روہنگیا قتل عام: امریکا نے “نسل کشی” قرار دینے سے کیوں گریز کیا؟

Rohingya Massacre

Rohingya Massacre

روہنگیا (اصل میڈیا ڈیسک) اطلاعات کے مطابق سابق امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے امریکی حکام کی طرف سے روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کو نسل کشی قرار دینے کی تجویز کو نظرانداز کردیا تھا۔

نیوز ایجنسی روئٹرز کی ایک خصوصی رپورٹ کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ کے آخری ہفتوں میں امریکی دفتر خارجہ کے اہلکاروں نے وزیر خارجہ کو مشورہ دیا تھا کہ وہ میانمار میں روہنگیا قتل عام روکوانے کے لیے اسے ‘نسل کشی‘ قرار دیں۔

تاہم انہوں نے اس تجویز کو نظرانداز کردیا ور یہ واضح نہیں کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا۔

روہنگیا مسلم اقلیت کو سن 2017 سے میانمار میں فوجی آپریشن کا سامنا ہے۔ امریکی وزارتِ خارجہ کی سفارشات میں میانمار کی فوج کے سینیئر جرنیلوں کوعدالتی عمل سے استثنیٰ دینے کی مخالفت کی گئی تھی۔ ان سفارشات میں مائیک پومپیو کو تجویز کیا گیا تھا کہ وہ اس مسلم اقلیت کے قتلِ عام کو ‘نسل کشی‘ قرار دیں تاکہ فوجی جرنیلوں پر دباؤ بڑھایا جا سکے۔

مگر ایسا نہیں ہوا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ٹرمپ حکومت کے جانے کے دو ہفتوں بعد میانمار کی فوجی قیادت نے جمہوری حکومت کو فارغ کر کے خود اقتدار پر قبضہ لیا۔

امریکی اہلکار مانتے ہیں کہ میانمار پر اب ان کا اثر و رسوخ محدود ہے اور فوج کی طرف سے اقتدار پر قبضہ بھی شاید اسی حقیقت کی عکاسی کرتا ہے۔

امریکی وزارت خارجہ کے شعبے ‘گلوبل کرمنل جسٹس‘ کے دفتر کے سربراہ مورزے ٹان روہنگیا قتل عام کو نسل کشی قرار دینے کے حق میں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ روہنگیا قتل عام کی پرزور مذمت نہ کرکے امریکا نے میانمار کے جرنیلوں پر دباؤ بڑھانے کا موقع ضائع کر دیا۔

میانمار کی فوج کا کہنا رہا ہے کہ روہنگیا کے خلاف آپریشن انسداد دہشت گردی کی کارروائی تھی۔

مورزے ٹان کا کہنا ہے کہ روہنگیا قتل عام کو نسل کشی نہ قرار دینے کی سابق وزیر خارجہ نے کوئی وجہ بیان نہیں کی۔ اس مناسبت سے جب روئٹرز نے مائیک پومپیو کے ترجمان سے رابطہ کیا تو انہوں نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ نیوز ایجنسی نے میانمار کی فوج کا موقف لینے کے لیے ان سے بھی رابطہ کیا لیکن انہوں نے بھی کوئی موقف دینے سے گریز کیا۔