سعودی عرب کے جدید بیلسٹک میزائل پروگرام پر ایران کو تشویش

Ballistic Missile

Ballistic Missile

سعودی عرب (جیوڈیسک) روایتی اور غیر روایتی اسلحہ سازی کے میدان میں سعودی عرب کی خود کفیل ہونے کی کوششوں کے جلو میں عالمی ذرائع ابلاغ نے سعودی عرب کے بیلسٹک میزائل پروگرام پرروشنی ڈالی ہے۔

جریدہ ‘انٹرنیشنل پالیسی ڈائجسٹ’ کی طرف سے شائع کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب نے چین کے براہ راست تعاون سے اپنے ملک میں بیلسٹک میزائلوں کی تیاری اور انہیں اپ گریڈ کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ اخبار نے استفسار کیا ہے کہ آیا سعودی عرب نے اس نوعیت کی اسلحہ سازی کی تنصیبات کے قیام میں تکنیکی طورپر کیسےمہارت حاصل کی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب اپنے میزائل پروگرام کو صرف دفاعی مقاصد کے لیے تیار کررہا ہے جس کا مقصد ایران کی طرف سے سعودی عرب کی سلامتی کو لاحق خطرات کا تدارک کرنا ہے۔ ایران یمن کے حوثی باغیوں کے ذریعے سعودی عرب پر بیلسٹک میزائلوں کے ذریعے حملے کرارہا ہے۔ سعودی عرب دیگر دنیا کے ممالک کی طرح بلا وجہ اسلحہ کے انبار نہیں لگا رہا ہے بیلسٹک میزائل ریاض کے دفاع اور سلامتی کی ضرورت بن چکا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب کی طرف سے چین کی مدد سے بیلسٹک میزائل پروگرام پرکام کا ایک دوسرا سبب بھی ہے۔ مغربی اتحادیوں کے ساتھ تعلقات کم ہونے کے باعث ریاض کواپنے تزویراتی اتحادیوں کا دائرہ وسیع کرنا پڑا ہے۔

امریکی انٹیلی جنس کے مطابق سعودی عرب چین کی مدد سے اپنے بیلسٹک میزائل پروگرام کو اپ گریڈ کررہا ہےحالانکہ امریکا مشرق وسطیٰ میں میزائلوں کی تیاری اور ان کے پھیلائو کو روکنے کے لیے کوشاں ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کانگریس میں سعودی عرب کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے حوالے سے کسی قسم کی وضاحت نہیں کی۔ حالانہ گذشتہ نومبر میں سیٹلائٹ کی مدد سے لی گئی تصاویر میں سعودی عرب کے ایک خفیہ میزائل پلانٹ کا انکشاف کیا گیا تھا۔ یہ پلانٹ دارالحکومت الریاض سے مغرب میں 230 کلو میٹر کی مسافت پر الدوادمی کے مقام پرواقع ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور فوجی اڈہ بھی ایسا موجود ہے جہاں بیلسٹک میزائلوں کےتجربات کیے جاتے ہیں۔

تاہم یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ آیا سعودی عرب نے یہ ٹیکنالوجی کہاں اور کیسے حاصل کی۔ رپورٹس سے پتا چلتا ہے کہ سعودی عرب نے اپنے بیلسٹک میزائل پروگرام کے لیے چین سے مدد لی ہے۔ سعودی عرب خفیہ اسلحہ پلانٹ کے الزامات کو مسترد کرتا آ رہا ہے۔

سنہ 2015ء کو سعودی عرب نے پہلے جوہری توانائی کی تیاری کا اظہار کیا مگر سعودی عرب میں ابھی تک کوئی جوہری پلانٹ نہیں۔ سعودی عرب نے آئندہ 20 سال میں 16جوہری ری ایکٹر تعمیر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس حوالے سے سنہ 2015ء کو سعودی عرب اور روس کے درمیان ایک معاہدے پر دستخط ہوچکے ہیں۔ روسی کمپنی ‘روساٹم’ نے مملکت میں 16 جوہری پلانٹ تعمیر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس منصوبے پر ایک کھرب ڈالر کےاخراجات کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔

سعودیع رب اپنے میزائل پروگرام کو اپنی سلامتی اور دفاع کے لیے فروغ دے رہا ہے۔ سعودی عرب کی سلامتی کو ایران کی طرف سے خطرات لاحق ہیں اور ایران ایک عرصے سے جوہری ہتھیاروں کےحصول میں سرگرم ہے۔ مگر سعودی عرب کے بیلسٹک میزائل پروگرام کو ایران تشویش کی نظر سے دیکھتا ہے۔ سنہ 1987ء کو امریکا نے سعودی عرب کو اسلحہ کی سپلائی پرپابندی عاید کردی تھی جس کے بعد مملکت کو چین کی مدد لینا پڑی۔

حالیہ چند برسوں کے دوران سعودی عرب نے اسلحہ سازی کے میدان میں خود کفیل ہونے کی موثر کوششیں کی ہیں۔ سنہ 2010ء کو سعودی عرب میں میزائل ڈیفنس کا باقاعدہ شعبہ قائم کیا گیا۔ اس اقدام کا مقصد ایران کو یہ پیغام دینا تھا کہ ریاض اپنے دفاعی اور سلامتی کے تقاضوں سے غافل نہیں۔ جب یمن میں حوثی ملیشیا نے مسلح بغاوت برپا کی تو ایران نے حوثیوں کو سعودی عرب کے خلاف جارحیت کے لیے بیلسٹک میزائلوں سمیت ہرطرح کا اسلحہ فراہم کیا۔ اس کے بعد مملکت کے لیے بیلسٹک میزائلوں کےحصول کی کوشش زیادہ ناگزیر ہوگئی۔

سعودی عرب کے بیلسٹک میزائل پروگرام میں چین سے مدد لینے کی وجہ مغربی اتحادیوں کے ساتھ تعلقات میں کمی ہے۔ سعودی عرب اپنے مغربی اتحادیوں کی طرف سے دفاعی ضروریات کے حوالے سے مایوسی کے نتیجے میں چین، روس اور پاکستان جیسے نئے تزویراتی اتحادیوں کی تلاش پرمجبور ہوا ہے۔