ریاست مدینہ میں حج بھی مہنگا

Hajj

Hajj

تحریر : حاجی محمد لطیف کھوکھر

حج اسلام کا ایک عظیم الشان رکن ہے، ہر مسلمان کی یہ دلی تمنا ہوتی ہے وہ اپنی زندگی میں ایک مرتبہ اس فریضہ کو ادا کرے، خانہ کعبہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھے اور سرور دو عالم ۖ کے روضہ اطہر پر حاضری دیکر صلوٰة وسلام کا نذرانہ پیش کرے، اسی لئے صاحبِ استطاعت مسلمان اپنی کمائی کا ایک حصہ بچاکر اتنی رقم جمع کرلیتے ہیں کہ حج کے لئے رختِ سفر باندھ سکیں، بہت پہلے حج کا یہ سفر پیدل یا اونٹوں سے کیا جاتا تھا، اِس کے بعد بحری جہازوں سے یہ سفر ہونے لگا۔بعدازاں ہوائی جہازوںسے لوگ عمرہ اور حج کیلئے جانے لگے۔ابتدائی دور میں صرف پی آئی اے واحد قومی ائیر لائن تھی ۔ اور حج کے اخراجات بھی نسبتاً سستے ہوتے تھے کہ ایک درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والا بھی اللہ کے گھر میں قدم رکھنے کا خواب پورا کر سکتا تھا۔ بزرگ خواتین نے اس نیک آرزو تکمیل کے لیے محلوں میں کمیٹیاں ڈالی ہوتی تھیں۔ لیکن اب تو حج و عمرے کا مقدس سفر صرف امیروں، سرمایہ داروں کے لئے رہ گیا ہے۔

ایک عام پاکستانی مرد و عورت اللہ کے گھر کی زیارت ، خانہ کعبہ میں نماز کی ادائیگی کا خواب لیکر اس دنیا سے رخصت ہو جائیں گے۔ جس برق رفتاری سے حج کے دیگر اخراجات میں اضافہ ہورہا ہے خاص طور پر ائیرٹکٹ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی رہائش کا کرایہ بڑھایا جاتا رہا ہے ، اس کی وجہ سے میں حج کے اخراجات دوگنے ہوگئے ہیں۔ باقی رہی سہی کسر ریاست مدینہ کی علمبردار حکومت نے حج کرایوں پر سبسڈی کو خاتمہ کرکے پوری کر دی ہے ۔ مصدقہ ذرائع کے مطابق حج پالیسی 2020ء کا ڈرافٹ تیار ہو چکا ہے اور جلد ہی کابینہ میں منظوری کے لئے پیش کیا جائے گا۔ ڈالر اور پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کو جواز بنا کرمنظور شدہ ائیر لائنز نے کرایوں میں گزشتہ سال کی نسبت 20 ہزار روپے سے 30ہزار روپے تک اضافے کا مطالبہ کر دیا ہے جبکہ وزارت مذہبی اْمور 10 ہزار روپے تک کرایہ بڑھانے پر رضا مند ہے۔ ائیر لائنز کے ساتھ ساتھ ارضِ مقدس میں بھی رہائش گاہوں کے کرایوں میں اضافہ کا امکان ہے۔

مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں رہائش گاہوں کا کرایہ بالترتیب 2500 ریال اور950 ریال تجویز کئے گئے ہیں۔ لازمی واجبات اور مکتب کی فیسوں میں بھی اضافہ کا امکان ہے۔ ان تمام اضافوں سے حج پیکیج2020ء میں گزشتہ سال کی نسبت تقریبا ً ایک لاکھ سے سوا لاکھ روپے تک اضافہ کا امکان ہے جس سے حج پیکیج 5 لاکھ 35 ہزار روپے تک پہنچ جائے گا۔ مذہبی حلقوں اور حج سے متعلقہ تنظیموں نے حج واجبات میں متوقع اضافے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے حج عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو جائے گا۔ منظور شدہ ائیرلائنز نے کئی سالوں سے اپنی اجارہ داری قائم کر رکھی ہے اور ہر سال من مانے اضافے کا مطالبہ کر دیتی ہیں۔ اگرمنظور شدہ ائیر لائنز گزشتہ سال کے کرائے پر جانے پر راضی نہیں ہوتیں تو دیگرنجی و دیگر ائیرلائنز سے رابطہ کیا جائے وہ بآسانی راضی ہو جائیں گی۔ ماضی کی طرح سبسڈی دے کر حج پیکیج کو گزشتہ سال کے پیکیج کے برابر کیا جائے۔ یہاں حکومت وقت سے سوال ہے کہ اگر کرتارپورہ راہداری پر غیر مسلموں کو سبسڈی دی جا سکتی ہے تو اپنے ملک کے لوگوں کو اپنے مذہبی فریضہ کی ادائیگی کے لئے سبسڈی دینے پر کیوں اعتراض کیا جا رہا ہے۔

دراصل اقتدار سنبھالنے کے بعد انکشاف ہوا کہ عمران اور ان کے ساتھیوں نے معاشی پروگرام کا خاکہ ہی تیار نہیں کیا۔ مشکل معاشی حالات سے دوچار ہوتے ہی حکومت نے ایسی افراتفری کا مظاہرہ کیا کہ کاروباری طبقہ بدحواس ہو گیا۔ سرمایہ فرار ہونے لگا۔ دو دوبجٹ پیش کئے جاتے رہیں، 1100ارب روپے کا قرضہ لیا۔ مہنگائی بڑھی، افراط زر بڑھا، شرح نمو کا ہدف کم کر دیا گیا۔ عالمی مالیاتی اداروں نے پاکستان کی درجہ بندی گھٹا دی۔ آئی ایم ایف سے معاہدے کر لیا گیا۔ گزشتہ سال فاقی وزیر مذہبی امور نور الحق قادری نے جواز یہ پیش کیا تھا کہ اگلے چار برس میں حج نجی شعبے کو دے دیا جائے گا کیونکہ سعودی حکام کی خواہش ہے کہ حج کا سرکاری کوٹا ختم کیا جائے اور نجی ٹور آپریٹرز کو منتقل کردیا جائے۔واضح رہے کہ جو ملک حاجیوں اور معتمرین کی تعداد کے اعتبار سے پہلے اور دوسرے نمبر پر رہتا ہو اور جس کی وجہ سے سعودی عرب کی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ ہوتا ہو وہ اپنی شرائط اور ضرورت کی بنیاد پر اپنے حاجیوں اور معتمرین کو سہولتیں فراہم کرنے کیلئے رعایتیں حاصل کرتا ہے لیکن یہاں معاملہ ہی الٹا ہے۔اور یہ بھی فرمایا کہ مدینے کی ریاست میں حج اور عمرہ مفت نہیں ہوتا تھا۔ ذرا وہ بتائیں کہ مدینے کی ریاست میں داخلے اور حج اور عمرے کے لیے ویزا فیس کون سے خلیفہ یا کس سلطان کے دور میں شروع کی گئی تھی۔

دنیا بھر سے کسی ویزے کی اجازت نامے کے بغیر حجاج آتے تھے۔ حکام تو ان کیلئے سہولتیں فراہم کرتے تھے۔سب سے بڑی خدمت تو حاجیوں کو پانی پلانا تھا۔ ۔موجودہ ریاست مدینہ کے دعویدار کبھی مدینے کی اصل ریاستوں کا حال تو پڑھ لیں اسی مدینے کی ریاست میں بچے کی پیدائش کی اطلاع کے ساتھ ہی اس کا وظیفہ مقرر ہوجاتا تھا جس کے نعرے پر حکومت اقتدار میں آئی ہے۔ کم از کم ریاست مدینہ کی بے حرمتی تو نہ کی جائے۔ لاکھوں عازمین حج جو پرانے پاکستان میں صاحبِ استطاعت افراد کی فہرست میں شامل تھے، ریاست مدینہ کے نام لیوا کی غریب کش پالیسیوں نے ان سے استطاعت چھین لی، معاشی استحصال کرنے والوں نے سبسڈی کے نام پر عوام کوخوب دھوکہ دیا ہے۔ آٹے، دال اور چینی پر سبسڈی کی خیرات دے کر احسان جتلایا جاتا ہے۔حج سبسڈی کے نام پر بھی عوام سے یہی کھلواڑ ہوتا رہا ہے۔ تحریک انصاف اپوزیشن میں رہتے ہوئے کرپشن کے خلاف آواز اٹھاتی رہی ہے حاجیوں کو ہر سال لوٹا جاتا ہے۔ اضافے کو غیر موثر کرکے عوام کو ریلیف دیا جا سکتا ہے۔

سعودی عرب کی جانب سے کمبائنڈحج ڈیوز(CHD)کی مد میں فی حاجی 1210ریال وصول کئے جاتے تھے جو اب 1756ریال ہو گئے ہیں۔ اس کے علاوہ حاجیوں کے قیام و طعام کے اخراجات پر 10فیصد ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔ ہوٹل کے اخراجات پر اب پانچ فیصد ویلیو ایڈڈ ٹیکس ”واٹ” اور پانچ فیصد میونسپلٹی ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔ اگر سعودی فرمانروائوں سے اْدھار تیل لینے کے لئے درخواست کی جا سکتی ہے تو ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی پاکستان آمد پر یہ گزارش بھی کی جا سکتی ہے کہ پاکستانی عازمین حج کو اس اضافے سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔ اگر پی آئی اے حج آپریشن کے نام پر ٹکٹ کی رقم نہ بڑھائے اور حاجیوں سے وہی رقم وصول کی جائے جو عمرہ زائرین سے لی جاتی ہے تو بھی حج اخراجات میں خاطر خواہ کمی ہو سکتی ہے۔

عوام کو سبسڈی کے نام پر دھوکہ نہیں چاہئے بلکہ انہیں صارف کی حیثیت سے ان کا جائز حق دیا جائے اور لوٹ مار سے بچایا جائے۔ جبکہ مذہبی حلقوں اور حج سے متعلقہ تنظیموں نے ایک بار پھر وزیر اعظم عمران خان سے اپیل کی ہے کہ وہ فوری مداخلت کریں اور وزارتِ خزانہ کو سبسڈی کے لئے ہدایات جاری کریں سبسڈی نہ دینے کی صورت میں متوقع حج واجبات متوسط طبقے کی عوام کی پہنچ سے باہر ہو جائیں گے عوام میں تحریک انصاف کی حکومت کا منفی تاثر اْبھرے گا۔ موجودہ حکومت حج واجبات میں اضافہ کرر ہی ہے جو غریب غازمین حج کے بس کی بات نہیں لہٰذا امسال بھی سرکاری حج سکیم کے تحت حج واجبات میں اضافہ کرنے کی بجائے سابقہ واجبات حج کو بر قرار رکھا جائے یہ ایک مذہبی فریضہ ہے تاکہ کم خرچ پر مسلمان یہ مذہبی فریضہ ادا کر سکے۔

وفاقی وزیر پیر نور الحق قادری نے مزید کہا کہ سعودی عرب میں نئے ٹیکسز کے نفاذ، پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے حج اخراجات بڑھتے جا رہے ہیں، خواہش ہے کہ سستا حج کروا سکیں لیکن اخراجات کی وجہ سے ایسا کرنا ممکن نہیں۔ انہوں نے حج مہنگا اور کرتار پور سستا کی بات کرنے والوں پر بھی تنقید کی اور وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ حج اور کرتار پور کا موزانہ نہیں کیا جا سکتا ‘ کرتار پور ایک راہ داری ہے جو کہ صرف4 کلو میٹر ہے اور سائیکل کی بجائے پیدل بھی لوگ آتے جاتے ہیں’ جبکہ حج کیلئے 4 ہزار کلو میٹر سے زائد کا طویل سفر طے کرکے وہاں 40 روز قیام و طعام کا اہتمام کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے اخراجات زیادہ ہیں’ انہوں نے حج پالیسی 2020ء کے حوالے سے کہا کہ پالیسی مرتب کرنے کیلئے مشینری جذبے سے کام جاری ہے اور جلد ہی پالیسی کا اعلان کر دیا جائے گا۔

Haji Mohammad Latif Khokhar

Haji Mohammad Latif Khokhar

تحریر : حاجی محمد لطیف کھوکھر