سپریم کورٹ کے فیصلے کے خطرناک مضرمات ٣

Supreme Court

Supreme Court

تحریر : میر افسر امان

ہم نے پہلے دو حصوں میں شہزاد شامی صاحب کے مضمون کے عدالتی فیصلہ اور مضرمات کولیا تھا۔ اس آخری حصہ میں اقلیتوں کی تین فی صد آبادی کے لیے ایک اسلامی ملک کے ٩٧ فی صد بچوں کے حقوق کا جنازہ نکالنے کے لیے تین فیصد اقلیتوں کے فارن فنڈڈد این جی اوز دلیلیں دیتے پھرتے ہیں کو لیا ہے۔ جو کہ نانصافی کے زمرے میں آتا ہے۔ کچھ کالم نگاروں کی سوچ جن کو اسلام سے بیزاری اور مغر ب کی پیسے کی چمق نے دیوانہ بنا رکھا ہے، وہ اس دیوانگی میں پیسے کے پیچھے اور اس کی تلاش میں سر گرداں رہتے ہیں ۔مغرب نے اسلامی ملکوں میں اصلاح کے نام سے این جی اورز بنا رکھیں ۔اس کا مطلب غیر حکومتی ادارے ۔ ان این جی اوز کے ذریعہ یہ ایسے ڈالر کی تلاش میں مذہب بیزار کچھ لکھاریوں کو تلاش کرتیرہتے ہیں۔اسی کو اس حسہ میں بیان کیا گیا ہے۔ اس نانصافی سے ملک کے ٩٧ فیصد آبادی میں ہیجان پیدا ہوگا۔ اسے عدلیہ کو کسی مناسب فیصلہ سے ختم کرنا چاہیے۔

٣ـ محترمہ رتنا کماری ، بیوہ جسٹس رانا بھگوان داس ۔مذکورہ بالا دونوں غیرمسلم راہنما محروم وسائل اور پسماندہ لیکن اکثریتی دلت طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ برصغیر کے ذات پات کے نظام میں یہ طبقہ کم ترین کہلاتا ہے ۔ پاکستان میں یہ مذہبی اقلیت اکثریت میں ہے ۔ اس کا نقطۂ نظر سامنے آنے پر مناسب سمجھاگیا کہ اعلیٰ برہمن اقلیتی ہندو کا نقطۂ نظر بھی سامنے آجائے ۔ بلندقامت اعلیٰ ذات کے جس برہمن کا نام ذہن میں آیا، وہ آنجہانی جسٹس رانا بھگوان داس تھے ۔ سال بھر قبل کسی اور نسبت سے ان کی بیوہ سے فون پر میری بات ہوئی تو اندازہ ہوا کہ وہ اعلیٰ برہمن ہونے کے باوجود روایتی گھریلو پردہ دارخاتون ہیں۔ انھوں نے اپنی طرف سے بات کرنے کا اختیار اپنے بھائی جناب سبھاش چندرکو دیا تھا۔

سبھاش چندر صاحب مکینیکل انجینئر ہیں اور پاک پی ڈبلیو ڈی میں اعلیٰ عہدے پر فائز رہ کرریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کے اہلِ خانہ کے مطالعہ میںاپنی مذہبی کتاب اُردو سندھی یا انگریزی میں نہیں ہندی رسم الخط میں ہے ۔ یوں آپ ان کے مذہبی ہونے کا اندازہ کرسکتے ہیں۔ میں نے فون کیا تو رنگ ٹون پر ایک ہردل عزیز نعت اس ہندو کی طرف سے سننے کو ملی۔ ان کے سامنے میں نے مذکورہ سوال رکھ کر یہ وضاحت کردی کہ جواب میں جو موقف وہ اختیار کریں گے ، اسے بیوہ جسٹس رانا بھگوان داس کا موقف بھی سمجھا جائے گا۔لہٰذا وہ وہی جواب دیں جو محترمہ کے موقف کے قریب تر ہو۔اس وضاحت کے بعد سبھاش صاحب نے دونکاتی جواب دیا:
١ـ ماضی میں پورا برصغیر ایک بڑی اور تہذیب یافتہ ہند ووحدت تھی۔ یہاں صرف مقامی لوگ تھے اور انتہائی امیراور مہذب تھے ۔ اس کے برعکس حملہ آور تہذیب یافتہ اور امیر نہیں ہوتے ۔ابتدائی طور پر گنوار حملہ آوروں نے برصغیر کی تہذیب کو مسخ کرکے رکھ دیا۔ لیکن بعد میں آنے والے حملہ آوروہ لوگ تھے جنھوں نے تاج محل، قلعہ جات، باغات،مساجد وغیرہ بنا کر اس مقامی تہذیب میں مزیدنکھار پیدا کیا۔ یہ حملہ آوراب اس دھرتی کا حصہ بن گئے لہٰذا اس دھرتی کی کتربیونت میں یہ مکمل حصہ دار ہیں۔

٢ـ میرے سوال کہ ”بعض لوگ تاریخ، مطالعہ پاکستان، اُردو، انگریزی وغیرہ میں اسلام کے تذکرے کی مخالفت کررہے ہیں…” انھوں نے پورا سوال سنے بغیر بات سمجھتے ہی میری بات کاٹ کر کہا:”نہیں نہیں، یہ غلط بات ہے ”۔اس کے بعد انھوں نے سختی سے اور زور دے کر کہا کہ حمد، نعت اور ایسی دیگر چیزیں ہماری زندگی کا حصہ ہیں۔ البتہ اوور ڈوز نہیں ہونا چاہیے جیسے کفار نے یوں کہا، یا کفار بُرے ہوتے ہیں”۔ میں نے واضح کیا کہ یہ پرانے نصاب میں تھا جسے نکال دیا گیا ہے ۔ میں نے مزید وضاحت کی کہ حمد،نعت وغیرہ یاد کرنے یا امتحان سے غیرمسلم طلبہ مستثنیٰ ہیں تو ان کا جواب تھا: ”کیوں مستثنیٰ ہیں؟ حمد، نعت میں کیا خرابی ہے ؟جناب یہ مسلم اکثریت کا ملک ہے اور مسلمان جب اپنے بچوں کو یہ پڑھاتے ہیں تو ہمارے بچے بھی پڑھ لیتے ہیں۔ جسٹس رانا بھگوان داس اسلامیات میں ایم اے تھے ۔ آج کے ہندستانی بنگال کی ہر دل عزیز وزیراعلیٰ ممتابنیرجی اسلامی تاریخ میں ایم اے ہیں۔صاحب! ان لوگوں کا مسئلہ کیا ہے ”؟

ججوں کا گروپ لے کر ہم سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے ملنے گئے ۔ جسٹس افتخارمحمد چودھری کی بحالی کا پہلادن تھا۔ انھوں نے جسٹس رانا بھگوان داس کو بھیج دیا۔ رانا صاحب نے آغازہی میں اِدھر اُدھر نظردوڑا کر ہمارے ایک باریش پروفیسر سے تلاوت قرآن پاک کرنے کو کہا۔مختصر سی مجلس تھی ،تلاوت نہ ہوتی تب بھی کوئی مضائقہ نہیں تھا۔

شعیب سڈل اور بعض کالم نگاروں کا مخمصہ
یہ مخمصہ جاننے کے لیے دو واقعات ذہن میں رکھ لیں۔ میں کبھی اپنے ادارے کی کونسل کا سیکرٹری تھا۔ اجلاس بلانا اور ا نتظام کرنا میرے ذمہ تھا۔ لاہور میں مقیم ایک ریٹائرڈ چیف جسٹس صاحب کو فون کرکے کہا کہ فلاں تاریخ کو ایک روزہ اجلاس ہے ۔ آپ صبح کی پرواز سے تشریف لاکر شام کو واپس تشریف لے جاسکتے ہیں۔بولے : ”آپ دو دن کا اجلاس رکھیں ۔میں رات ادھر ہی رہ کر عزیزوں، دوستوں سے مل لوں گا”۔اپنے ڈائرکٹر جنرل جناب ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب کو بتایا تو انھوں نے مسکرا کر اجلاس دو دن کے لیے رکھ لیا۔ایک مسئلہ درپیش تھا جسے انٹرنیشنل اسلامی یونی ورسٹی کے بورڈآف گورنرز میں زیربحث آنا تھا اور بورڈ نے فیصلہ کرناتھا۔ میں نے ضروری سمجھا کہ بورڈ کے دوایک ارکان سے مل لوں۔لاہور کے ایک ریٹائرڈ وائس چانسلر کی خدمت میں حاضر ہوا جو بورڈ کے رکن تھے ۔ بات بغور سن کر اُنھوں نے مجھ سے مکمل اتفاق کیا۔ لیکن مسکراتے ہوئے صاف گوئی سے اعتراف کیا کہ میں آپ کے نقطۂ نظر کے درست ہونے کے باوجود اجلاس میں اس کے حق میں نہ صرف بولوں گا نہیں بلکہ خاموشی اختیار کروں گا۔

اس کی وضاحت انھوں نے یوں کی: ”دیکھیں ڈاکٹر صاحب! بورڈ کا اجلاس سال میں چار دفعہ ہوتا ہے ۔ وہ مجھے بلا کر دو دن اسلام آباد ٹھیراتے ہیں۔ میں پرانے دوستوں، عزیزوں سے مل لیتا ہوں اگر اجلاس میں مَیں نے انتظامیہ کی مخالفت میں آپ کے اصولی موقف کو سہارا دیا تو تین سال بعد مجھے وہ دوبارہ بورڈ کا رکن نہیں بنائیں گے ”۔ میں منہ لٹکائے واپس آگیا (میدانِ محشر میں ان دونوں واقعات کو میں اسی طرح بیان کروں گا)۔

اب آپ کو سمجھ جانا چاہیے کہ سرکاری وسایل پر قایم شعیب سڈل کمیشن نے معمولی سی رپورٹ پر تین سال کیوں لگائے ؟ انتہائی بڑے سانحے ، سقوطِ مشرقی پاکستان کا سراغ لگانے والے حمودالرحمٰن کمیشن نے اتنی بڑی ذمہ داری محض دو سال دس ماہ سے کم عرصے میں دیانت داری سے پوری کر دی تھی۔ ادھر ہمارے ممدوح اور تعلیمی امور سے مطلقاً نابلد پولیس افسرنے اپنے ڈیڑھ پائو گوشت کی خاطر درجنوں ماہرین تعلیم کی دس سالہ پروردہ بھینس ذبح کردی۔ کیوں؟ کون چھپا بیٹھا ہے اس پردہ زنگارگوں کے پیچھے ؟شعیب سڈل ہوں یا دیگر بیوروکریٹ، ان دوواقعات کی روشنی میں آپ کو ان ریٹائرڈ لوگوں کا مخمصہ سمجھ جانا چاہیے ۔

اب تو صورتِ حال دل گرفتہ ہوچکی ہے ۔ دورانِ ملازمت ان کا لوگوں واسطہ بین الاقوامی اداروں اور این جی اوز سے رہتا ہے ۔ برطانوی نوآبادیاتی اختیارات سے یہ لوگ علیٰ حالہ لیس ہیں، احتساب نہ ہونے کے برابرہے ۔ بے پناہ غیرجمہوری اختیارات استعمال کرکے بعض نے صحافیوں کا پورا ریوڑ پال رکھا ہوتا ہے جو کالموں، اخباری تجزیوں، ٹی وی مذاکروں میں ان لوگوں کی دیانت داری، حب الوطنی اور اعلیٰ افلاطونی صلاحیتوں کا نقش معصوم عوام کے ذہنوں میں ڈالتے رہتے ہیں۔ ریٹائر ہوکر یہ لوگ نماز روزہ تو کرتے ہوں گے لیکن ساری زندگی نوآبادیاتی حکم چلانے کے علاوہ کوئی فن یا ہنر نہیں جانتے ۔لہذا مصروفیت کے و ہی بہانے تلاش کرتے رہتے ہیں جس کی دو مثالیں میں دے چکا ہوں۔ مصروف رکھنے کے اپنے اس فعل کو وہ ملک کی خدمت قراردیتے ہیں۔

بعض کالم نگاروں کا مخمصہ۔متفقہ نصاب تعلیم میں سے اسلام کے اخراج کی وکالت کرنے والے بیشتر کالم نویس بالعموم وہ لوگ ہیں جن کی گزربسر غیرملکی این جی اوز کے ‘ قشرالفوکہات’ پر ہے جو ہر موضوع پر لکھنے کی مہارت رکھتے ہیں۔ ان کے قارئین بھی جانتے ہیں کہ کس کا کس غیرملکی این جی اوسے کتنا تعلق ہے ؟ تعجب اس پرہے کہ چاروں صوبوں کے چوٹی کے درجنوں ماہرین تعلیم کو چیلنج کرے تو کوئی ماہر تعلیم اور وہ بھی کسی سلیقے سے لیکن وہ لوگ جنھوں نے کبھی کسی یونی ورسٹی سے سلیقے کی کوئی تعلیم حاصل نہیں کی، وہ بھی کالم نویسی کے ذریعے تعلیمی گمراہی پھیلارہے ہیں۔ روزنامہ دُنیا کے ایمبسڈر جاوید حفیظ صاحب نے البتہ بھولپن کے ساتھ لکھا۔ میرے استفسار پر بولے کہ نہ تو انھوں نے سپریم کورٹ کا فیصلہ پڑھا ،نہ اس فیصلے سے متعلق حقائق کا انھیں علم تھا۔حقائق کا علم ہونے پر وہ چپ سے ہو گئے ۔ ان کا کہناتھا کہ کسی انگریزی اخبار کی خبر پر انھوں نے بس کالم لکھ دیا۔ یوںآپ اندازہ کر سکتے کہ نسلوں کو بنانے بگاڑنے کا کام اخبار ات میں کس رواروی میں ہوتا ہے ۔ میں نے اُمید اور گزارش کی کہ حقائق کا علم ہونے پر وہ اگلے کسی کالم میں اس کی تفصیلی وضاحت کردیں گے ۔

تو پھر مسئلہ کیا ہے ؟مذہبی اقلیتوں کے جن لوگوں کا ذکر سپریم کورٹ کے ٢٠١٤ء کے فیصلے میں ہے ، ان میں سے بیشتر کسی اقلیتی برادری کے نمایندے نہیں تھے ، مثلاً اگر کوئی یہ کہے کہ ڈاکٹر رمیش کمار ونکوانی ہندو نشست پر مسلم لیگ اور اب تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی ہیں تو ایسے شخص کے بھولپن پر مسکراہٹ ہی بکھیری جاسکتی ہے ۔ کون نہیں جانتا کہ پرویز مشرف کی آئینی ترمیم کے بعد اقلیتی آبادیوں کی حقیقی نمایندگی خواب بن کر رہ گئی ہے ۔ سیاسی جماعتیں اپنے ساتھ قربت کی بنیاد پر ان لوگوں کو منتخب کرتی ہیں، اقلیتیں انھیں خود منتخب نہیں کرتیں۔ ان معصوم اقلیتوں کی حقیقی نمایندگی کسی اسمبلی میں نہیں ہے ۔ یہی حال سپریم کورٹ میں پیش دیگر لوگوں کا ہے جو ان کے محترم مذہبی نمایندے تو ہیں لیکن حقیقی زندگی میں اقلیتی آبادیوں کے نمایندے اور لوگ ہیں۔ کل سپریم کورٹ میں مسلمانوں کی نمایندگی مطلوب ہوئی تو کیا سپریم کورٹ مفتی عبدالقوی یا مولانا طاہر اشرفی کو بلانے میں حق بجانب ہوگی؟ کیا یہ لوگ مسلمانوں کے نمایندے قرار دیئے جاسکتے ہیں؟

قارئین کے سامنے اقلیتی کمیشن کے چیلارام کی رائے آچکی ہے ۔ ٣٠لاکھ دلت آبادی کے چوٹی کے دو نمایندوں کی رائے بھی دی جاچکی ہے ۔اعلیٰ ذات کے اعلیٰ ہندو عہدے دار کی رائے اور جسٹس رانا بھگوان داس کی مجموعی شخصیت بھی آپ کے سامنے ہے ۔ چیف جسٹس جیلانی نے جو فیصلہ سنایا تھا ،اس کا تجزیہ بھی آپ پڑھ چکے ہیں۔ مسئلہ چرچ پر حملے سے شروع ہوا جس میں دیگر اُمور شامل کرلیے گئے ۔ فیصلہ یہ ہوا تھا کہ نصاب سے نفرت انگیزمواد نکالا جائے ۔ لیکن اب سپریم کورٹ نے فیصلے کا رُخ صوبوں کے متفقہ

٢
نصاب ِ تعلیم کی طرف موڑ دیاہے ۔ حالانکہ نئے نصاب میں نہ صرف نفرت انگیز مواد نہیں ہے بلکہ پانچوں بڑی اقلیتوں کے لیے الگ نصابی کتب ہیں۔ یہ نصاب تو مسلمانوں کے لیے ہے جس سے اقلیتوں کو کوئی مسئلہ نہیں ہے تو پھر مسئلہ کیا ہے ؟

آگ سے کھیلنے کا عمل اورممکنہ بھیانک نتائج۔ ایک اعلیٰ افسر نے انکشاف کیا: ”موجودہ قضیے میں سپریم کورٹ کا نوٹس ملا تو ہم سٹپٹا کر رہ گئے ۔ ہمارے علم میں پہلی دفعہ آیا کہ ٢٠١٤ء میں کوئی فیصلہ ہوا تھا اور ٢٠١٨ء میں کوئی یک رکنی کمیشن بنا تھا۔ ”آپ پورا فیصلہ پڑھ لیں ،تعلیم کا کوئی نمایندہ عدالت میں نہیں تھا جو بتاتا کہ مسئلے کی نوعیت یوں نہیں، یوں ہے ۔لہذا یہ نتیجہ نکالنا غلط نہ ہوگا کہ اس یک طرفہ فیصلے پر سپریم کورٹ نے عمل درآمد کر نے کا کہا تو حکومتیں عمل کی پابند ہوں گی۔ نصاب سے اسلامی مواد نکال دیا جائے گااور ٩٦ فی صد مسلمانوں میں بے چارگی کا گہرا احساس ہوگا۔ سامنے سپریم کورٹ کے جج نہیں ہوں گے۔

جسٹس جیلانی کا فیصلہ تو جسٹس منیر کی طرح تاریخ کرے گی لیکن لوگ سمجھ لیں گے کہ ہندو ،مسیحی اور غیرملکی این جی او ملک کو سیکولر بنانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔بے چارگی کا احساس وقت کے ساتھ گہرا ہوتا چلا جائے گا۔ مقدمے کے نام نہاد مسلمان فریق ایک طرف رہیں گے اور مسلمانوں کے غیظ و غضب کارُخ اقلیتوں کی طرف ہوگا۔ ملک بارود کے ڈھیر پر کھڑا ہے ،موقع ملتے ہی کبھی گوجرہ جیسے واقعات تو کبھی ملتے جلتے دیگر واقعات وقوع پذیر ہوسکتے ہیں۔ڈالردینے والے ممالک اور ادارے اپنی پالتو این جی او، ان کے خوشہ چینوں اور دیگر چہیتے “ریاستی افراد ” کو گھیرگھار کر اس نقطے پر لے آئے ہیں جس کا نتیجہ رہی سہی، مذہبی ہم آہنگی کے انہدام کی شکل میں نکل سکتا ہے جسے کوئی سمجھ دار مسلمان ہرگز پسند نہیں کرتا۔ مذہبی اقلیتوں کے وہی شہری حقوق ہیں جو مسلمانوں کے ہیں۔ یہ ہم مسلمانوں کو اسی طرح عزیز ہیں جیسے اپنے دیگر مسلمان بھائی بند۔ کیا محترم جسٹس گلزاراحمد صاحب یہ نکتہ سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ معصوم اقلیتی آبادیوں کے جان ومال کو دائو پر لگانے کی تیاریاں مکمل ہیں (iqbal.malik888@gmail.com)

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر : میر افسر امان