سوشل میڈیا اور ہم

Social Media

Social Media

تحریر : حاجی محمد لطیف کھوکھر

گزشتہ دہائیوں میں کئی تکنیکی ایجادات سامنے آئی ہیں لیکن ان میں سے ایک چیز جو شاید ہی کسی کے ذہن میں آئے، وہ Like بٹن ہے۔ جب ایک بھولے بسرے سوشل میڈیا پلیٹ فارم نے2007 ء میں اسے متعارف کروایا تو یہ صرف گزرتے وقت کی بات تھی کہ آہستہ یہ فیچر ہر سوشل میڈیا پلیٹ فارم کا ایک لازمی جزو بن گیا۔ بہرحال یہ ایک سیدھا سادا فیچر اور اس کی بدولت ظاہر ہونے والے نوٹیفکیشن کا ایک لامتناہی سلسلہ بہترین طریقہ ہے جس کے ذریعے ہماری پسند و ناپسند کے تئیں ڈیٹا اکٹھا کیا جاسکتا ہے اور صارفین کو ہر دم مشغول رکھا جا سکتا ہے۔ یہ کوئی تعجب خیز بات نہیں کہ لوگ آخرکار سوشل میڈیا سے پیچھے ہٹنے لگے ہیں اور انہیں یہ معلوم ہونے لگا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی شاید فائدے سے زیادہ نقصان کا پیشہ خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔ یقیناً ٹھوس بنیادوں پر مبنی تحقیق کے اخذکردہ نتیجے نے سوشل میڈیا اور اسمارٹ فونز کے مضر اثرات کو ہماری آنکھوں کے سامنے لا دیا ہے۔ 2007 ء میں جب پہلا اسمارٹ فون بازار میں آیا تو اسٹیوجابز نے اس کا تعارف بہترین آئی پوڈ کے طور پر کروایا۔ یہ ایک ایسا بہترین ڈیوائس تھا جس کے ذریعے آپ فون کال بھی کرسکیں اور میوزک بھی سن سکیں۔

اینڈی گریگنا کا یہ ماننا ہے کہ آئی فون کی رونمائی کے موقع پر ایپل کے انجینئر اسٹیوجابز نے آئی فون کو تھرڈ پارٹی ایپس یا گیم کے پلیٹ فارم بنائے جانے کے خیال کو مسترد کردیا تھا۔ جہاں تک فیس بک کا تعلق ہے ، 2004 ء میں فیس بک صرف ایک بہترین اختراع یا ایجاد کے طور پر جانا گیا۔ ایک ایسا طریقہ جس کے ذریعے دوست کے دوست کو جانا جاسکے نہ کہ خبریں حاصل کرنے یا وقت برباد کرنے کا ذریعہ۔ پس جب لوگ فیس بک آئی اور آئی فون کو پہلی بار اپنی زندگی میں لے آئے تو ان کے نزدیک یہ کوئی ایسی چیز نہیں تھی جس میں لاگ ان کرکے یہ لوگ گھنٹوں گھنٹوں تکتے رہیں۔ ٹیکنالوجی کا یہ خطرناک پہلو جو لت کی شکل اختیار کرلیتا ہے ، بعد کی چیز ہے جو سوشل میڈیا کے انجینئروں کا قصداً ایجادکردہ ہے۔

ہمیں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ سوشل میڈیا سے ملنے والے فائدے اس وقت کے مقابلے میں قلیل ہی ہیں جو آپ اس پر صرف کررہے ہیں۔سوشل میڈیا کا ایک تاریک پہلو بھی ہے، جسے ہم سب جانتے ہیں کہ موجود ہے لیکن ہم تسلیم نہیں کرنا چاہتے۔ کیا سوشل میڈیا نوجوانوں کو زیادہ پریشان اور افسردہ کرتا ہے؟ نوجوانوں کیلئے ٹیکنالوجی کے استعمال سے متعلق یہ ایک متنازعہ سوال بن گیا ہے، کیونکہ تحقیقات میں اس کے متنوع نتائج ظاہر ہوتے ہیں۔ اکثر ماہرین کا خیال ہے کہ سوشل نیٹ ورکس کا مستقل استعمال اعصابی نظام کو لڑائی جھگڑے کے موڈ میں بدل دیتا ہے۔ مستقل استعمال افسردگی، عدم توجہ، مخالفین کو دھمکیاں دینا اور نوعمری میں بے چینی جیسے مسائل کو بڑھاتا ہے۔ نوجوانوں کے سوشل میڈیا کے استعمال سے متعلق ایک تحقیق میں اس کا استعمال نوجوانوں میں افسردگی کے اضافے کا باعث بنتا ہے۔ ان مطالعوں سے معلوم ہوتا ہے کہ نوجوانوں کے سوشل میڈیا کے زیادہ استعمال سے ان کی ذہنی صحت متاثر ہوتی ہے۔

موجوہ حالات میں اسلام دشمن طاقتیں، اسلام مخالف پروپیگنڈوں کے لئے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا بھر پور استعمال کررہی ہیں،مسلمانوںکا ایک بڑا طبقہ بھی انٹرنیٹ سے جڑا ہوا ہے اور اپنی دینی معلومات کے لئے گوگل اور یوٹیوب کو امہات الکتب شمار کررہا ہے اور اس پر موجود مواد کو ہی صحیح دین کا مصدر و مرجع سمجھ رہاہے،مستشرقین اور یہودیوںکے گہرے تعلقات انٹرنیٹ، بلاگس اور سوشل میڈیا سے شروع ہی سے رہے ہیں۔ اس کے ذریعہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پوری دنیا میں طرح طرح کی افواہیںاور پروپیگنڈے پھیلاتے ہیں اور تعلیمات اسلامی کو توڑ مروڑ کر پیش کر تے ہیں۔ اس کا استعمال اپنے مفادات کے لئے کرتے ہیں اور اس دائرہ کار میں اضافہ کے لئے کثرت سے لوگوں کو جوڑتے ہیں۔ اس کے برے نتائج ا س وقت بر ا?مد ہوتے ہیں جب نسل نو کے معصوم صارفین اسلام سے متعلق کچھ جاننا چاہتے ہیں تو یہو دیوں و مستشرقین کے سلجھے اور لچھے دار اسلوب و اندازسے متاثر ہو جاتے ہیں اور اسی کو حقیقی اسلام تصور کرنے لگتے ہیں۔ ان کا معصوم ذہن اس چیز کا ادراک کرنے سے قاصر رہتا ہے کہ حاصل شدہ مواد و مضامین اورافکارو خیالات خام اور تعلیمات اسلامی کے بالکل منافی ہیں۔

جبکہ پڑھنے سے بیزار لوگوں پر موبائل اور انٹرنیٹ پر ویڈیو پروگرام کی لت اس قدر مسلط ہوگئی ہے کہ وہ ہر مرض کا علاج یوٹیوب کے میڈیکل میں تلاش کرتے ہیںاور ہر درد کی دوا گوگل کے سرچ ہاسپیٹل میں ڈھونڈتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ تحریریں جو صحیح اسلام کی نمائندگی کررہی ہوتی ہیں وہ لوگوںکی دسترس سے دور رہ جاتی ہیں اور باطل افکار و خیالات کے حامل لوگوںکی طرف سے بنائے گئے ویڈیوز ہماری زندگی اور اعمال پر اثر انداز ہوجاتے ہیں۔ انٹرنیٹ کا ایک مثبت پہلو اور مفید استعمال یہ ہوسکتاہے کہ بحیثیت داعی قوم ، پوری دنیا کو دعوت کا میدان بنایا جائے اور انٹرنیٹ کے وسیع پنڈال کے ذریعہ معمولی خرچ کے ساتھ پوری دنیا میں بسنے والوں تک دین کی دعوت پہنچائی جائے،اور اسلام کے عالمی دعوتی مشن کے لئے انٹرنیٹ کے اسی فارمیٹ کو استعمال کیا جائے جس کے لو گ زیادہ دیوانے ہیں۔

اسلام کا پیغام امن و اخوت، مساوات، انسانی ہمدردی، انسانی حقوق کی پاسداری اور اسلام کے نظام عدل و انصاف کی بالادستی کو سامنے لایا جائے۔ چنانچہ ضروری ہے کہ اسلام کی نشر و اشاعت اور اسلامی تعلیمات کے فروغ کی ہر ممکن جد و جہد و سعی کی جائے، اسلام کے خلاف جو منفی سوالات ہیں وہ جن ذرائع کے ساتھ استعمال ہورہے ہیں انہی ذرائع کے ساتھ جواب دیا جائے۔ آج ضرورت ہے کہ اس کے مفید اور مضر پہلو پر تفصیلی گفتگو کی جائے او راس کے نقصان سے بچتے ہوئے اس کے مثبت استعمال کو بروئے کار لایا جائے۔

Haji Mohammad Latif Khokhar

Haji Mohammad Latif Khokhar

تحریر : حاجی محمد لطیف کھوکھر