جاسوس جیمز ایبٹ کا ایبٹ آباد

Abbottabad

Abbottabad

تحریر : نجیم شاہ

ہزارہ ڈویژن کے صدر مقام اور خیبرپختونخواہ کے اہم شہر ایبٹ آباد کو بسانے اور اِس شہر کے نام کی وجہ تسمیہ بننے والا جیمز ایبٹ دراصل ایک جاسوس تھا۔ 1807ء کو انگلستان میں پیدا ہونیوالا جیمز ایبٹ ایک مشہور فوجی تھا تاہم وہ ہزارہ میں بحیثیت جاسوس داخل ہوا اور بعد ازاں اپنی گرانقدر خدمات کے صلے میں ڈپٹی کمشنر بنا دیا گیا۔ جیمز نے ابتدائی تعلیم بلیک ہیتھ سے حاصل کی، ایڈس کومب میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد بنگال آرٹلری میں کمیشن حاصل کیا۔ وہ 1823ء کے آخر میں ہندوستان پہنچا، لارڈ کمبریئر کی سرکردگی میں دسمبر 1825ء میں بھرت پور کے محاصرے میں شامل ہو کر پہلی دفعہ کسی جنگ میں حصہ لیا۔ 1835ء سے 1836ء تک وہ آگرہ میں مالیے کے سروے کے کام پر متعین رہا۔ 1838ء میں اُس نے سندھ فوج میں شامل ہو کر سرجے کین کی سرکردگی میں قندھار کی طرف پیشقدمی کی۔

وہاں سے اُسے میجر ڈی آر کی ناڈ کے نائب کی حیثیت سے ہرات بھیج دیا گیا۔ دسمبر 1939ء میں جیمز کو کھیوا بھیجا گیا تاکہ وہ ریاست کے خان کے قبضے میں قید روسی فوجیوں کو چھڑانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ جیمز قیدیوں کے تبادلے میں مدد دینے کیلئے روس روانہ ہو گیا۔ کیسپیئن جانے کیلئے جب وہ ساحل سمندر پہنچا تو اُس کی مختصر سی نفری پر کوساک قبیلے کے بریگیڈ نے حملہ کر دیا۔ حملہ آوروں نے جیمز ایبٹ کو روسی سمجھ کر نہ صرف بُری طرح پیٹا بلکہ سامان بھی لوٹ لیا گیا۔ ایک خمدار تلوار نے اُس کے دائیں ہاتھ کی ایک اُنگلی اور بائیں ہاتھ کی نصف اُنگلی شدید زخمی کر دی۔ وہ اٹھارہ دن تک کساکوں کے پاس قید رہا بعد ازاں اُسے رہا کرانے کیلئے قید کرنیوالوں کو رشوت دی گئی۔ رہائی کے بعد اُسے روسی قلعے میرو الیگز ینڈر فکسی لے جایا گیا جہاں ایک ڈاکٹر نے اُسکے زخم کا علاج کر کے متاثرہ اُنگلی کاٹ دی۔

کیسپیئن کو عبور کر کے وہ بغیر کسی مزید حادثے کے ماسکو اور سینٹ پیٹرز برگ پہنچ گیا جہاں قیدیوں کے تبادلے کی گفتگو نتیجہ خیز رہی۔ 1840ء میں برطانیہ جاتے ہوئے جیمز ایبٹ کو سیکرٹری خارجہ لارڈ پامرسٹن نے شکریئے کا پیغام بھیجا اور زخموں کی بناء پر اُسے پنشن دے دی گئی۔ 1841ء میں وہ ہندوستان واپس آ گیا۔ مرواڑہ اور اندور میں خدمات انجام دینے کے بعد 1846ء میں اسے لاہور ریذیڈینسی سے منسک کر دیا گیا۔ ہزارہ چونکہ تحت لاہور کے زیر اثر تھا لہٰذا اُسے پنجاب اور کشمیر کے درمیان سرحد کی حد بندی پر بھیجا گیا۔ مئی 1847ء تک وہ ہزارہ کی سرحد پر اپنے کام کی تکمیل میں مصروف تھا۔ یہاں سے واپس لاہور گیا اور پھر 1848ء میں بحیثیت جاسوس ہزارہ میں داخل ہوا۔ جیمز کو اُس کا پسندیدہ کام جاسوسی تفویض کیا گیا، وہ اپنی زندہ دِلّی، پُرجوش طبیعت، گرمجوشی اور سخاوت کے باعث بہت جلد ہی اہلِ ہزارہ کا دِل جیتنے میں کامیاب رہا۔ ”دی گزیٹیئر آف ہزارہ” کے مصنف نے جیمز ایبٹ کو باقاعدہ جاسوس تو نہیں لکھا لیکن اُسکے جو کارنامے بیان کئے ہیں وہ جاسوس ہونے کا اِشارہ دیتے ہیں اور حقیقت میں بھی وہ جاسوسی کے مشن پر گامزن تھا۔

جیمز سے قبل نکلسن ہزارہ میں کافی عرصہ تک جنگلوں اور دیہاتوں میں بوڑھے بزرگ کے بھیس میں زندگی بسر کرتا رہا۔ پنجاب میں اُسے ”شیر پنجاب” کہا جاتا تھا اور ہزارہ میں تو اُس نے بزرگی کے وہ جوہر دکھائے کہ لوگ باقاعدہ اُسکی پوجا کرنے لگے تھے۔ کہتے ہیں کہ ہزارہ میں ایک فرقہ ایسا بھی پیدا ہو گیا تھا جسے ”نکلسنی فرقہ” کہا جاتا تھا۔ اس فرقہ کے لوگ نکلسن کو اپنا گرو سمجھ کر اُس کی پوجا کرتے تھے۔ یہ ایک کرخت چہرے والا اِنسان تھا، اُس کی لمبی اور نوک دار داڑھی تھی۔ جب یہ شخص ہزارہ اور پنجاب میں خفیہ کام سرانجام دے چکا تو پھر وہ بزرگی کا بھیس اُتار کر اپنے اصلی روپ میں ظاہر ہوا۔ اب وہ اپنی اصل شکل و صورت میں ایک نوجوان تھا۔ انگریزوں نے اُس کی خدمات کے صلے میں اُسے پہلے تو بنوں کا ڈپٹی کمشنر بنایا اور پھر بعد میں پشاور کا ڈپٹی کمشنر رہا۔

جیمز ایبٹ نے سکھوں کے دور میں جبکہ سکھ ہزارہ میں حکمران تھے ہزارے آ کر اپنے مشن کا آغاز کیا۔ یہ بھی بزرگوں کے بھیس میں شروع شروع میں نمودار ہوا اور کبھی مستانے کی صورت میں اُس نے اپنے مشن کی تکمیل کیلئے دِن رات کام کیا۔ اُس نے ایبٹ آباد، مانسہرہ، ہری پور سمیت ہزارہ کے دیگر علاقوں میں اپنا اثرورسوخ قائم کرنے میں مختلف بہروپ اختیار کئے۔ کبھی یہ فقیروں اور کبھی مستانے کی صورت میں نمودار ہوتا۔ یہ محض بچوں میں بچہ اور بڑوں میں بڑا بن کر ظاہر ہوتا۔ بچوں میں یہ ”ایبٹ کاکا” اور بڑوں میں ”کشن کاکا” کے نام سے مشہور ہوا۔ اُس کی لمبی مصنوعی داڑھی تھی۔ انگریزی اس کی اپنی زبان تھی لیکن وہ ہندکو، پنجابی، پشتو، اردو ہندی زبانیں بھی بول لیتا تھا۔ ہزارہ کے لوگ جیمز کو بزرگ سمجھ کر بڑے ہی ادب سے اُس کا نام لیتے تھے۔ افغانیوں کے لباس میں ملبوس جیمز کی جیبیں اکثر مٹھائیوں سے بھری رہتی تھیں۔ وہ گائوں گائوں جا کر بچوں کو اکٹھا کر لیتا اور اُن میں مٹھائیاں تقسیم کرتا۔ کہتے ہیں کہ جب سکھوں اور مشوانیوں کا مقابلہ شروع ہوا تو جیمز ایبٹ نے مشوانیوں کو کہا کہ قدرت نے مجھے تمہاری مدد کیلئے بھیجا ہے اگر تم چاہو تو مَیں تمہارے درمیان رہ کر تمہاری مدد کروں۔ مقامی لوگ اُسے اپنا ہمدرد سمجھ کر اُس کی ہاں میں ہاں ملاتے تھے۔

جب اسے خبر ملی کہ دیوان کرم چند کی سرکردگی میں جموں سے آنے والی فوج ڈھونڈوں اور کڑلال کے علاقوں میں شکست سے دوچار ہو چکی ہے تو وہ معائنے کی غرض سے مانسہرہ گیا۔ اس کے علاوہ وہ مانسہرہ کے قلعے میں بھی گیا۔ مانسہرہ تحصیل کے دورے کے دوران اُس نے گڑھی حبیب اللہ کے مقام پر وینس ایگنیو سے ملاقات کی اور اُس سے ڈھونڈ اور کڑلال کے علاقوں کے بارے میں تبادلہ خیال کیا۔ ہزارہ کے لوگ تو یہ چاہتے تھے کہ کسی طرح سکھوں سے نجات ملے مگر اُنہیں کیا معلوم تھا کہ وہ ایبٹ کی کوششوں کے ذریعے سکھوں کے ہاتھوں سے نجات پانے کے بعد ایک ایسی قوم کے غلام بنائے جانے والے ہیں جو سکھوں سے بھی زیادہ اُن پر جابرانہ طریقے سے حکومت کرینگے۔

سرہنری لارنس کی رائے کے مطابق وہ ایک سچے نائٹ کی طرح مہم جو، لڑکیوں کی طرح شریفانہ سوچ، وعدے کی پاسداری اور پُرجوش جذبات کا حامل شخص تھا جو اپنے دوستوں اور ملک کی خاطر ہر قربانی دینے کیلئے تیار رہتا۔ کہتے ہیں کہ جیمز ایبٹ نے یہاں کے عوام میں اِتنا اثرورسوخ حاصل کر لیا تھا کہ وہ اُن سے ہر بات منوا سکتا تھا حالانکہ یہ وہی علاقہ ہے جہاں سکھ کبھی قابو نہ پا سکے۔ جیمز ایبٹ نے صرف ایک سال کے مختصر عرصہ میں یہاں کے عوام کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔ جب انگریزی اقتدار ہزارے پر چھا چکا تو جیمز ایبٹ کی خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے اُسے یہاں کا پہلا ڈپٹی کمشنر مقرر کیا گیا۔ جیمز ایبٹ نے جس جنگل میں اپنے کارناموں کے دوران کافی دِن فقیرانہ بھیس میں صوفی بن کر گزارے تھے وہاں ایک بستی کی بنیاد ڈالی جو ایبٹ آباد کے نام سے مشہور ہے۔

سر اولف کیرو جو انگریز دور میں صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخواہ) کے گورنر بھی رہ چکے ہیں اپنی کتاب ”دی پٹھان” میں دبے لفظوں میں اِس حقیقت کو بے نقاب کرتے ہیں کہ ”ہمارے ملک سے آئے ہوئے پیش روئوں نے سو سال پہلے اس علاقے میں کام کرنے کا بیڑہ اُٹھایا تھا جو پیش رو سکھوں کے عہد میں اور کولن کیمبل سے پہلے آئے تھے۔ اُنہوں نے اندازہ لگا لیا تھا کہ یہاں کام محض فوج کے بس کی بات نہیں ہے۔” اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انگریزوں نے سرحدی علاقوں میں بہت پہلے سے سیاحوں، پیروں اور فقیروں کے بھیس میں اپنے جاسوسوں کو بھیج کر اس علاقے کے نشیب و فراز سے آگاہی حاصل کر لی تھی۔ اِنہی جاسوسوں میں سے ایک جیمز ایبٹ بھی تھا جو بعد ازاں اپنی خدمات کے عوض ڈپٹی کمشنر ہزارہ بنا دیا گیا جن کی بطورِ ڈپٹی کمشنر تعیناتی کا دورانیہ 1849ء سے 1853ء تک ہے۔ بعد میں 1894ء میں اُسے برطانوی حکومت میں کلیدی عہدے کے سی بی پر تعینات کیا گیا۔ جیمز ایبٹ نے 6اکتوبر 1896ء کو 89سال کی عمر میں آئل آف ویٹ (انگلینڈ) میں وفات پائی اور گلڈ فولڈ مقیرہ میں مدفن ہوئے۔

Najeem Shah

Najeem Shah

تحریر : نجیم شاہ