روس، یوکرائن تنازعہ پس منظر اور پیش منظر

Russia-Ukraine Conflict

Russia-Ukraine Conflict

تحریر: لقمان اسد

یوکرائن ایک ایسی ریاست ہے جو روس سے علیحدہ ہوئی جب یہ ریاست علیحدہ ہوئی تو ایک معاہدہ یوکرائن اور روس کے درمیان یہ طے پایا تھا کہ کہ وہ نیٹو کا رکن نہیں بنے گا یہی نہیں اس وقت 17فیصد روسی النسل یہاں آباد ہیں جبکہ 40فیصد وہ آبادی ہے جو روس کے ساتھ الحاق کی خواہاں رہی ہے لیکن وہاں موجود 17 فیصد روسی النسل آبادی سمیت روس کے لیے نرم گوشہ رکھنے والی اکثریت نے الیکشن 2014میں وکٹر ینوکووچ ، عوامی طاقت سے جیت گئے۔جیت کے بعد ان کا موقف تھا گو ہماری آزاد حیثیت ہے مگر روس ہی ایک ایسا ملک ہے بطور ہمسایہ جس کے ساتھ کھڑا ہونے میں ہی ہمارا مفاد ہے۔

ان کے ذہن سے سوویت یونین کا تصور نہ نکل سکاجس کے بکھرنے میں امریکہ کا کردار نمایاں تھاوکٹرینو کووچ صدر منتخب ہوئے انہوں نے روس کی حمایت حاصل کرنے کے لیے یورپی یونین سے منسلک ہونے کا معاہدہ مسترد کر دیا، یہ امر امریکہ کیلئے نہایت تکلیف دہ ہی نہیں بلکہ ناقابل برداشت تھا جس کے بعد امریکہ نے وہاں کے گروہوں کی وفاداریاں خرید کر بڑے پیمانے پر احتجاج شروع کرادیئے اور غیر آئینی طور پر وکٹرینو کووچ کو اقتدار سے علیحدہ کر دیا امریکہ اور یورپی یونین نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ محض ایک رات میں یوکرائن کے موجودہ صدر ولادی میر زیلنسکی جو کہ ایک کامیڈین تھا کو صدر بنا دیا جس شخص کا کوئی سیاسی پس منظر تک نہیں اسے ایک بڑے ملک کی کرسی صدارت پر عوامی رائے کو بائی پاس کرکے بٹھانا کہاں کی دانش ہے ۔

روس نے یہان بھی صبر سے کام لیا ۔۔ روس کو یورپ میں قابو کرنے کے لیے امریکہ نے ایک چال یہ چلی کہ نیٹو کے ساتھ مل کر لیتھیوانیا، پولینڈ اور رومانیہ میں فوج رکھ لی اور ہتھیار نصب کر دیے۔ ان تین ممالک کی سرحدیں یوکرین سے جڑی ہوئی ہیں۔ 2014 آنے تک یوکرین کی سرحد کے ساتھ صرف بیلاروس ایک ایسا ملک تھا، جس کے تعلقات روس کے ساتھ مثالی تھے۔ 2014 روس اور یوکرین تنازع کا عروج تھا۔

روسی صدر پیوٹن نیجب زچ ہوکر باقاعدہ یوکرین پر حملے کا اعلان کر دیاتو مغربی میڈیا نے تصویر کا صرف ایک رخ پیش کرنا شروع کردیا ۔ دنیا بھر کی وہ قوتیں جو مفادات کے تابع ہیں نے روس پر شدید تنقید کرتے ہوئے اسے مزید حملوں سے باز رہنے کی تنبیہ کی ۔جمعرات کی علی الصبح روسی صدر ولادیمیر پوتن کی یوکرین کے ڈونباس خطے میں ‘فوجی آپریشن’ شروع کرنے کے اعلان کے بعد یوکرین کے صدر نے ملک میں مارشل نافذ کرنے کا اعلان کیا اس سے قبل روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے مشرقی یوکرین میں باغیوں کے زیرِ کنٹرول دو خطوں کو بطور آزاد علاقے تسلیم کرنے کے بعد وہاں روسی دستے بھیجنے کا حکم دیا تھا۔ رواں ہفتے کے آغاز پر صدر پوتن نے یوکرین کے دو علاقوں لوہانسک اور ڈونیسک کو آزاد ریاستیں تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔جس پر امریکہ سیخ پا تھا مشرقی یوکرین کے ان علاقوں میں داخل ہونے والے روسی دستے ان ایک لاکھ نوے ہزار فوجیوں میں سے ہیں جو گذشتہ چند ماہ سے یوکرین کی سرحد پر جمع ہیں ۔ یوکرین کی سرحد پر جمع فوجیں، ٹینکوں، توپ خانوں، ہوائی جہازوں سے لیس ہیں اور انھیں بحریہ کی مدد بھی حاصل ہے۔

روسی صدرولادی میر پیوٹن کا آج بھی ماضی والا موقف ہے کہ مغربی ممالک سیکورٹی یقین دہانی کرانے اور یوکرین کو نیٹو کا حصہ بننے سے باز رکھنے میں ناکام ہوگئے ہیں امریکہ اور یورپی یونین کے پاس پرپیگنڈے کے سوا کوئی آپشن نہیں ہے۔ حالانکہ روس کسی قیمت پر بھی کارپتھی پہاڑوں کے مشرق میں قابل ذکر فوجی طاقت برداشت نہیں کر سکتا۔ جبکہ مغربی ممالک اس کوششمیں لگے رہے ہیں کہ وہاں نیٹو کے مضبوط اڈے قائم کر لیں۔امریکہ اور مغربی ممالک نے بیلا روس اور یوکرائن میں بھی فوجیں اتارنے کی کوشش کی۔ بیلا روس نے روس کی مکمل حمایت کی جبکہ یوکرائن میں امریکی ہاتھ ہونے سے روس کو اس ضمن میں ناکامی ہوئی اور یورپ کے تائید یافتہ لیڈر نے روس کیخلاف سازشیں شروع کردیں اوروس سے طے پانے والے معاہدے کے برعکس یوکرائن نے نیٹو میں شمولیت کی خواہش کا اعلان بھی کر دیا۔

1990 میں جرمنی کے اتحاد کے موقع پر یہ طے ہوا تھا کہ برلن اور مشرقی جرمنی میں جوہری ہتھیار اور غیر ملکی فوجی تعینات نہیں ہوں گے۔ اس وقت کی سرکاری دستاویزات میں یہ بات صاف لکھی موجود ہے کہ مشرقی یورپی ممالک کو نیٹو میں شمولیت کی دعوت نہیں دی جائے گی۔بطور معاہدہ ایسا لکھا ہے، تاہم یہ بات بہرحال طے ہوئی تھی۔ اس وقت سے روس کا مطالبہ ہے کہ نیٹو مشرق کی جانب پیش قدمی نہ کرے۔ روس نے اس کے مطابق مشرقی جرمنی اور پولینڈ وغیرہ سے اپنی افواج نکال لیں۔ لیکن 1992 میں وارسا پیکٹ ختم ہونے کے بعد کہا جانے لگا اب وہ معاہدے موثر نہیں کیونکہ دوسرا فریق اب موجود ہی نہیں۔

1997 میں نیا معاہدہ کیا گیا کہ نیٹو مشرق میں مزید ”قابل ذکر” افواج مستقل طور پر تعینات نہ کرے گی۔ یہ معاہدہ امریکہ اور جرمنی کی 1990 کی یقین دہانیوں کے مطابق تھا کہ نیٹو کا مشرق میں توسیع کا کوئی ارادہ نہیں۔ ۔۔ ایک طرف تو معاہدہ نافذ نہیں کیا گیا دوسری طرف 2004 میں بالٹک ممالک کو نیٹو میں شامل کر لیا گیا اور وہاں نیٹو افواج بھی تعینات کر دی گئیں۔

اس کے بعد سوال پیدا ہوا کہ 2007 میں جو مزید ”قابل ذکر مستقل جنگجو فوجی” تعینات نہ کرنے کا معاہدہ ہوا تھا، جس کی توثیق امریکہ نے نہیں کی، تو اس اس سے کیا مراد ہے؟ امریکہ نے روس کے ساتھ مل کر یہ بات طے کرنے سے انکار کر دیا۔ اور ساتھ ہی یک طرفہ طور پر اپنے نیٹو حلیفوں سے بھی بات کیے بغیر ہی بحر اسود میں بحری جنگی جہاز متعین کر دیے۔ علاوہ ازیں امریکہ نے رومانیہ میں فوجی متعین کر کے کہا کہ وہ ”قابل ذکر اور مستقل” نہیں۔ اسی طرح امریکہ نے نیٹو سے ماوراء ہی یہ اعلان بھی کر دیا کہ پولینڈ اور چیک رپبلک میں ”ایرانی میزائل خطرہ” کے پیش نظر میزائل شکن نظام نصب کیا جائے گا۔ جو کہ اب نصب ہو چکا ہے درحقیقت یہ روس کے خلاف ہی استعمال ہو گا۔

اب روس یوکرائن میں بعض اڈوں پر مستقلاً اپنی فوجیں تعینات کرے گا۔ روس جارجیا کے بعد یوکرائن کو مثال بنا کر مشرقی یورپی ممالک پر واضح کرنا چاہتا ہے کہ وہ نیٹو پر بھروسا نہیں کرسکتا ۔ اس لئے ان کا مفاد اس میں ہے کہ روسی تحفظات کا خیال رکھیں۔اس مسئلہ کا پر امن حل اس طرز کی مفاہمت میں ہے کہ یوکرائن مغرب کی اجارہ داری سے پیچھے ہٹ جائے مگر اس بات کابھی ہمیشہ خیال رکھے کہ روسی مفادات پر کوئی ضرب نہ پڑے۔ نہ تو اپنے ہاں مغربی افواج کو جگہ دے، نہ روس کی تجارت کو متاثر کرے، نہ ہی یوکرائن روسی آبادی پر کوئی سختی کرے ۔

Luqman Asad

Luqman Asad

تحریر: لقمان اسد