اپنے حقوق کے لیے نہیں کھڑے ہوں گے، تو کچھ نہیں بچے گا

Maria Ressa

Maria Ressa

منیلا (اصل میڈیا ڈیسک) فلپائن کی ایک عدالت نے سینئر خاتون صحافی ماریا ریسا کو سائبر کرائم کے قوانین کے تحت چھ سال قید کی سزا سنائی ہے۔ ماریا ریسا کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف فیصلہ انتقامی کارروائی کا نتیجہ ہے۔

منیلا کی ایک عدالت نے ماریا ریسا اور ان کے ایک سابق ریسرچر کو ملک کے متنازعہ سائبر قوانین کے تحت مجرم قرار دیا اور انہیں چھ سال تک جیل کی سزا سنائی۔ ماریا ریسا پرالزام تھا کہ ان کی نیوز ویب سائٹ ‘ریپلر‘ نے آٹھ برس پہلے ایک آرٹیکل میں ملک کی ایک بڑی کاروباری شخصیت پر غلط اور بدیانتی پر مبنی الزام عائد کیے تھے جس سے ان کی ساکھ متاثر ہوئی۔

فلپائن کی حزب اختلاف، صحافتی تنظیموں اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے عدالتی فیصلے کی مذمت کی ہے اور اسے آزادی صحافت پر حملہ قرار دیا ہے۔

فلپائن کے صدر روڈریگو ڈوٹیرٹے ان کے حمایتی ان پر جھوٹی خبریں یا فیک نیوز چلانے کے الزامات لگاتے رہے ہیں۔ ماریا ریسا فلپائنی صدرکے مبینہ جمہوریت مخالف اقدامات کی بڑی ناقد رہی ہیں۔

ماریا ریسا پر الزام یہ ہے کہ انہوں نے سن دو ہزار بارہ میں اپنی نیوز ویب سائٹ ‘ریپلر‘ میں بزنس مین وِلفریڈو کینگ پر منشیات اور انسانی اسمگلنگ میں ملوث ہونے کے الزامات لگائے۔ یہ الزامات ایک انٹیلیجس لیک پر مبنی تھے اور فلپائن میں اس سے پہلے بھی چھپ چکے تھے۔

لیکن وِلفریڈو کینگ کا کہنا ہے کہ اس مضمون نے ان کے کردار اور کاروبار پر بدنیتی پر مبنی الزامات لگا کر انہیں نقصان پہنچایا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس وقت یہ آرٹیکل شائع ہوا اُس وقت فلپائن میں شہریوں کی بدنامی سے متعلق سائبر کرائم کا قانون موجود نہیں تھا۔ ملک یہ قوانین مضمون چھپنے کے چار ماہ بعد نافذ کیے گئے۔

نیوز ویب سائٹ کا کہنا ہے کہ اس مضمون کے لیے وِلفریڈو کینگ کا موقف لینے کی کوشش کی گئی تھی تاہم انہوں نے جواب نہیں دیا، جس کے باوجود بھی ان کا شائع شدہ موقف آرٹیکل میں شامل کیا گیا تھا۔

وِلفریڈو کینگ پانچ سال تک اس معاملے پر خاموش رہے۔ انہوں نے پھر سن دو ہزار سترہ میں نیوز ویب سائٹ کے خلاف عدالت میں کیس کیا۔

پیر کو انہوں نے ماریا ریسا کے خلاف عدالتی فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ بلآخر انہیں عدالت سے انصاف مل گیا۔ اس موقع پر ان کا اصرار رہا کہ، ‘اس کیس کا حکومت سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی یہ اظہار صحافت کا مسئلہ ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ اس فیصلے سے فلپائن کے لوگوں کو تسلی ملے گی کہ یہاں اگر کوئی جھوٹ شائع کرے گا، تو قانون کے تحت اُس کی جوابدہی ہوگی۔

چھپن سالہ ماریا ریسا فلپائن میں پیدا ہوئیں لیکن ان کی پرورش امریکا میں ہوئی۔ سن اسی کی دہائی میں فلپائن کے ڈکٹیٹر فرڈینینڈ مارکوس کے اقتدار کے خاتمے کے بعد وہ واپس اپنے ملک منتقل ہو گئیں، جہاں وہ کئی سال تک سی این این کی رپورٹر رہیں۔

سن دو ہزار بارہ میں انہوں نے ‘ریپلر‘ کے نام سے اپنی ایک نیوز ویب سائٹ لانچ کی۔ ان کا شمار فلپائن کے ان چند سرکردہ صحافیوں میں ہوتا ہے جو کُھل کر صدر ڈوٹیرٹے کی پالیسوں پر نکتہ چینی کرتے رہے ہیں۔ ان کی ویب سائٹ منشیات کے خلاف حکومتی آپریشن میں ہزاروں جانوں کے ضیاں اور مبینہ زیادتیوں پر سوال اٹھاتی رہی ہے۔

امریکی ادارے فریڈم ہاؤس کے مطابق فلپائن کا شمار دنیا میں صحافت کے لیے خطرناک ترین ملکوں میں ہوتا ہے۔ صحافیوں کی عالمی تنظیم رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز کے مطابق، وہاں کی طاقتور سیاسی شخصیات مسلح گروہوں کے ذریعے صحافیوں کو بلا خوف و خطر نشانہ بناتی آئی ہیں۔

ناقدین کے بقول جب سے صدر روڈریگو ڈوٹیرٹے اقتدار میں آئے ہیں ميڈیا پر حکومتی شکنجہ کسا گیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق، خاتون صحافی کے خلاف اس فیصلے سے ملک میں انسانی حقوق اور آزاد میڈیا کی پہلے سے زوال پذیر صورتحال ابتر ہوگی۔

جبکہ خود ماریا ریسا کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں وہ حکومتی ایما پر بننے والے کئی مقدمات کا سامنا کرتی آئی ہیں، اس لیے ان کے لیے یہ عدالتی فیصلہ غیرمتوقع نہیں تھا۔ تاہم انہوں نے کہا کہ اگر صحافی اپنی آئینی آزادیوں کے لیے کھڑے نہیں ہوں گے تو پھر کچھ نہیں بچے گا۔

ماریا ریسا کے وکلا کا کہنا ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں جائیں گی۔ آج کے فیصلے کے مطابق وہ فی الحال ضمانت پر آزاد ہیں۔