توہین مذہب کے قوانین کے غلط استعمال کو روکا جائے

Protest

Protest

اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستان میں توہین مذہب کے الزام میں ڈیوڈ مسیح کو گرفتار کیے جانے پر ملک کے توہین مذہب کے قانون کے استعمال پر انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں۔

واشنگٹن ڈی سی میں قائم ‘انٹرنیشنل کرسچین کنسرن‘ نامی ایک غیر سرکاری تنظیم کی اطلاعات کے مطابق پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا میں ایک مسیحی باشندے کو توہین مذہب کے الزام کے تحت گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ابتدائی رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا کے شہر نوشہرہ کے ایک مضافاتی رہائشی علاقے رسالپور میں ایک نالے سے مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن مجید کے صفحات ملنے کے واقعے کی ایک ویڈیو 27 اگست کو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔ تین روز بعد یعنی 30 اگست کو رسالپور کے کچی لائن علاقے سے ڈیوڈ مسیح نامی ایک کرسچین کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس پر پاکستان کی پینل کوڈ کی شق 295 B کے تحت توہین مذہب کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ گرفتاری کے بعد پولیس نے کہا ہے کہ وہ ابھی اس واقعے کی چھان بین کر رہی ہے اور تفتیشی کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔ تاہم تا حال پولیس کی طرف سے ڈیوڈ مسیح کے قران کی صفحات کی بے حُرمتی کے واقعے میں ملوث ہونے کے کوئی شواہد یا ثبوت نہیں دیے گئے ہیں۔ اگر ڈیوڈ مسیح پر جُرم ثابت ہو گیا تو اُسے عمر قید تک کی سزا ہو سکتی ہے۔

دریں اثناء انٹرنیشنل کرسچین کنسرن (آئی سی سی) کے ایشیا کے ریجینل مینیجر ویلیم اسٹارک نے ڈیوڈ مسیح پر لگنے والے توہین مذہب کے الزام کی خبر پر اپنی تنظیم کی طرف سے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس واقعے کی مذمت کی ہے۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا،”ہم پاکستانی حکام سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس الزام کی مکمل اور شفاف تحقیقات کرائیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ڈیوڈ مسیح پر لگائے جانے والے الزامات جھوٹے نہیں ہیں۔ پاکستان کے توہین مذہب کے قوانین کے غلط استعمال کو روکا جانا چاہیے۔ یہ قوانین انتہا پسندوں کے ہاتھوں استعمال ہونے والے ہتھیار کی مانند ہیں جن سے اقلیتی برادریوں کے خلاف مذہبی اشتعال کو بھرپور تحریک ملتی ہے۔‘‘

پاکستان میں سماجی انصاف اور اقلیتوں کے حقوق کے لیے سرگرم ادارہ برائے سماجی انصاف اور ‘پیپلز کمیشن فار مائنوریٹیز رائیٹس‘ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر پیٹر جیکب نے ڈیوڈ مسیح کو توہین مذہب کے الزام میں گرفتار کیے جانے پر ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے تشویش کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ برسوں کے دوران ہزاروں افراد پر توہین مذہب کے الزامات عائد کیے جا چُکے ہیں اور درجنوں افراد کا قتل ہوا ہے۔ اُن کا کہنا تھا،” ہم سمجھتے ہیں کہ توہین مذہب کے خلاف ملکی قانون کا زیادہ تر غلط استعمال ہو رہا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ تحفظ جو آئین اور قانون میں ہر شہری کو دیا گیا ہے، یعنی اُس کی عزت و آبرو اور جان و مال محفوظ رہیں گے۔ اس کو یقینی بنانے کے لیے ہمیں سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے اور اتفاق رائے سے معاشرے میں باہمی احترام اور اعتماد پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔‘‘

آسیہ بی بی کیس نے مغربی دنیا کی توجہ پاکستان کے توہین ریالت کے قانون کی طرف مبذول کروا دی۔

پاکستان میں توہین مذہب کے الزامات بڑے پیمانے پر جھوٹ پر مبنی اور ذاتی دشمنی نکالنے کا سبب بھی بنتے ہیں۔ پاکستان میں توہین مذہب کے قوانین میں 1987ء میں دفعہ 295-B اور 295-C کا اضافہ کیا گیا تھا۔ تب سے توہین مذہب کے الزامات سے متعلق کیسز کی تعداد بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ 1987ء سے 2017 ء کے درمیان پاکستان میں ایک ہزار پانچ سو چونتیس افراد پر توہین مذہب کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ ان میں سے 829 الزامات یعنی 54 فیصد مذہبی اقلیتوں کے خلاف لگائے گئے تھے۔ کرسچینز پاکستان کی کل آبادی کا صرف 1.6فیصد بنتے ہیں، 238 الزامات یعنی 15.5 فیصد عیسائیوں کے خلاف لگائے گئے ہیں۔