دھرنا ۔۔۔ درمیانی راستوں کی تلاش

Maulana Fazlur Rehman

Maulana Fazlur Rehman

تحریر : رقیہ غزل

پرانے وقتوں کے بادشاہوں نے سزائوں کے لیے ایسے ایسے طور طریقے استعمال کئے کہ جنھیں پڑھ اور نیا جان کر آج بھی دنیا حیران ہو جاتی ہے اور ان سزائوں کی سنگینی پر سخت پریشانی کا اظہار کرتی ہے ۔اُن عبرت ناک سزائوں سے جہاں خلقِ خدا کا بہت نقصان ہوا وہاں ایسے شاہوں کے نام بھی ان کی سفاکی کی بدولت صفحہ ہستی سے مٹ گئے ۔ سیکھنے والوں کے لیے ناقابل فراموش مثالیں بھی قائم ہوئیں ۔پرانے وقتوں میں ایسا ہی ایک بادشاہ تھا جس نے مجرموں کو سزائیں دینے کے لیے دس جنگلی کتے پالے ہوئے تھے ،جو بھی غلطی کرتا وہ اسے ان خونخوار کتوںکے آگے پھینک دیتا اور وہ اس کی تکہ بوٹی کر دیتے ۔۔بادشاہ کا وزیر جو کہ اس جرم میں برابر کا شریک تھا وہ اس عمل کی تعریف کرتا اور بادشاہ کا حوصلہ بڑھاتا تھا۔

بد قسمتی سے ایک دن اسی وزیر سے ایسی غلط ہوگئی جوکہ قابل سزا ٹھہری ۔۔اب بادشاہ جلالی کیفیت میں تھا اور وزیر کو کتوں کے آگے ڈالنے کاحکم جاری کر دیا ۔ وزیر بادشاہ کے قدموں میں گر گیا اور منت سماجت کرنے لگا مگر بادشاہ کا حکم اٹل تھا سو وزیر کو ایک ترکیب سوجھی اور اس نے بادشاہ سے کہا کہ” میں برسوں سے آپ کا خدمت گزار ہوں، مجھے دس دن کی مہلت دے دیں اس کے بعد بے شک مجھے کتوں کے آگے ڈال دیجئے گا ۔” بادشاہ مہلت دینے پر راضی ہو گیا ۔اب وزیر سیدھا کتوں کے رکھوالے کے پاس گیا اور کہا کہ مجھے دس دن ان کتوں کے ساتھ رہنا ہے اور یوں وزیر نے دس دن کتوں کے سارے کام خود کئے اوراس کام کے لیے دن رات ایک کر دئیے ۔۔دس دن بعد جب وزیر کو کتوں کے آگے ڈالا گیا تو سب حیران رہ گئے کہ جو کتے تکہ بوٹی کر دیا کرتے تھے وہ وزیر کے پائوں چاٹ رہے تھے ۔۔بادشاہ نے وزیر سے پوچھا کہ آج ان کتوں کو کیا ہوا ہے ؟ وزیر نے کہا : بادشاہ سلامت ! ”میں آپ کو یہی بتانا چاہتا تھا کہ میں نے ان جانوروں کی دس دن خدمت کی تو انھوں نے مجھ پر حملہ نہیں کیا اور آپ کی برسوں سے خدمت کر رہا ہوں اور آپ نے انسان ہونے کے باوجود میرے احسانوں کو بھلا دیا ۔۔”بادشاہ کو شدید غصہ آیا اور وزیر کو مگر مچھوں سے بھرے تالاب میں پھینکوا دیا تو طے ہوا کہ بادشاہوں کے فیصلے ایسے حتمی ہوتے ہیں کہ جہاں حکمت عملیاں بھی کام نہیں آتیں حالانکہ جو من مرضیوں سے باز نہیں آتے وہ پچھتاتے ہیں۔۔سیاسی میدان کے شعبدہ بازوں کی من مانیاں اور عوام الناس کو ملنے والی ایذا رسانیاں کو دیکھ کر مجھے یہ واقعہ یاد آگیا ۔۔

جب سے مولانا فضل الرحمن نے آزادی مارچ کا اعلان کیا ہے تب سے سیاسی میدان کی گہما گہمی دیکھنے لائق ہے ۔ جو اندر ہیں ان کے سلگتے بیانات اور جو باہر ہیں ان کے حسرت و یاس میں ڈوبے متضاد اعلانات نے عوام الناس میں کھلبلی مچا رکھی ہے ۔ایک طرف مولانا لوگ ہیں اور دوسری طرف کپتان کا لنگر خانہ ہے ۔ عوام پریشان ہیں کہ کیا ان کے نصیب میں صرف غربت و افلاس ،بے بسی اور مہنگائی رہ گئی ہے ؟ اپوزیشن سیاسی جماعتیں گو مگو کی کیفیت میں ہیں کیونکہ انھیں خدشہ ہے کہ مولانا کو بہر طور گرفتار کر لیا جائے گا لہذا اگر وہ ساتھ کھڑے ہو گئے تو واپسی کا راستہ نہیں ملے گا مگر اس سے بھی انکار نہیں کہ مولانا مذہبی لاٹھی بردار جہادی جماعت کے سربراہ ہیں اور انھیں ڈنڈوں اور گولیوں سے دھمکایا نہیں جا سکتا تو یقینا ایک خوفناک تصادم کے آثارتو دکھائی دے رہے ہیں ۔خاص طور پر مولانا صرف ڈٹ کر نہیں کھڑے ہیں بلکہ وہ بھی ”میں آئوں ” اور ”میں نہ مانوں ” کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں ۔ ایسے میں حکومتی ایوانوں کی بوکھلاہٹ سمجھ سے بالاتر ہے کہ دھرنے سے پہلے ہی احتیاطی تدابیر کے طور پر مارچ رکوانے کے لیے عدالت کو درخواست بھی دلوا ڈالی جسے معزز عدالت نے یہ کہہ کر رد کر دیا کہ پر امن احتجاج شہریوںکا حق ہے ۔ اس کے بعد تبدیلی سرکار نے نام نہاد کرپشن کا پانسہ پھینکا ہوا ہے یعنی اگر مولانا باز نہ آئے تو گرفتاری بھی عمل میں آ سکتی ہے۔ مولانا کی پریس کانفرنس کو براہ راست دکھانے پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے اس پابندی کا تذکرہ بھی جیونیوز نے اپنی خبروں میں کیا ۔۔ہر طرف جیسے جوتیوں میں دال بٹ رہی ہے ایسی ہی پالیسیوں کیوجہ سے تحریک انصاف اپنی رٹ کھو رہی ہے ۔

تبدیلی غبارے سے تقریباً ہوا نکل چکی ہے۔ عوام جان چکے ہیں کہ ”ہیں کواکب کچھ اور نظر آتے ہیں کچھ ، دھوکا دیتے ہیں یہ بازی گر کھلا ”تبدیلی سرکار کا جمہوری حکومت کا نعرہ تو نعرہ ہی بن کر رہ گیا ہے اور منشور واضح ہو چکا ہے کہ کنگال کر دو اور بھکاری بنا دو ۔۔ ! حالانکہ گداگری کتنی ہی نفع بخش کیوں نہ ہو ، ملک و قوم کے لیے ذلت و رسوائی ہے محنت کرنے اور غیرت مند رہنے کی عادت نہیں رہتی ۔بدقسمتی تو یہ ہے کہ پاکستان کے حکمرانوں نے عوام کو عالمی بھکاری تو بنا ہی دیا تھا اب ذہنی غلام بنانے کے لیے دن رات ایک کئے جا رہے ہیں ۔عوام کی بھی کیا قسمت ہے کہ نسل در نسل غلام پیدا کئے جائو اور غلام ہی مر جائو بلکہ اب تو مرنا بھی مہنگا ہوگیا ہے۔ستم تو دیکھیئے کہ ادھر لنگر خانوں کا افتتاح کیا گیا اور دوسری طرف 400 اداروں کو بند کرنے کا عندیہ دے دیا گیا اور عوام الناس کو واضح الفاظ میں دو ٹوک فیصلہ سنا دیا گیا کہ نوکریاں دینا حکومت کا کام نہیں ہے ۔نوکریوں کے لیے پرائیوٹ سیکٹر سے رجوع کریں ۔ یہ جو لاکھوں لوگ بیروزگار ہونگے یقینا وہ رجوع کریں گے مگر اس ذات باری تعالی سے جس نے نا اہلوں کو ان پر مسلط کیا ۔۔ ہر قسم کے جائز و نا جائز ٹیکسزز کے بعد ایک کروڑ نوکریوں اورپچاس لاکھ گھروں کے ہوائی قلعے تعمیر کرنے والوں کے اس بیان نے عوام الناس پر بجلی گرادی ہے اور وہ کہہ اٹھے ہیں کہ :

کرسی ہے یہ تمہارا جنازہ تو نہیں ہے
کچھ کر نہیں سکتے تو اتر کیوں نہیں جاتے

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ تبدیلی سرکار مرغیوں ،کٹوں ،مسافر خانوں ،لنگر خانوں اور گمراہ خانوں میں الجھ کر رہ گئی ہے ۔ ۔تبدیلی نعرے بھی ہوا ہو چکے ہیں ۔ کوئی تعمیری منصوبہ انائونس نہیں کیا گیا بلکہ چلتے منصوبوں کو بھی بند کر دیا گیا ہے جبکہ ہر قسم کا ٹیکس لاگو کر دیا گیا ہے اور ہر دن اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے ۔ ادویات کی قیمیتوں میں ایک سال کے دوران تیسری مرتبہ اضافہ کیا گیا ہے ۔ فری علاج کی سہولت ختم کر دی گئی ہے ۔ غریبوں کی مسیحائی کے دعوے داروں کا ہر فیصلہ غریب مکائو مہم ثابت ہوتا ہے ۔ کرپشن کے واویلوں میں مزید شدت آگئی ہے حالانکہ کرپشن انڈیکس میں پاکستان کا نمبر 99 سے 101پر آگیا ہے ۔ میرٹ کی دھجیاں اڑ رہی ہیں یہی وجہ ہے کہ سبھی اپنی اپنی بساط کے مطابق سمیٹ رہے ہیں کیونکہ پی ٹی آئی میں شمولیت ”گنگا نہانے ” کے برابر ہے ۔ احتسابی عمل محدود افراد اور پارٹیوں کے گرد گھومتا ہے ۔

ان دگر گوں حالات میں کہ حق الیقین ہو چلا ہے کہ معیشت ڈوب رہی ہے ، کاروبار تباہ ہورہے ہیں ، کشمیر ہاتھ سے جارہا ہے ،ادارے بند ہو رہے ہیں اور ہمارے وزیراعظم مصالحتی دوروں پر ہیں ۔ جبکہ جدھر بھی نگاہ دوڑا ئیں مسلم امہ لڑ رہی ہے ۔مسلمان مر رہے ہیں ، مسلم امہ کی غیرت و اسلامی حمیت سو چکی ہے اور لب سلے ہوئے ہیں ۔۔سوال تو یہ ہے کہ مسلم امہ کا اتحاد کہاں ہے ؟ روس اور امریکہ کا مسلم امہ کی لڑائی میں کردار کیا ہے ؟ مسئلہ کشمیر پر دنیا خاموش کیوں ہو گئی ہے ؟ جو لوگ ہمارے مسائل پر آنکھیں بند کئے بیٹھیں ہیں ان کے لیے ہم ہلکان کیوں ہو رہے ہیں ؟ جب ہم اپنی معیشت کی ڈوبتی کشتی کو سنبھالا نہیں دے سکتے ، اپنا مقدمہ مئوثر انداز میں پیش نہیں کر سکتے، تو بیگانی شادی میں عبد اللہ دیوانہ کے مصداق ثالثی کے کردار کے لیے ملک و قوم کے قرض پر حاصل کردہ پیسے کیوں بر باد کر رہے ہیں ؟جبکہ اس پیسے کو اکٹھا کرنے کے لیے عوام الناس پر زمین تنگ کر دی گئی ہے ۔غریب جھولیاں اٹھا کر بد دعائیں دے رہا ہے ۔۔رو رہا ہے اور وزراء و مشیران کا اہانت آمیز رویہ لمحہ فکریہ ہے ۔ وہ بیچارے بھی کیا کریں عہدوں کی بندر بانٹ کے لیے ہر روز ماضی کے موقع پرستوں کے درمیان میوزیکل چئیر کا کھیل کھیلا جاتا ہے جو بیٹھ جاتا ہے اسے یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ اس کی قابلیت کیا ہے اور اسے کام کیا کرنا ہے ؟ یہی وجہ ہے کہ پوچھنے پر کہتے ہیں کہ ”ہم سیکھ رہے ہیں ” اور کار گردگی کا حساب کیا جائے تو کہتے ہیں کہ ”ہم مصروف تھے ”مگر یاد رہے کہ کاغذ کی نائو سدا نہیں چلتی ۔۔اور

شہرت کی بلندی بھی پل بھر کا تماشا ہے
جس ڈال پہ بیٹھے ہو وہ ٹوٹ بھی سکتی ہے !

تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں جنھوں نے اپنے عوام کا جینا دوبھر کیا ان کا انجام عبرتناک ہوا کیونکہ انسان ایک پالتو جانور کا حساب نہیں دے سکتا اور آپ کے ذمے تو بائیس کروڑ انسانوں کا حساب ہے جو اب آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں ۔۔یہاں مجھے کہنے دیجئے کہ جمہور کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ وہ چپ چاپ جمہوریت کی دھجیاں اڑتے دیکھتے ہیں جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں عوام ایسے حکمرانوں اور عہدے داروں کا از خود محاسبہ کرتے ہیں کہ کچرے کے ڈبے میں پھینکنے سے بھی گریز نہیں کرتے اور ہمارے ہاں” اے کلاس” فراہم کی جاتی ہے اور یوں خاطر مدارات ہوتی ہیں کہ پیشی کے وقت کی ہشاشیت و بشاشیت قابل دید ہوتی ہے ۔ ملزمان اور مجرمان عدا لتوں میں ایسے آتے ہیں جیسے شادی ہال میں کوئی” دولہا ”آتا ہے اور شرم نہیں کرتے بلکہ دور نہ جائیں ابھی کل خورشید شاہ پیشی بھگتنے کے لیے آیا تو پولیس اہلکار نے اس کا ہاتھ چوما ۔خبرہے کہ اسے معطل کر دیا گیا ہے یقینا کچھ دن تک بحال بھی ہوجائے گا ۔یہی تودو پاکستان کا وہ فرق ہے جسے مٹانے کا وعدہ جناب وزیراعظم نے کیا تھا مگر اب ان کے حلیفوں کے پروٹوکول اور پرتعیش معیار زندگی اور کھلے عام قوانین کی خلاف ورزیاں زبان زد عام ہیں اورموجودہ حکمرانوں کے پاس صرف تقریریں ہیں جبکہ میں نے پہلے بھی مثال دی تھی کہ دنیا کا سب سے مختصر خطبہ جمعہ سوڈان کے شیخ عبد الباقی المکاشفی نے دیا تھا ۔وہ منبر پر بیٹھے اور فرمایا ”بھوکے مسکین کے پیٹ میں ایک لقمہ پہنچانا 1000 مساجد تعمیر کرنے سے بہتر ہے ”صفیں درست فرمالیں ”۔پاکستان کی موجودہ بد حالی صرف سیاستدانوں کے غلط فیصلوں کی مرہونِ منت نہیں ہے ۔آئین پاکستان سے غداری کر کے ملک کو مارشل لائوں کی جہنم میں جھونک کر کچھ ججز کی مادر پدر آزادی نے بھی ملک کا بیڑا غرق کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔آج پوری قوم اپنی آزادی کو گروی رکھ کر IMF کے جن 6 ارب ڈالرز قرضے پر آئندہ چند برسوں کیلئے دانہ پانی اکٹھا کر رہی ہے ۔

اتنے ہی 6 ارب ڈالر یعنی 600 ارب پاکستان کو جرمانہ کر دیا گیا ہے ۔سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا ایک غلط فیصلہ پاکستان کو 900 ارب میں پڑا ہے ۔اپنے لا متناہی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ملک و قوم کے وسیع تر مفاد ات کو دائو پر لگا کر غیر ملکی کمپنی کو دیا گیا ٹھیکہ کینسل کرنے کا حکم دیا گیا تھا جو وہ کئی ارب اب بن گئے ہیں اور 800 ارب کا جرمانہ دینا پڑھ گیا ہے ۔قومی خزانے کو عدلیہ کے صرف ایک اُسی فیصلے سے ہی نقصان نہیں پہنچا بلکہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے موبائیل کارڈز پر TEX ختم کر کے قومی خزانے کو اربوں روپے کا نا قابل تلافی نقصان پہنچایا تھا ۔ان ماضی کے ان جیسے دیگر مجرموں کا کوئی احتساب کرے گا جو اپنے فرائض چھوڑ کر تیرتی کشتیاں ڈبوتے ہیں !

تاہم موجودہ صورتحال یہ ہے کہ مولانا مارچ سب کے ذہنوں پر سوار ہے اور کہا جاتا ہے کہ مولانا کا دھرنا کرسی کے لیے ہے تو ہم یہی کہتے ہیں کہ مولانا کا دھرنا کرسی کے لیے ہے مگر خان صاحب کا دھرنا کونسا خلیفئہ وقت بننے کے لیے تھا ؟ مولانا حکومت گرا ہی نہیں سکتے ،ان کا مقصد حکومت گرانا بھی نہیں بلکہ حکومت کو کمزور کرنا ہے ۔ اب آپ اسے مذہب کارڈ کہیں یا کرسی کا شوق درحقیقت مولانا نے سوچا ہے کہ گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور دو ۔۔اب دیکھنا ہے کہ یہ دھکا کتنا کارگر ثابت ہوتا ہے اور کیامولانا ہی تبدیلی کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکیں گے یا عام عوام کو ٹھکوائیںگے یا بالآخر شکستہ دل لوٹ جائیں گے۔۔

اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت کرے گا کہ ”وہ لائیں لشکر اغیار و اعدا ہم بھی دیکھیں گے ،وہ آئیں تو سر مقتل تماشا ہم بھی دیکھیں گے ”۔سر دست تو مولانا اور دیگر اپوزیشن راہنما جنہوں نے سیاست کو بہت بڑا منفعت بخش کاروبار بنا رکھا ہے ۔وہ تمام شطرنج کی بازی لگا رہے ہیں یعنی اندر سے چاہتے ہیں کہ کوئی دوسرا اس کی لاش پر اپنا جھنڈا گاڑھ لے مگر ریاکاری کے باوجود حالات نے سب کو اس حد تک مجبور کر رکھا ہے کہ سامنے آتے بھی نہیں اور صاف چھپتے بھی نہیں ۔لیکن اصل بد بختی تو پاکستانی عوام کی ہے کہ جو رتی برابر بھی سوچ یا ماضی سے ان کے ساتھ ان سیاسی کاریگروں کی طرف سے ہونے والی زیادتیوں کو یاد نہیں رکھتے اور یہ فیصلہ ہی نہیں کر سکتے کہ کس کو کون سی بات پر لبیک کہنا ہے تو ایسے بے حمیت لوگوں کو بار بار ذلت و رسوائی کے کچھ حاصل نہیں ہو سکتا ۔۔!

Roqiya Ghazal

Roqiya Ghazal

تحریر : رقیہ غزل