سعودی عرب میں 4,500 سال پہلے یہ پراسرار مقبرے کس نے بنائے تھے؟

Tombs

Tombs

الریاض (اصل میڈیا ڈیسک) آسٹریلوی ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے سعودی عرب میں ہزاروں میل رقبے پر پھیلے ہوئے مقبروں کی باقیات دریافت کی ہیں۔

یہ مقبرے 4,500 سال قدیم ہیں اور مدینہ منورہ کے شمال میں خیبر سے لے کر ’شرواق‘ سے بھی آگے تک، کسی زنجیر کی کڑیوں کی طرح پھیلے ہوئے ہیں۔

اگرچہ مقامی عرب باشندے ان مقبروں سے گزشتہ ہزاروں سال سے واقف ہیں لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ جب ان پر آثارِ قدیمہ کے نقطہ نگاہ سے تفصیلی تحقیق کی گئی ہے جس کی سربراہی یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا، پرتھ کے ڈاکٹر میتھیو ڈٓالٹن کررہے تھے۔

ریسرچ جرنل ’ہیلوسین‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق، اس تحقیق کےلیے مصنوعی سیارچوں اور ہیلی کاپٹروں سے لی گئی تصاویر کے علاوہ زمینی سروے بھی کیے گئے۔

مجموعی طور پر اس دوران 18,000 مقبروں کا مشاہدہ کیا گیا جبکہ ان میں سے 80 مقبروں کی کھدائی بھی کی گئی۔

قدیم مقبروں کی یہ باقیات نہ صرف تعداد میں بہت زیادہ ہیں بلکہ ایک خاص ترتیب میں بھی تعمیر کی گئی ہیں جو بہت بڑے آویزوں (زنجیر والے لاکٹ) کی طرح محسوس ہوتی ہیں۔

بعض مقبروں میں صرف ایک جبکہ بعض میں زیادہ افراد کو دفنایا گیا تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مقامی طور پر اہم شخصیات کے علاوہ عام لوگوں کو بھی مقبروں میں اجتماعی طور پر دفن کیا جاتا تھا۔

البتہ، ان مقبروں کی ترتیب اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز ہے کیونکہ بعض مقامات پر کم تعداد میں مقبرے ہیں جبکہ کچھ اور جگہوں پر مقبروں کی تعداد زیادہ بھی ہے اور وہ جسامت میں بھی قدرے بڑے ہیں۔

اسی ترتیب کو مدنظر رکھتے ہوئے ماہرین کا خیال ہے کہ مستقل نخلستانوں اور بڑے کنووں والے علاقوں کے گرد زیادہ مقبرے بنائے گئے تھے جبکہ کم آبی وسائل (چھوٹے نخلستانوں اور کنووں) والے مقامات کے آس پاس مقبرے کم تھے۔

یہ مقبرے آج پتھروں کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکے ہیں، تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ ہزاروں سال قبل یہ مقبرے گنبد جیسی شکلوں میں تعمیر کیے گئے ہوں گے۔

’’قدیم سعودی عرب کے باشندے ہمارے سابقہ اندازوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ مہذب اور سماج دوست تھے،‘‘ ڈاکٹر ڈالٹن نے کہا۔

اس کے علاوہ، ہزاروں میل پر پھیلے ہوئے ان مقبروں میں زنجیر کی کڑیوں جیسی ترتیب ان آبی ذخائر سے بھی قریب ہے جو قدیم جزیرہ نما عرب میں ایک تسلسل سے واقع تھے اور وہاں رہنے والوں کےلیے خصوصی اہمیت بھی رکھتے تھے۔

ان سے کچھ ہی فاصلے پر وہ راستے بھی تھے جنہیں مقامی لوگ ایک سے دوسرے علاقے تک سفر میں استعمال کیا کرتے تھے۔

ان علاقوں سے ملنے والی قدیم انسانی ہڈیوں اور جانوروں کی باقیات سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ایسے مقامات کے آس پاس چراگاہیں بھی رہی ہوں گی جہاں مقامی لوگ اپنے مال مویشی چرانے کےلیے جاتے ہوں گے۔

اس سب کے باوجود، اب تک یہ واضح نہیں ہوسکا کہ آخر یہ مقبرے مذہبی رسوم و رواج کا حصہ تھے یا پھر انہیں علامتی طور پر اتنی زیادہ تعداد میں تعمیر کیا گیا تھا۔

بتاتے چلیں کہ سعودی عرب کی قدیم تاریخ کے بارے میں ہم اب تک بہت کم جانتے ہیں اور یہ دریافتیں اس حوالے سے خصوصی اہمیت رکھتی ہیں۔