ کو اختیار کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔یعنی مسجد و مدرسہ کی تاسیس سے پیشتر انسان پر لازم ہے کہ وہ نیت کو خالص کرے اور اللہ سے ڈرتارہے جبھی اس کا عمل دعوت کے میدان میں کامیاب ہوسکے گا۔

پہلی نصیحت اہل دین کے لیے یہ ہے کہ دینی تعلیم کے اہتمام کے ساتھ سب سے پہلے تقویٰ کو لازم پکڑ لیں اور دنیا کی منفعت سے اپنا رخ موڑ لیں بصورت دیگر نیک کام کے کامیاب ہونے میں مشکلات در آسکتی ہیں۔کیونکہ دینی تعلیم پر کام کرنے کا اصل مقصد و ہدف یہ ہے کہ دعوت کے میدان میں خدمت کی جائے اور اسلام کی حقیقی تعلیمات و زندہ کرنے کے ساتھ اعتدال و میانہ روی کو بھی اپنا شعار بنایا جائے۔دوسری نصیحت یہ ہے کہ دینی تعلیم کے فروغ کے ساتھ ایسے طرق تعلیم کو اختیار کیا جائے جوعقل و فکر کو قابل استعمال بنانے میں معاون ثابت ہوں اور پاکیزہ اور اچھی فکر کو ہر کام سے پہلے بروکار لانے کا موجب ہوں۔

دینی تعلیم ادارے کامیاب ہوئے ہیں قرآن کرام کی تحفیظ کو یقینی بنانے میںاور بہت سے حفاظ کرام اسلامی معاشرے میں ظاہربھی ہوئے ہیں لیکن بڑی مشکل یہ پیش آئی ہے کہ یہ ادارے دین کا صحیح فہم ان حفاظ کرام کو سمجھانے میں ناکام رہے کیونکہ توجہ صرف قرآن کریم کو یاد کرنے میں صرف کی گئی جبکہ قرآن کے پیغام کو سمجھنے سے پہلوتہی کرلی گئی ۔یہ بہت بڑا عیب اور بڑی کمزوری ہے ،قرآن کو حفظ کرلینا اور اس کو سمجھنے میں مشرق ومغرب کا سافاصلہ موجود ہے جس کو سر کرنا ضروری ہے دنیا ومافیھاکی کامیابی سمیٹنے کے لئے۔دینی تعلیمی اداروں کی ایک یہ بھی خامی ہے کہ وہ باتوں کو کتب درکتب نقل کرتے جاتے ہیں مگر اس پر غور وخوض تک نہیں کرتے کہ اس میں کیا مفید ہے اور کیا نقصان کا موجب۔بہت سے ایسے فتاویٰ ہیں جن کا زمانہ ختم ہوچکا ہے مگر ان کو نسل بعد نسل منتقل کیا جارہاہے۔جیسے کسی شخص سے سوال کیا جائے کہ عورت کاحق مہر کیا ہے تو اس میں بتایا جاتاہے کہ دینار ودرہم مختص کردئیے جاتے ہیں جبکہ دینار و درہم کا زمانہ عجم میں بالعموم مفقود ہوچکاہے۔لہذا اس طرح کا جواب اب کارآمد و مفید نہیں ہے۔

یہ بات بھی مسلم ہے کہ دینی تعلیم سے کسی طور استغناء نہیں کیا جاسکتا۔البتہ اس میں کھرے اور کھوٹے و الگ کرنا بھی ضروری ہے تاکہ نقل و عقل کے درمیان مطابقت باقی رہ سکے۔فحص و تمحیص اور تحقیق کرتے ہوئے عصر حاضر کے تقاضوں پر بھی نظررکھنا ضروری ہے نہ کہ ایسا ہوجائے کہ پرانے فتوئوں میں موجود ہے کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ تمہیں اتنی بڑی طلاق ہے جوکہ سمندر کے برابر ہے تو اس بارے میں فقہاء کے بعض لوگوں نے اس کو تین طلاق پر محمول کیا اور بعض نے اس کوایک طلاق تصور کیا۔یہ پورانے لوگوں کا طرز تکلم تھا اب تو آسانی و سہولت کا زمانہ ہے ہر کام سے متعلق عام فہم بات کی جاتی ہے اس طرزکواختیار نہیں کیا جاتا۔

دینی تعلیمی ادارے کے ایک طالب علم نے مجھے بتایا کہ ہمارے یہاں گناہ کے ارتکاب کرنے والے کو اسلام سے خارج قراردیدیاجاتاہے۔!!یہ بات میرے لیے متحیر کن تھی کہ یہ لوگ کس طرح بات بات پر لوگوں کو کافر قراردیتے ہیں ۔اس پر میں نے اس طالب علم کو تلقین کی کہ اس میں شک نہیں کہ گناہ کاارتکاب کرنا بہت بڑی جسارت ہے اور معاشرے کو انارکی میں دھکیل دینے کے مترادف بھی تاہم اس سب کے باوجود وہ شخص اسلام سے خارج نہیں ہوجاتاالبتہ گناہ کی وجہ سے اس پر لازمی ہے کہ وہ صدق دل سے اللہ کی طرف رجوع کرے اور توبہ تائب ہوکر آئندہ کی زندگی راست روی پر گذارنے کا عزم کرے۔ایک اور طالب علم سے بات ہوئی تو اس نے بتایا کہ دنیا میں چہارطرف ظلمت کا دوردورہ ہے ان مشکلات و مصائب سے نجات کا وحید ذریعہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ امام مہدی تشریف لائیں گے تو معاشرے کی اصلاح کا انتظام خود بخود ہوجائے گا۔میں نے اس کو کہا کہ آپ کیوں منتظر فردا ہو؟؟؟ آپ پر لازمی ہے کہ اپنے حصے کا کام نیکی کی دعوت دینا اور برائی سے منع کرنا اس کو اداکریں۔ہرانسان اپنے حصہ کا فرض اداکرنے کا مکلف ہے۔

ہمارے سامنے یہ امر بھی ملحوظ خاطر ہے کہ عصر حاضر میں دینی تعلیم پر طعن و تشنیع کے نشتر برسانے والوں کی کثرت ہے،ان کی یہ خواہش ہے کہ وہ مسلم معاشرے کا اعتماد اسلام کے نظام پر سے اٹھادیں اور اسلامی تعلیمات کے فوائد سے معاشرہ محروم ہوجائے۔بحیثیت مسلمان ہم ہر ایسی کوشش و سازش کے خلاف صف اول میں کھڑے ہوئے ہیں تاہم ہم پر ایسے میں یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اپنی داخلی کمزوریوں پر غورکریں اور ان کو دور کرنے کی کوشش کریں تاکہ اسلام کے آفاقی پیغام کے پر تاثیر ہونے میں حائل ہونے والی تمام تررکاوٹیں کافور ہوجائیں اور عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق مسلم معاشرے فخر و امتیاز کے ساتھ دوش بدوش چلنے کے قابل ہو جائے۔

Dr Khalid Fuaad Al Azhari

Dr Khalid Fuaad Al Azhari

تحریر : ڈاکٹر خالد فواد الازہری