حق تو یہ ہے کہ، حق ادا نہ ہوا

Writer

Writer

تحریر : اے آر طارق

صحافت میں تب سے ہوں، جب سے ہوش سنبھالا، کچھ اس طرح سے کہ ،میرے چاچو شعبہ صحافت سے منسلک ہیں اور ابو بھی ادبی ذوق والے،جہاں میں ان سے طارق ماڈل سکول حبیب آباد(واں رادھا رام )میں پڑھا، وہیں صحافتی رموز واوقاف بھی ،ان سے سیکھے ،خبریں کیسے بناتے ،ان کو مرچ مسالہ کیسے لگاتے،چاچو جوکہ اس وقت تقریبا بہت سارے اخبارات سے بھی منسلک ، صدر پریس کلب حبیب آباد ضلع قصور بھی، کمال صحافی ،بہترین کالمنسٹ،اس وقت جو لکھتے توخوب لکھتے،لکھتے وقت صفحات پرالفاظ کی صورت میں حکمت و دانائی کے موتی بکھیر دیتے،ان کی تحریریں،کالم ،تجزئے،تبصرے،ڈائریاں جو بھی پڑتا ،پڑھ کر عش عش کر اٹھتا اور بہت زیادہ سراہتا۔ ان کے تیکھے قلم سے لکھے گئے چھبتے ہوئے تجزئے اپنی مثال آپ تھے،کسی تعارف کے محتاج نہیں، اپنے وقت کے ممتاز صحافی ، سینئر تجزیہ نگار، کالم نویس’’ رشید احمد نعیم‘‘ کے نام سے صحافتی افق پر چمکتے ہوئے ستارے کی مانند جانے اور پہچانے جاتے ہیں ، 30 سال سے شعبہ صحافت سے منسلک، مختلف اخبارات میں نیوز ایڈیٹر،اسسٹنٹ ایڈیٹر،سب ایڈیٹر،مینجنگ ایڈیٹر ،میگزین ایڈیٹر فرائض احسن طریقے سے سرانجام دے چکے اوریہ کہ اب بھی کئی اخبارات میں اپنی خدمات سر انجام دے رہے۔

صحافتی تنظیم 129129129 آئی سی سی پاکستان کے صدر کے طور پر اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھا رہے۔ چاچو کو دیکھا کہ کس جرات سے لکھااور اداروں قبلہ درست کرنے پر مجبور کر دیا ،یہاں تک کہ کئی بار پولیس کی ناقص کارکردگی کا احوال لکھنے پر یا چوری ڈکیتی کی خبر اخبار کو بھیجنے پر پولیس کو اپنے گھر ،یہ کہتے ہوئے پایا کہ سر یہ آپ نے کیا کر دیا؟میں بھی کم سنی میں ہی پولیس اسٹیشن جاتا، کرائم اور اس سے منسلک جتنی بھی خبریں ہوتی،منشی سے لکھوا کر لے آتا، جنہیں بنانا چاچو کا کام اور خوشخط ،نیٹ کرکے لکھنا میراکام ،بعدازاں رینالہ خورد جاکر فیکس کرنا بھی میری ذمہ داری ٹھہری۔

زندگی میں میرا پہلا کالم خبریں میں چوراہا،حسن نثار کے کالم میں ’’بیٹا شرمندہ نہ کرو‘‘ کے عنوان سے جگہ پاتا ہے،اس وقت میں جماعت پنجم میں پڑھتا تھا اور وہ دور تھا کہ پاکستان میں وزیر اعظم بدلنے کی ،بارش کی طرح جھڑی لگی ہوئی تھی اور یکے بعد دیگرے دو تین وزیر اعظم بدل چکے تھے ،اسی صورتحال پر میرا یہ کالم تھا،جسے میں نے لفافے پر حسن نثار کی ،صرف تصویر لگائے، بغیر اخبار کا پتا لکھے ،روزنامہ خبریں کو بھیجا اور وہ چوراہا میں ایک خط کی صورت میں ’’بیٹا شرمندہ نہ کرو‘‘ کے عنوان سے اخبار کی زینت بنا۔

باضابطہ لکھنے کا آغاز 2000 میں کیا،جب بچوں کے صفحات کے لیے لکھا، پھر 2004 سے باقاعدہ کالم لکھنے کی طرف راغب ہوا اور لکھتا ہی چلا گیا، قومی اخبارات میں لکھنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے چھوٹے بڑ ے رسائل میں بھی لکھا،چاچو کی گائیڈ لائنز،ابو کی راہنمائی، اللہ کا کرم کہ آج آپ کے سامنے بطورلکھاری موجود ہوں اور ملکی صورتھال پر اپنی دانست میں حتی الامکان درست تجزئے،دل کی آواز کے مطابق ،حق اور سچ کی آواز بلند کیے ،جابر حاکم کے سامنے کلمہ حق بلند کیے،بغیر کسی لالچ وطمع کے لکھ رہا ہوں اور بے لاگ تجزیہ،حکومت کے خلاف بھی لکھا ،حق میں بھی لکھا مگر جو بھی لکھا،سچ اور حقائق کی کسوٹی پر پرکھ کے لکھا،لکھتے وقت کبھی بھی صحافتی ڈنڈی نہیں ماری۔

سب کچھ صاف صاف اور ٹھیک لکھا،تمام تر خوف سے بالاتر ہوکر،اللہ کے حضورسر جھکاتے ہوئے لکھا،کبھی کسی سے ناانصافی نہیں کی اور نہ ہی کسی کی حق تلفی (حتی الامکان اس سے گریز کیا)مگر اصلاحی نقطہ نظر سے،جس کو جتنا کریڈٹ جاتا،دیا،چاہے وہ حکومتی رکن ہو یا اپوزیشن کا بندہ،کسی سے بھی نہ صلے کی تمنا،نہ واہ واہ کا شوق،جو لکھا،حق اور سچ لکھا،بے خوف،بے دھڑک لکھا،لکھتے وقت جولکھا،خوف خدا کرکے لکھا،حدود و قیود میں رہتے ہوئے ،تمام پارٹیز کے متعلق لکھا،اچھا کام کریں تو تعریف اور برا کریں تو تنقید، ملک و قوم کے وسیع تر مفادات میں ریاست و اداروں کی بھلائی میں لکھا،ہر اس محب وطن شخص کے لیے لکھا، جو اس ملک عزیز میں بہتری کا خواہشمند اور اس کو ترقی دینے میں کوشاں،غلط بات پر بھرپور آواز اٹھائی اور معاشرتی برائیوں کو ہر پلیٹ فارم پر بے نقاب کیا اور اچھے کاموں پر ہراس آدمی اور ادارے کی تعریف کی،جس نے ملک وقوم کے لیے کوئی اچھا کام یا فریضہ سرانجام دیا۔

کفروالحاد کے اس پر کٹھن دور میں بھی جھوٹ سے کوسوں دور رہا اور سچ کے اظہار کا اعلان علی الاعلان کیا،اس پر تکالیف اور مصائب بھی سہے،زمانے کی تلخیاں،سختیاں بھی برداشت کی ،مگر حق اور سچ کا دامن کبھی بھی ہاتھ سے نہیں چھوڑا،جو ٹھیک سمجھا، اس پر ڈٹ گیا،کسی کو مظلوم پایا تو اس کی ہر ممکن داد رسی کے لیے اس کا ساتھ دیا ،ضرورت پڑنے پر ساتھ بھی چل دیا،ظلم کے سامنے زمانے کے تمام تر جھوٹ کے باوجود اپنی بساط میں رہتے ہوئے سچ سامنے لاکر مظلوم کو انصاف دلانے کی کوششوں میں میں رہا،مگر حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔۔۔

AR Tariq

AR Tariq

تحریر : اے آر طارق