روزے میں پوشیدہ حکمتیں

Ramadan

Ramadan

تحریر : الیاس محمد حسین

شاید آپ نے یہ غور کرنے کی رحمت ہی نہیں کی ہوگی کہ روزہ رکھنے میں کیا کیا حکمتیں پوشیدہ ہیںاورماہ ِ صیام کے دوران ہمارے جسم کا ردعمل کیا ہوتا ہے اس بارے کچھ دلچسپ معلومات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ روزہ انسان کے لئے کتنا مفیدہے پہلے ہی روزے بلڈ شگر لیول گرجاتا ہے یعنی خون سے چینی کے مضر اثرات کا درجہ کم ہوناشروع ہو جاتے ہیں جس سے دل کی دھڑکن سست ہو نا یقینی بات ہے اور خون کا دباؤ کم ہو جاتا یعنی بی پی گر جاتا ہے۔اعصاب جمع شدہ فالتو حراروں کو آزاد کر دیتے ہیں جس کی وجہ جسمانی کمزوری کا احساس اجاگر ہو جاتا ہے۔ زہریلے مادوں کی صفائی کے پہلے مرحلہ میں سر درد، چکر آنے کی شکایت ہو سکتی ہے۔ منہ کا بد بودار ہونا اور زبان پر مواد جمع ہوناشروع ہوجاتا ہے جس سے تھوک لیس دارہوجاتاہے جبکہ تیسرے سے دسویں روزے تک جسم کی چربی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتی ہے اور پہلے مرحلہ میں گلوکوز میں تبدیل ہو جاتی ہے۔

بعض لوگوں کی جلد ملائم اور چکنا ہو جاتی ہے۔جسم بھوک کا عادی ہونا شروع کرتا ہے اور اس طرح سال بھرکھا کھاکرموٹا ہونے اور معدے کی پرواہ نو کرنے کی وجہ مصروف رہنے والا نظام ہاضمہ کو کچھ سکون ملنے لگتاہے جس کی اسے اشد ضرورت تھی۔خون کے سفید جرسومے اور قوت مدافعت میں اضافہ شروع ہو جا تا ہے۔ ہو سکتا ہے روزے دار کے پھیپڑوں میں معمولی تکلیف ہو اس لئے کہ زہریلے مادوں کی صفائی کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ انتڑیوں اور کولہوں کی مرمت کا کام شروع ہو جاتا ہے۔ انتڑیوں کی دیواروں پر جمع مواد ڈھیلا ہو نا شروع ہو جاتا ہے۔پھر10ویں سے 20ویں روزے تک آپ جسمانی کمزوری کے باوجود پہلے سے توانا محسوس کرتے ہیں۔ دماغی طور پر چست اور ہلکا محسوس کرتے ہیں۔ہو سکتا ہے پرانی چوٹ اور زخم محسوس ہو نا شروع ہوں۔ اس لئے کہ اب خوداحساس ہوگا کہ آپ کا جسم اپنے دفاع کے لئے پہلے سے زیادہ فعال اور مضبوط ہو چکا ہے۔ جسم اپنے مردہ یا کینسر شدہ سیل کو کھانا شروع کر دیتا ہے جسے عمومی حالات میں معالج کیموتھراپی کے ساتھ مارنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے خلیات سے پرانی تکالیف اور درد کا احساس نسبتاً بڑھ جاتا ہے۔اعصاب اور ٹانگوں میں تناؤ اس عمل کا قدرتی نتیجہ ہوتا ہے۔ یہ قوت مدافعت کے جاری عمل کی نشانی ہے۔روزانہ نمک کے غرارے اعصابی اکڑاؤکا بہترین علاج ہے۔

21ویں سے 30ویں روزے تک انسانی جسم پوری طرح بھوک اور پیاس کو برداشت کا عادی ہو چکا ہے۔ آپ اپنے آپ کو چست۔ چاک و چو بند محسوس کرتے ہیں۔ان دنوں آپ کی زبان بالکل صاف اور سرخی مائل ہو جاتی ہے۔ سانس میں بھی تازگی آجاتی ہے۔ جسم کے سارے زہریلے مادوں کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ نظام ہاضمہ کی مرمت ہو چکی ہے۔ جسم سے فالتو چربی اور فاسد مادوں کا اخراج ہو چکا ہے۔بدن اپنی پوری طاقت کے ساتھ اپنے فرائض ادا کرنا شروع کر دیتا ہے۔ بیس روزوں کے بعد دماغ اور یاد داشت تیز ہو جاتی ہے۔ توجہ اور سوچ کو مرکوز کرنے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔ بلا شک بدن اور روح تیسرے عشرے کی برکات کو بھر پور انداز سے ادا کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔

یہ تو دنیا کا فائدہ رہا جو بے شک ہمارے خالق ہماری ہی بھلائی کے لئے ہم پر فرض کیا۔ مگر دیکھئے اس کی رحمت کا انداز کس قدر کریمانہ ہے کہ اس کے احکام ماننے سے دنیا کے ساتھ ساتھ ہماری آخرت بھی سنوارنے کا بہترین بندوبست کر دیا اور مسلمانوںکی روحانی تسکین کا بندوبست بھی ۔غذا کے بارے میں ایک طبی نکتہ یہ ہے کہ ہر غذا استعمال کے بعد نشاستوں میں تبدیل ہو کر بالآخر وہ شکر بن جاتی ہے۔ اس شکر (گلوکوز) سے فوری طور پر توانائی حاصل ہوتی ہے۔ ضرورت سے زائد نشاستے اور شکر چربی کی صورت میں عضلات میں اور گلائیکوجن کی صورت میں جگر میں ذخیرہ ہو جاتے ہیں۔ ہمدرد ِپاکستان شہید حکیم محمدسعید کی تحقیق کے مطابق جب انسان روزہ رکھتا ہے اور از سحر تا مغرب بھوکا پیاسا رہتا ہے تو نشاستے بدن میں کم ہو جاتے ہیں۔ اس صورت میں بدن از خود جگر سے گلائیکوجن لے کر توانائی کے لیے گلوکوز فراہم کرتا ہے۔ اسی طرح چربیلی بافتوں سے ذخیرہ شدہ چربی لے کر توانائی کی ضروریات پوری کی جاتی ہیں۔اس طرح اگر غور کیا جائے تو روزہ نظامِ ہضم میں نیز مرکزی عصبی نظام میں خوشگوار فعلیاتی سکون لاتا ہے اور استحالۂ غذا میں اعتدال پیدا کرتا ۔ شہید حکیم محمدسعید نے روزے پر سائنسی مطالعات کے حوالہ سے لکھاہے کہ یونی ورسٹی ہسپتال عمان (اردن) کے ڈاکٹر سلیمان کی رپورٹ کے مطابق اس میں 42 مرد اور 26 خواتین شامل تھیں۔

یہ سب کے سب صحت مند تھے۔ مردوں کی عمریں 15 سے 64 برس اور خواتین کی عمریں 16 سے 28 برس تھیں۔ ان کے وزن اور تمام اہم ٹیسٹ کر کے محفوظ کر لئے گئے۔ رمضان کے اختتام پر پھر ان کے وزن اور تمام اہم ٹیسٹ کیے گئے۔ مردوں کے وزن میں 6 سے 7 کلو اور خواتین کے وزن میں 4 سے 5 کلو کمی ہوئی۔ ٹیسٹوں میں کوئی ایسی تبدیلی نظر نہیں ا?ئی جو کسی خاص اہمیت کی حامل ہو۔ایک اور مطالعہ میڈیکل سائنسز یونی ورسٹی تہران میں ہوا۔ اس مطالعے میں ڈاکٹر ایف عزیزی اور ان کے رفقا ء شریک تھے۔

انہوں نے رمضان شروع ہونے سے پہلے اور دسویں،بیسویں اور آخری رمضان کو وزن اور تمام اہم ٹیسٹ لیے۔ان کے مطابق وزن اوسطاً 9 کلو کم ہوا۔ 17 گھنٹوں کے 29 روزوں میں تولیدی ہارمونوں، ہائپوتھلیمس، پٹیوٹری، تھائرائڈ نظام میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ان دو مطالعات سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ نظامِ جسمِ انسانی پر طبی لحاظ سے روزے کے کوئی مضر اثرات پیدا نہیں ہوتے، بلکہ وزن کی کمی اور چربی کے استحالے سے متعلق مفیدِ صحت اثرات پیدا ہوتے ہیں۔ روزے میں غذائیت کی کمی کا کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوتا، اس لیے کہ ماہ رمضان میں غذائوں پر کوئی پابندی نہیں ہوتی۔ نہ کوئی خاص غذا مقرر ہے۔ ہاں، روحِ روزہ تقلیلِ غذا کی دعوت دیتی ہے۔ اس لئے کہ تقلیلِ غذا عبادت کے لئے انسان کو تیار کرتی ہے۔

رمضان میں رات کو تراویح کی نماز عضلات اور جوڑوں کے لئے ہلکی ورزش کا درجہ رکھتی ہے۔ اس میں 200 کیلوریاں صرف ہوتی ہیں۔ انسان کے لیے روزے خود پر قابو پانے کا ایک ذریعہ ہیں۔ سگریٹ نوش اور وہ لوگ جو ہر وقت کچھ کھاتے رہتے ہیں ، اپنی عادت پر قابو پاسکتے ہیں۔ روزے سے اطمینان و سکون قلب ملتا ہے جو صحت کیلئے بہت ضروری ہے اسی لئے بلامبالغہ کہا جاسکتاہے اللہ تبارک تعالیٰ کے ہر حکم میں کوئی نہ کوئی حکمت ضرور پوشیدہ ہے۔

Ilyas Mohmmad Hussain

Ilyas Mohmmad Hussain

تحریر : الیاس محمد حسین