سیکسنی انہالٹ میں الیکشن: میرکل کی پارٹی کی فتح جو ضروری تھی

German Elections

German Elections

جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) مشرقی جرمن صوبے سیکسنی انہالٹ میں اتوار چھ جون کو ہونے والے الیکشن اس سال عام انتخابات سے قبل آخری علاقائی الیکشن تھے۔ اس الیکشن میں حیران کن فتح چانسلر میرکل کی پارٹی سی ڈی یو کو ملی، جس کی اس جماعت کو بڑی ضرورت تھی۔

جرمنی میں اس سال موسم خزاں میں ہونے والے قومی انتخابات سے قبل چانسلر انگیلا میرکل کی قدامت پسند جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین اپنے لیے سیکسنی کے صوبائی الیکشن کے بہت خوش کن نتائج سے زیادہ بہتر کسی انتخابی لانچنگ پیڈ کی خواہش تو کر ہی نہیں سکتی تھی۔

گزشتہ چند دنوں کے دوران رائے عامہ کے جائزے بتا رہے تھے کہ سیکسنی انہالٹ میں سی ڈی یو کا انتہائی دائیں بازو کی اسلام اور تارکین وطن کی مخالفت کرنے والے پارٹی اے ایف ڈی یا ‘متبادل برائے جرمنی‘ کے ساتھ سخت مقابلہ تھا۔ لیکن عین رائے دہی کے دن کرسچن ڈیموکریٹک یونین کے لیے عوامی حمایت سولہ فیصد زیادہ ہو گئی۔

یہ صوبائی الیکشن جرمنی میں اگلے عام انتخابات سے پہلے آخری صوبائی الیکشن تھے اور ان کے سرکاری نتائج کے مطابق میرکل کی پارٹی سی ڈی یو کو 37.1 فیصد ووٹ ملے۔ اس کے مقابلے میں انتہائی دائیں باز وکی اے ایف ڈی کو 20.8 فیصد عوامی حمایت حاصل ہوئی۔ کرسچن ڈیموکریٹک یونین کے لیے بہت حوصلہ افز بات یہ ہے کہ اس مرتبہ اس ریاست میں اسے 2016ء کے صوبائی الیکشن کے مقابلے میں سات فیصد زیادہ ووٹ ملے۔

جرمنی میں تانبے کے 66 مجسموں کی ایک سیریز تخلیق کی گئی، یہ نازی سیلیوٹ کا انداز بھی اپنائے ہوئے ہیں، یہ جرمنی میں ممنوع ہے۔ مجسمہ ساز رائنر اوپولکا کے بقول یہ تخلیق نسل پرستی کے خطرے کی علامت ہے۔ تاہم انتہائی دائیں بازو کے نظریات کے ہمدرد خود کو بھیڑیے سے تشبیہ دینے لگے ہیں۔ مہاجرت مخالف AFD کے رہنما ہوئکے نے کہا ہے کہ ہٹلر کے پراپیگنڈا وزیر گوئبلز نے 1928ء میں بھیڑیے کی اصطلاح استعمال کی تھی۔

اس کے برعکس اے ایف ڈی کی عوامی حمایت میں 2016ء کے مقابلے میں تین فیصد کی کمی ہوئی۔ اس مرتبہ ملنے والے تقریباﹰ 21 فیصد ووٹ اے ایف ڈی کے لیے اس وجہ سے ناامیدی کا سبب بنے ہیں کہ یہ جماعت تو خود کو اپنی حد تک صوبائی دارالحکومت ماگڈے بُرگ میں نئی حکومت میں شامل جماعت کے طور پر بھی دیکھ رہی تھی۔

سیکسنی انہالٹ میں کل ہونے والے الیکشن کے نتائج ملک کی کئی دیگر بڑی سیاسی جماعتوں کے لیے ان کی توقعات سے کم رہے۔ مثلاﹰ بائیں بازو کی سیاسی جماعت ‘دی لِنکے‘ کو 11 فیصد، سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ایس پی ڈی کو 8.4 فیصد، فری ڈیموکریٹس کی جماعت ایف ڈی پی کو 6.4 فیصد اور ماحول پسندوں کی گرین پارٹی کو 5.9 فیصد ووٹ ملے۔ اس طرح نئی صوبائی پارلیمان میں چھ سیاسی جماعتوں کو نمائندگی حاصل ہو گی۔

ماگڈے بُرگ میں صوبائی حکومت کے سربراہ اب تک چانسلر انگیلا میرکل کی پارٹی کے رائنر ہازےلوف چلے آ رہے ہیں۔ اب اگلے سربراہ حکومت بھی وہی ہوں گے اور انہیں دیکھنا یہ ہو گا کہ وہ کن اعتدال پسند جماعتوں کے ساتھ مل کر دوبارہ ایک مخلوط حکومت بنا سکتے ہیں۔

انگیلا میرکل ہیلموٹ کوہل کے بعد پہلی مرتبہ کرسچن ڈیموکریٹک یونین کی نگران سربراہ بنی تھیں۔ انہیں اس سیاسی پارٹی کی قیادت کو اب تقریبا سترہ برس ہو چکے ہیں جبکہ انہوں نے سن دو ہزار پانچ میں پہلی مرتبہ جرمن چانسلر کا عہدہ سنبھالا تھا۔

یہ بھی ممکن ہے کہ صوبے میں نئی حکومت اب تک اقتدار میں رہنے والی تین جماعتی مخلوط حکومت کا تسلسل ہی ہو۔ یہ تین جماعتیں کرسچن ڈیموکریٹک یونین، سوشل ڈیموکریٹک پارٹی اور گرین پارٹی ہیں۔

اس الیکشن کے نتائج نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ جرمنی اور خاص کر ملک کے مشرقی صوبوں میں انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت اے ایف ڈی کے لیے کافی حمایت تو موجود ہے، مگر ساتھ ہی عوامی سطح پر یہ واضح خوف بھی پایا جاتا ہے کہ کہیں یہ جماعت اقتدار میں نہ آ جائے۔

کئی ماہرین کے مطابق یہ پہلو بھی ان عوامل میں شامل ہے، جن کے سبب ممکنہ طور پر اے ایف ڈی کو اپنا ووٹ دینے والے بہت سے ووٹروں نے آخری وقت پر کرسچن ڈیموکریٹک یونین کی حمایت کا فیصلہ کیا۔

کئی سیاسی ماہرین سیکسنی انہالٹ کے انتخابی نتائج کو ملکی سطح پر کرسچن ڈیموکریٹک یونین کے لیے نئی توانائی اور خود اعتمادی کا سبب قرار دے رہے ہیں۔ اگلے عام الیکشن میں سی ڈی یو کی طرف سے چانسلر کے عہدے کے لیے امیدوار آرمین لاشیٹ ہوں گے، جو ملک کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے وزیر اعلیٰ ہیں۔

سی ڈی یو کے لیے یہ بات بھی قابل غور ہو گی کہ سیکسنی انہالٹ میں ہی کل اتوار کے روز جو عوامی سروے کرایا گیا، اس میں صرف 18 فیصد رائے دہندگان نے یہ کہا کہ لاشیٹ ایک کامیاب چانسلر ثابت ہوں گے۔

مستقبل کے ممکنہ کامیاب چانسلر کے طور پر عوامی توقعات سے متعلق اس صوبائی سروے میں سی ڈی یو کے آرمین لاشیٹ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ایس پی ڈی اور ماحول پسندوں کی گرین پارٹی کے نامزد کردہ چانسلرشپ کے امیدواروں کے مقابلے میں پیچھے رہے۔