دینی مدارس ۔۔۔سلامتی و تحفظ کا سایہ فگن

Madrassas

Madrassas

تحریر : حافظ محمد صدیق مدنی

مدارس اسلامیہ کی خشت اول امن کے گارے سے تیار ہوتی ہے اور اس کے مقاصد واہداف میں سلامتی اور تحفظ کا سایہ فگن ہوتا ہے اس واقعیت کے باوجود یہ پروپیگنڈہ کہ مدارس اسلامیہ دہشت گردی کے اڈے اور انتہاپسندی کے مراکز ہیں، معروضیت مخالف ہیں۔پوری دنیا میں جس مدرسہ کی بنیاد سب سے پہلے پڑی تھی وہ رحمة للعالمین کی زیر سرپرستی صفہ کے نام سے قائم ہوئی تھی، رحم جس کا کام، سلامتی جس کا اعلان اور تحفظ جس کا نظام تھا، اسی روشنی سے جلاپانے والے ہزاروں مدارس دینیہ گزرے دور سے لے کر آج تک اسی اساس پر قائم ہیں ہندوستان میں دینی مدارس بھی اسی نظام امن کے پیامبر اور محافظ ہیں، دینی مدارس کی بنیاد ہی امن وسلامتی کے عنوان سے بنتی ہے اوراس کی تشکیل بھی خیروخوبی کے صدائے عام سے ہوتی ہے۔اجتماعی اقدار کی تشکیل میں دینی مدارس کے بنیادی کردار سے انکار، ایک برملا حقیقت کا انکار ہوگا! جن بنیادوں پر ان کا قیام عمل میں آیا ہے اس کا نتیجہ اور ہدف صالح اقدار کی تشکیل و تعمیر ہے، ان مدارس کا پس منظر یا ان کی تگ و دو کا نتیجہ، بہترین علمائ، صاحب کردار فضلاء اور انسانیت کے علمبردار، حاملین اسلام کی پیداواری اور معاشرہ کی برائیوں، قباحتوں اور داخلی شورشوں کا انسداد ہے درحقیقت ان مدارس کا جو اساسی منثور اور بنیادی ہدف ہے وہ ہے ”عالمی ضرورتوں کی اسلامی تکمیل” یہی وہ دائرہ ہے جس کے تحت سارے مدارس کا وجود عمل میںآ یا ہے، گویا اپنے عمومی اور اساسی مفہوم میں مدارس دینیہ کی تاسیس عالمی ضرورتوں کی اسلامی تحصیل و تکمیل اورانسانی احتیاجوں کی بھرپائی ہے۔ یہی مدارس کا خاص ہدف ہے اور عام ہدف بھی، ان سے گریز، یا دامن کشی، اپنی اساس سے اعراض ہوگا، اوراگرایسا ہے تو واقعی یہ المیہ اور نامسعود ہے ان تمام باتوں کے ساتھ ساتھ، حقائق کا صحیح اور مناسب جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ ہمارے دینی مدارس اپنے اساسی منشور سے تھوڑے بہت گریزاں ہیں، یہ کوئی خواہ مخواہ کا قیاس اور رائے زنی نہیں، بلکہ موجودہ دینی اداروں کے اقدامات، رویوں اور عمل سے یہ بات معلوم ہوتی اور واقعی یہ بڑی تکلیف دہ ہے، اس حوالے سے دینی جامعات کو غور وفکر کی ضرورت ہے۔

الحمدللہ! اللہ رب العزت نے انسان کو عقل عطا کی ہے اور عقل عطا کرنے کا مقصد ہی تمیز بین الخیر والشر ہے، یعنی اسی عقل کے سہارے وہ اچھے برے میں تمیز کرسکے۔ اس سے معلوم ہوا کہ عقلمند کا ہر کام بامقصد ہوتاہے، وہ کوئی بھی کام کرنے سے پہلے، مقصد کی تعیین کرتا ہے، تاکہ اس کی محنت اکارت نہ ہو؛ جیسے کوئی انسان دوکان خریدتا ہے، تو مقصد اس میں تجارت کرنا ہوتا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ اگر وہ اس میں تالالگادے تو لوگ بے وقوف کہیں گے، کہ عجیب آدمی ہے، دوکان خریدی یا بنائی اورایسے ہی تالا لگائے پڑی ہے، تو تعجب کیوں؟مقصد سے ہٹنے پر۔ ایسے ہی اللہ رب العزت نے انسان بنایا اوراسے اشرف المخلوقات کے مقام پر فائز کیا، تو تخلیق انسانی کا مقصد بھی بیان کردیا وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون” میں نے انسان اور جنات کو محض اپنی عبادت کی غرض سے پیدا کیا۔ تو معلوم ہوا کہ مقصد حیات انسانی، عبادت خداوندی ہے، بقیہ امور مثلاً: کمانا کھانا پینا سونا وغیرہ، مقصد نہیں، بلکہ ضرورت اور حاجت ہے، اگر کوئی انسان عبادت جل مجدہ سے منہ موڑکر محض کھانے پینے کمانے اور سیر و تفریح، کھیل کود میں لگ جائے، تو اس کا مطلب وہ اپنے مقصد سے ہٹ کر زندگی بسر کررہا ہے۔ اسی لیے اس کا انجام جہنم اور عذاب ہوگا۔ جیسے قلم لکھنے کے لیے بنایا جاتا ہے، مگر اگر ایک مدت تک اسے استعمال نہ کیا جائے تو وہ بے کار ہوجاتا ہے۔

اب جب یہ بات سمجھ میں آگئی، تو آئیے! مدارس کے قیام کا مقصد اور پس منظر بھی معلوم کرتے چلیں، تاکہ بعض روشن خیال، نام نہاد دانشور اور مدارس اور مسلمانوں کے نادان خیرخواہوں کو بھی بات سمجھ میں آجائے، اور وہ مدارس سے ڈاکٹرز، انجینئر اور سائنس داں پیدا کرنے کی خواہش ترک کردے، اور خود اپنے گریبان کو جھانکیں کہ معاشرے کو خاص طور پر مسلمان معاشرے کو جو ڈاکٹرز، سائنس داں اور انجینئرز وغیرہ نہیں مل رہے ہیں، اس میں قصور ان کا ہے، مدارس کا نہیں۔ ابھی کچھ دنوں پہلے میں نے ایک روزنامہ میں پڑھا کہ اتنے کثیر تعداد میں مدارس ہونے کے باوجود پچھلے نوسوسال میں مدارس نے کوئی خوارزمی خیام رازی امت کو نہیں دیا، تو مجھے بڑا عجیب سا معلوم ہوا، کچھ ہنسی بھی آئی اور غصہ بھی؛ تو میں نے قلم اٹھایا اور ارادہ کرلیا کہ ان جیسے مقالہ نگاروں کے سامنے مدارس کا مقصد بیان کردینا ضروری ہے تاکہ امت، خلطِ مبحث کا شکار نہ ہوجائے، امید ہے کہ اس کا بغور مطالعہ کریں گے۔

1857 میں متحدہ ہندوستان کے باشندوں کی مسلح تحریک آزادی ناکام ہوگئی اورہندوستان میں برطانوی حکومت باضابطہ قائم ہوگئی، تو اس نئی برطانوی ظالم حکومت نے دفتروں اور عدالتوں سے فارسی اور عربی زبان کی بساط لپیٹ دی، اس کے ساتھ ساتھ دیگر علومِ اسلامیہ کا بھی، خاص کر فقہ اسلامی، تفسیر، حدیث کی تعلیم دینے والے مدارس کے معاشرتی کردار پر بھی خطِ نسخ کھینچ دیاگیا، جس کے نتیجے میں ہزاروں مدارس اس نوآبادیاتی فیصلے کے نذر ہوگئے، ایسے سنگین حالات میں حکیم الامت حضرت شاہ ولی اللہ صاحب رحمة اللہ علیہ کی جماعت کے بچے کھچے درویش صفت بزرگوں نے دیوبند، سہارنپور، مرادآباد اور ہاٹ ہزاری میں دینی مدارس کے، ایک رضاکارانہ اور پرائیویٹ سلسلے کا آغاز کیا۔ جو ان بزرگوں کے خلوص اور معاشرے کی دینی ضرورت کے باعث بہت جلد ایک مربوط اور منظم نظام کی شکل اختیار کرگیا، اور جنوبی ایشیا کے کونے کونے میں ایسے مدارس کا جال بچھ گیا، اور اب تو ماشاء اللہ صرف ہندوستان اور جنوبی ایشیا ہی نہیں، بلکہ برطانیہ، امریکہ، کنیڈا، جرمنی، آسٹریلیا، جنوبی افریقہ اور اب عرب ممالک میں بھی اس کے قیام کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے، بلکہ قائم کئے جارہے ہیں، اور کئے جاتے رہیں گے (انشاء اللہ) کیوں کہ اس کا مقصد بڑا ہی پاکیزہ اور مقدس ہے۔

اہلِ اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کے انفرادی، اجتماعی، شخصی ومعاشرتی تمام معاملات میں وحی الٰہی کے پابند ہوں، اور اخروی نجات کے ساتھ ساتھ ان کی دنیاوی کامیابی اور فلاح بھی آسمانی تعلیمات کی پیروی پر موقوف ہے، اہلِ اسلام حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک کے تمام انبیاء کی تعلیمات کو حق مانتے ہیں، اور اس پرایمان رکھتے ہیں، اور ان کا یہ عقیدہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات، تمام انبیائے کرام علیہم السلام کی تعلیمات کا نچوڑ اور خلاصہ ہے۔اور قرآن کریم وحی الٰہی کا فائنل ایڈیشن ہے، اور وہ مکمل محفوظ ہے؛ باقی تمام کتابیں عدم حفظ کا شکار ہیں، لہٰذا راہِ حق کے لیے اس کے علاوہ کوئی اور سبیل ہی نہیں۔ اس پس منظر سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ہر مسلمان مرد اور عورت کا قرآن و سنت کی تعلیمات سے آراستہ ہونا، اس کے دینی فرائض میں شامل ہے؛ لہٰذا دنیا پر استعماری طاقتوں کے تسلط سے پہلے مسلمانوں کی مذہبی حکومت اور قیادت ہی، دینی تعلیم کے فروغ کو اپنی دینی ذمہ داری سمجھتی تھی، لہٰذا اس کے لیے جو کچھ ہو، کرگذرتی تھی، اس میں کوتاہی نہیں کرتی تھی، مگر استعماریوں کے تسلط کے بعد مذہبی تعلیمات علماً وعملاً صحیح طور پر باقی رکھنے کے لیے رضاکارانہ طور پر مدارس کی صورت میں پرائیویٹ تعلیمی نظام کی بنیاد رکھی گئی، قیام مدارس سے اکابر کا اصل مقصد، اسلامی معاشرہ میں دینی تعلیم کو باقی رکھنے کے لیے معاشرہ میں مساجد و مدارس کو رجال کار کی فراہمی تھا، تاکہ دینی تعلیم کا سلسلہ بلا کسی تعطل و خلا کے چلتا رہے الحمد للہ مدارس اپنے مقصد میں کامیاب ہیں، خود علامہ اقبال نے مدارس پر اعتراض کرنے والوں سے کہا تھا کہ ”ان مدارس کو اسی حالت پر کام کرنے دو۔ اس نے ہندوستان کو اسپین ہونے سے بچالیاہے۔”

خلاصہ کلام یہ ہے کہ مدارس، ضرورت کے بقدر انگریزی کمپیوٹر وغیرہ تو اپنے نصاب میں داخل کرسکتے ہیں مگر مدارس سے یہ مطالبہ کرنا کہ وہ ڈاکٹرز اور انجینئر معاشرہ کو فراہم کرے۔ بقول شیخ الاسلام حضرت مولانا تقی عثمانی دامت برکاتہم، ایساہی ہے جیسے کسی میڈیکل کالج کے نصاب میں انجینئرنگ کی کتابیں داخل کرنا یا کسی انجینئرنگ کالج میں ڈاکٹری کی کتابیں داخل کرنا۔ ظاہر ہے کہ اس کو حماقت تصور کیا جاتا ہے، تو مدارس سے یہ مطالبہ بالکل ایسا ہی ہے، جیسے آم کے درخت سے جامن یا انگور کی امید رکھنا۔

بہرحال اس مضمون کا مقصد، صرف قیام مدارس کا بیان کرنا تھا جو اختصاراً بیان کردیاگیا، الحمدللہ! مدارس اپنے مقصد میں کامیاب ہیں اور انشاء اللہ کامیاب رہیں گے، ان ہی مدارس نے حضرت تھانوی رحمة اللہ علیہ، حضرت گنگوہی رحمة اللہ علیہ، قاضی مجاہد الاسلام رحمة اللہ علیہ، مولانا علی میاں ندوی رحمة اللہ علیہ، مولانا تقی عثمانی، مفتی شفیع صاحب رحمة اللہ علیہ، علامہ ادریس کاندھلوی رحمة اللہ علیہ، علامہ بنوری رحمة اللہ علیہ، علامہ شبیر احمد عثمانی رحمة اللہ علیہ، علامہ ظفر عثمانی رحمة اللہ علیہ، شیخ زکریا رحمة اللہ علیہ، قاری طیب صاحب رحمة اللہ علیہ، حضرت مدنی رحمة اللہ علیہ، علامہ کشمیری رحمة اللہ علیہ، عطاء اللہ شاہ بخاری رحمة اللہ علیہ، مولانا منظور نعمانی رحمة اللہ علیہ وغیرہ رحمہم اللہ تعالیٰ جیسے اساطین علم وفضل امت کو عطا کئے اور کرتے چلے جارہے ہیں۔ ڈاکٹرز اور سائنس داں کا مطالبہ علی گڑھ اور جامعہ ملیہ سے کرو، جو اسی مقصد پر قائم کئے گئے تھے، کہ ہم امت کو انجینئرز، ڈاکٹرز اور سائنس داں دیں گے، اگر ان مدارس سے بے جا مطالبات کرنے والوں کو شکایت ہی ہے . مدارس کیسے چلتے ہیں اور انہیں کیسے چلایا جاتا ہے، اسے تو اللہ ہی خوب بہتر جانتے ہیں، کتنی قربانیوں اور کیسے کیسے طعنوں اور دربدر کی ٹھوکروں کے نتیجہ میں یہ اپنی خدمات میں مصروف ہیں، وہ کوئی پوشیدہ نہیں، سبھی جانتے ہیں، ایک طرف اعداء اسلام ان کو ”بنیاد پرست”، رجعت پسند”، ”دہشت گرد”، ”قدامت پسند” کا طعنہ دیتے ہیں اور دوسری جانب روشن خیال مسلمان جو مدارس کے نادان دوست ہیں، وہ اپنی خطاؤں سے مدارس کو مورد الزام ٹھہرادیتے ہیں، انجینئرز اور ڈاکٹرز اور سائنس داں پیدا کرنے کا بیڑا ہم اہلِ مدارس نے لیا ہی کہاں ہے؟ یہ بات الگ ہے کہ دینی مدارس اب نونہالانِ امت کے ایمان کو بچانے کے لئے دینی ماحول میں عصری تعلیم کی طرف بھی توجہ دے رہے ہیں، مگر اس پر بھی امت کا ایک طبقہ ان کو نشانہ بنائے ہوئے ہے۔ عجیب صورت حال، امت کو ہر جانب سے مدارس ہی کو نشانہ بنانے کی سوجھتی ہے، مگر مدارس الحمدللہ! اللہ کی توفیق اور مدد سے برابر اپنی خدمت میں بلاکسی لومة لائم کی پرواہ کئے بغیر مصروف کار ہیں؛ اللہ ہمارے ان مدارس کو ہر طرح کی داخلی وخارجی، ظاہری و باطنی سازشوں اور فتنوں سے محفوظ رکھے۔ آمین یا رب العالمین!

Mohammad Siddiq Madani

Mohammad Siddiq Madani

تحریر : حافظ محمد صدیق مدنی