معاشرتی نفسیات کی اصلاح

Society

Society

تحریر : عائشہ یاسین

جب انسان سیر ہوکے اپنا من پسند کھانا نوش کرلے تو خود بخود سرور و مستی کا سا عالم ہوتا ہے جو ہیرے جواہرات کے حصول سے بھی بڑھ کے محسوس ہوتا ہے۔ چاہے وہ کھانا دال چاول اور آلو کا سالن ہی کیوں نہ ہو، من کی خواہش جب بر آتی ہے تو روح تک کو سکون اور اطمینان بخشتی ہے۔ یہ انسان بھی کیا شے ہے؟ اس کا سارا نظام اس کی سائیکی پر منحصر ہے۔ اس کی نفسیات ہی وہ کارخانہ ہے جو اس کے مزاج کو کنٹرول اور کمانڈ کرتی ہے۔ انسانی نفسیات انسان کے تربیت کرتی ہے اور اس کی مزاج کی تعمیر کرتی ہے جس سے اس کی طبیعت میں گداز، الہڑ پن، عداوت یا بردباری شامل ہوتی ہے۔ اس نفسیات کو آسان الفاظ میں مزاج کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ مزاج ہی انسان کے انداز و افعال کا تعین کرتا ہے۔ جیسا کہ اگر ہم کسی شخص کے بارے میں کوئی رائے دینی ہو تو ہم اس کو ایک لفظ میں جمع کر دیتے ہیں۔ اس کی مثال یوں ہے کہ فلاں شخص سادہ مزاج ہے یا شوخ مزاج رکھتا ہے یہاں سادہ اور شوخ الفاظ اس کے شخصیت کو عیاں کرتے ہیں کہ اگر کوئی شخص سادہ ہوگا تو یقینا کم گو ہوگا اور دھیمی آواز میں گفتگو کرتا ہوگا، سادہ لباس اور ہلکے رنگوں کو پسند کرتا ہوگا۔ اسی طرح جب ہم کسی کو شوخ مزاج کہتے ہیں تو ایک خاکہ ذہن میں نمودار ہوتا ہے کہ وہ شخص ضرور باتوں کا ماہر ہوگا، بات بات پر ہنستا ہوگا اور اونچی آواز میں گفت و شنید کرتا ہوگا۔ اس کو تیز اور چہکتے ہوئے رنگ پسند ہوں گے۔

یہ مزاج اصل میں انسان کے نفسیات کی عکاسی کرتا ہے۔ نفسیات ہی وہ پیمانہ ہے جس سے انسان کی اندرونی پسند و نا پسند، عادات و مزاج کا تعیین کیا جاتا ہے۔ جب کوئی بچہ دنیا میں آنکھ کھولتا ہے تو وہ ایک مکمل اور جامع ہوتا ہے۔ اس کی ساری حسیں بیدار ہوچکی ہوتی ہیں۔ کچھ مزاج اس کا ماں کی گود میں ہی نشو پا چکا ہوتا ہے اور کچھ وقت کے ساتھ ساتھ اردگرد کے ماحول اور تربیت سے بنتا ہے۔ وہ کس طرح اٹھے گا بیٹھے گا کھائے گا، کون سی زبان بولے گا، کیسا لباس پہنے گا۔ یہ سب اس کو معاشرے سے سیکھنا ہوتا ہے۔

انسان جس معاشرے کا حصہ ہوتا ہے اس کی شخصیت پر اسی معاشرے کا رنگ غالب آجاتا ہے۔ اگر وہ ایسے معاشرے میں پروان چڑھتا ہے جہاں امن ہے، خوب صورتی ہے، بھائی چارہ ہے تو جو سلوک اس کے اردگرد کے لوگ اس کے ساتھ کرتے ہیں اصل میں وہ سلوک اس کے کردار اور نفسیات کا حصہ بن جاتا ہے اور اگر وہ آنکھ کھلتے ہی ایسے معاشرے کا حصہ بن جاتا ہے جہاں ایک دوسرے کی تذلیل ہوتی ہے۔ بات بے بات پر آواز اونچی اور لغو باتیں کی جاتی ہیں تو یقینا تشدد اور جبر اس کی طبیعت کا حصہ ہوں گے۔ وہ کہیں نہ کہیں امن کا متلاشی ہوگا اور اس تلاش میں وہ خود منتشر رہے گا۔

کیا کبھی ہم نے سوچا کہ معاشرہ کب اور کہاں ہماری زندگیوں پر اثر انداز ہوتا ہے؟ معاشرہ اصل میں ہے کیا؟ کیوں یہ انسانی زندگی کی تعمیر یا تخریب کا ضامن ہے؟ معاشرہ دراصل ماں کی کوکھ ہے۔ معاشرہ دراصل وہ ساری سوچ اور حالات ہیں جس میں ایک عورت جی رہی ہوتی ہے۔ معاشرہ کا اثر ماں کی کوکھ سے شروع ہوکر قبر میں اترنے پر ختم ہوتا ہے۔ جو معاشرہ عورت کی عزت نہیں کرتا، اس کو انسان تسلیم نہیں کرتا۔ اس کو طرح طرح کے ذہنی و جسمانی اذیتوں کا شکار رکھتا ہے وہاں متوازن طبیعت کا انسان کیسے پیدا ہوسکتا ہے؟ کیا صرف ہاتھ کی مار ہی مار ہوتی ہے؟ نہیں مار تو الفاظ، انداز اور یہاں تک کے دیکھنے تک کے انداز میں پنہاں ہوتی ہے۔ جب عورت کو تیسرے درجے کی مخلوق سمجھ کر اس کے ساتھ سلوک روا رکھے جائیں تو وہ کیسے تعمیری سوچ رکھ سکتی ہے؟ ہم جس دین کے ماننے والے ہیں اس دین نے عورت کو نہ صرف اعلی مرتبہ بخشا بلکہ ماں کے روپ میں اس کے قدموں تلے جنت کا درجہ دے ڈالا۔

اماں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کو امت کی ماں بنا کر اس شخص پر ماں کی عظمت کو خاطر لانا لازم و ملزوم قرار دے دیا۔ تو جس اسلام کے ہم پیروکار ہیں وہاں سوچ کا متوازن ہونا اور سب ہی کی عزت اسی طرح کرنا ہم پر لازم ہے جس طرح اللہ تعالی نے مقرر کیا ہے۔
بہترین معاشرہ بہترین سوچ سے بنتا ہے اور یہ بات مسلم ہے کہ جب سوچ اچھی ہوتی ہے تو ہمارا عمل خود بخود مثبت ہوتا چلا جاتا ہے۔ جب سوچ مثبت ہوگی تو معاشرہ میں بھائی چارہ، امن، محبت اور صلہ رحمی ہوگی اور ایک ایسی فضا بنے گی جہاں بغض و عناد اور بدلے و عداوت کی سوچ شکست کھائے گی۔ ہم ایسے معاشرے کی پرورش کر پائیں گے جو ہمارے پیارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے عین مطابق ہوگی۔

تو دیر کس بات کی ہے۔ ہم یہ کام آج اور ابھی سے شروع کرتے ہیں۔ بہتر معاشرے کی تشکیل کے لیے ضروری ہے کہ ہم پہلے اپنے گھر کا ماحول ساز گار کریں۔ آواز دھیمی اور نرم لہجہ اختیار کریں۔ عفوو در گز سے کام لیں۔ مسکرائیں اور ایک دوسرے کو اہمیت دیں۔ پڑوسی سے حال احوال کریں۔ کیوں کہ معاشرہ ہمارے اپنے اردگرد کے ماحول سے شروع ہوتا ہے۔ معاشرہ ہمارے اپنے گھر سے شروع ہوتا ہے۔ آئیے آج ہی اپنے بچوں کو اپنا معمار سمجھ کر ان کے تربیت کا اہتمام کرتے ہیں۔

تحریر : عائشہ یاسین