روس یوکرین جنگ، مزید کیا کچھ ہوا ہے؟

Russia Ukraine War

Russia Ukraine War

یوکرین (اصل میڈیا ڈیسک) روس نے جنگ کے گیارہویں روز بھی حملوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ اتوار کو یوکرینی مہاجرین کی تعداد تقریبا پندرہ لاکھ تک پہنچ جائے گی۔ صدر پوٹن نے کہا ہے کہ مغربی پابندیاں اعلان جنگ کے مترادف ہیں۔

مقامی میڈیا کے مطابق ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب یوکرین کے دوسرے بڑے شہر خارکییف میں دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں۔ یوکرینی فورسز کا کہنا ہے کہ انہوں نے متعدد شہروں میں گزشتہ شب دفاعی کارروائیاں کی ہیں۔ یوکرین کے عسکری حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے ابھی تک 88 روسی طیارے مار گرائے ہیں لیکن آزاد ذرائع سے ان دعوؤں کی تصدیق کرنا ناممکن ہے۔ روس کی جناب سے ابھی تک ان دعوؤں کے بارے میں کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔

برطانوی ملٹری انٹیلی جنس کا کہنا ہے کہ روسی افواج یوکرین میں زیادہ آبادی والے علاقوں کو نشانہ بنا رہی ہیں لیکن یوکرین کی جانب سے شدید مزاحمت روس کی پیش قدمی کو سست بنا رہی ہے۔ برطانوی ملٹری انٹیلی جنس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ یوکرین مزاحمت کی وسعت اور قوت روس کو مسلسل حیران کر رہی ہے اور روس جواباﹰ خارکیف اور ماریوپول میں زیادہ آبادی واے علاقوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔

برطانوی فوجی انٹیلی جنس کی جانب سے کہا گیا کہ روس نے انیس سو ننانوے میں چیچنیا میں اور سن دو ہزار سولہ میں شام میں یہی طریقہء کار اپنایا تھا۔ تاہم روس بار ہا کہہ چکا ہے کہ وہ عام شہریوں کو نشانہ نہیں بنا رہا۔
یوکرین کے لیے لڑاکا طیاروں کا مطالبہ

یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے امریکی قانون سازوں پر زور دیا ہے کہ وہ ان کے ملک پر نو فلائی زون کی حمایت کریں یا یوکرین کو مزید طیارے فراہم کریں۔ امریکہ کے مطابق وہ اپنے یورپی اتحادی پولینڈ کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے تاکہ یوکرین کو لڑاکا طیارے فراہم کیے جا سکے۔ زیلنسکی نے طیاروں، ڈرونز اور طیارہ شکن میزائلوں سمیت مزید فوجی امداد کی درخواست بھی کی ہے۔ دوسری جانب نیٹو نے زیلنسکی کی اپنے ملک پر نو فلائی زون نافذ کرنے کی اپیل کی مزاحمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے تنازعہ بڑھے گا۔

امریکی کانگریس یوکرین کو ہنگامی فوجی اور انسانی امداد کی مد میں دس ارب ڈالر فراہم کرنے پر متفق ہے۔ زیلنسکی نے روس کے خلاف پابندیاں عائد کرنے پر امریکی حکومت کا شکریہ ادا کیا لیکن ساتھ ہی یہ مطالبہ بھی کیا کہ ماسکو کی تیل کی برآمدات پر بھی پابندی عائد کی جائے۔
اسرائیلی وزیراعظم کی شٹل ڈپلومیسی

اسرائیلی وزیراعظم بینٹ نے روس کا ایک اچانک دورہ کیا ہے تاکہ صدر پوٹن سے براہ راست ملاقات ہو سکے۔ روسی حملے کے بعد یہ کسی عالمی لیڈر کا پہلا دورہ روس ہے۔ اسرائیل یوکرین کا حامی ہے لیکن اس کے روس کے ساتھ بھی تعلقات ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم نے قبل ازیں یوکرینی صدر سے بھی بات چیت کی تھی۔ اسرائیلی وزیراعظم امریکہ، جرمنی اور فرانس کی مدد سے روس اور یوکرین کے مابین ثالثی کا کردار ادا کرنا چاہ رہے ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم نے صدر پوٹن سے ملاقات کے بعد جرمن چانسلر سے بھی بات چیت کی ہے۔

صدر پوٹن اتوار کو ہی ترک صدر رجب طیب ایردوآن سے بھی ملاقات کر رہے ہیں۔ ترکی نیٹو کا رکن ملک ہے اور اس کی سمندری سرحدیں روس اور یوکرائن دونوں کے ساتھ لگتی ہیں۔ ترکی بھی نیٹو کا رکن ہونے کی وجہ سے روسی حملے کی مذمت کر چکا ہے لیکن ساتھ ہی امن مذاکرات پر بھی زور دے رہا ہے۔
امن مذاکرات کا تیسرا دور

یوکرینی اور روسی حکام پیر کو امن مذاکرات کے تیسرے دور کے لیے متفق ہو گئے ہیں۔ جمعرات کو فریقین نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر راہداری کھولنے پر اتفاق کیا تا کہ شہریوں کو کچھ جنگی علاقوں سے نکلنے کی اجازت دی جا سکے۔ تاہم ماریوپول اور وولونواخا سے شہریوں کے انخلاء کا منصوبہ کامیاب نہیں ہو سکا تھا۔ دونوں فریقین نے ایک دوسرے پر جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کا الزام لگایا۔ تاہم ماریوپول سے عام شہریوں کا انخلاء جنگ بندی کے وقفے کے دوران آج کیا جائے۔

دوسری جانب اتوار کو یوکرین چھوڑنے والے پناہ گزینوں کی تعداد 1.5 ملین تک پہنچنے کی توقع ہے۔ یوکرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ امن مذاکرات کے پہلے دو راؤنڈز سے مثبت نتائج سامنے نہیں آئے لیکن وہ مذاکرات کو جاری رکھے گا۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا ہے کہ صدر زیلنسکی کی نیٹو سے مدد کی درخواستیں مذاکرات میں مددگار نہیں ہیں لیکن لاوروف کا بھی کہنا تھا کہ ماسکو تیسرے دور کے لیے تیار ہے۔