اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی رپورٹ: کیا دباؤ ڈالنا حربہ ہے؟

Jalaluddin Haqqani

Jalaluddin Haqqani

اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستان میں کئی حلقوں نے دہشت گردی سے متعلق جاری کردہ امریکی رپورٹ پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ رپورٹ میں پاکستان سے متعلق مندرجات کا مقصد اسلام آباد پر دباؤ ڈالنا ہے۔

واضح رہے کہ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے حال ہی میں دہشت گردی کے حوالے سے ایک سالانہ رپورٹ جاری کی ہے، جس میں اسلام آباد کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ ہنوز بھارت مخالف اورافغان مخالف دہشت گرد گروپوں کے خلاف ایکشن لینے سے گریزاں ہے۔

پاکستان میں مبصرین کا خیال ہے کہ یہ رپورٹ پاکستان پر دباؤ ڈالنے کا ایک حربہ ہے۔ اسلام آباد کی نیشنل یونیورسٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے عالمی ادارہ برائے امن واستحکام سے وابستہ ڈاکٹر بکارے نجم الدین جن کا تعلق نائجیریا سے ہے، کا کہنا ہے کہ امریکا چاہتا ہے کہ پاکستان چین سے فاصلہ کرے۔ ان کا مزید کہنا ہے، “امریکہ میں چین مخالف ماحول اپنے عروج پر ہے۔ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جو بیجنگ کی تقریبا ہر معاملے میں حمایت کرتے ہیں۔ اس لیے اس رپورٹ کے ذریعے امریکا اسلام آباد پر دباؤ بڑھانا چاہتا ہے کہ وہ چین سے فاصلہ اختیار کرے۔”

ڈاکٹر نجم الدین کا کہنا تھا کہ پاکستان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لایا، “اس کے باوجود اس رپورٹ میں پاکستان پر تنقید کی گئی ہے، جس سے اسلام آباد کو شدید مایوسی ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ چین بھارت کشیدگی کی دوران میں نئی دہلی کے لیے امریکی حمایت نے بھی پاکستان کو مایوس کیا ہے۔ اس صورت حال میں پاکستان چین کے مزید قریب جائے گا اور اسلام آباد میں یہ تاثر زور پکڑے گا کہ واشنگٹن قابل اعتماد ساتھی نہیں ہے۔”

کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ اس سے دونوں ممالک میں بد اعتمادی بڑھے گی۔ اسلام آباد کی پریسٹن یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکٹر امان میمن نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، “اس رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکا طالبان تعلقات صحیح سمت میں نہیں جارہے اور یہ پاکستان پر دباؤ بڑھانے کی ایک کوشش ہے تاکہ وہ ان مذاکرات کو درست ٹریک پر لائے۔”

ان کا کہنا تھا کہ اس رپورٹ کے بعد تعلقات میں تلخی آسکتی ہے۔ “لیکن پاکستان کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس کی معیشت کا انحصار عالمی مالیاتی اداروں پرہے جہاں امریکا کا سکہ چلتا ہے۔ تو ہمارے پاس امریکی تحفظات کو دور کرنے کے علاوہ کوئی اور آپشن نہیں ہے۔”

کچھ ناقدین کے خیال میں رپورٹ کے مندرجات حقائق کی عکاسی کرتے ہیں اور پاکستان اپنی پرانی پالیسی بدلنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ پشاور یونیورسٹی کے ایریا اسٹڈی سینٹر کے سابق سربراہ ڈاکٹر محمد سرفراز کا کہنا ہے کہ جب تک پاکستان اپنی جہادی پالیسی نہیں بدلتا، بین الاقوامی برادری اس سے مطمئن نہیں ہوگی، “ہم نہ صرف افغانستان اور کشمیر میں دہشت گردوں کی حمایت کرتے ہیں بلکہ ہمارے قبائلی علاقوں میں بھی اب طالبان کی سرپرستی کی جارہی ہے۔ جس سے ملک کو بھی نقصان ہو رہا ہے اور خطے کو بھی۔ لہذا ہمیں اس رپورٹ کو سنجیدگی سے لینا چاہیے ورنہ خطہ بھی برباد ہوگا اور ہم بھی۔”