کوئی طبیب ہم سے بلایا نہ جائے گا

Poetry

Poetry

کوئی طبیب ہم سے بلایا نہ جائے گا

ہم سے مرض اب اپنا بتایا نہ جائے گا

کوئی طبیب ہم سے بلایا نہ جائے گا

طوفان کو بتادو چلے دیکھ بھال کر

میرا مکاں اب اس سے گرایا نہ جائے گا

مرنے کے بعد بھی میں تو اک بوجھ ہی رہا

لاشہ مرا یہ تم سے اٹھایا نہ جائے گا

سب کچھ ہی ہم کہیں گے سرِ عام اب یہاں

اب تم سے اپنا چہرہ چھپایا نہ جائے گا

اِس کو لکھا ہے اپنے لہو کی دوات سے

یہ نام میرے دل سے مٹایا نہ جائے گا

ہم نے جلایا ہے جو محبت کا اک دَیا

طوفان سے بھی اب یہ بجھایا نہ جائے گا

چپ ہی رہو اب ارشیؔ یہ محفل انہیں کی ہے

تم سے تو اب یہ قصّہ سنایا نہ جائے گا

ایسا لگا ہے زخم دکھایا نہ جائے گا

اس بے وفا کا چہرہ بھلایا نہ جائے گا

لکھا ہوا ہے ساقی نے اپنی دکان پر

کم ظرف کو یاں جام پلایا نہ جائے گا

بیٹھے ہوئے ہیں غیر کے پہلو میں اس طرح

نظروں کو ان سے اب تو ملایا نہ جائے گا

کچھ ہم ہی جانتے ہیں جو ہم پر گذر گئی

حالِ دن اپنا ہم سے سنایا نہ جائے گا

ہم تو مریضِ عشق ہیں دے دیں گے جان بھی

کوئی طبیب ہم سے بلایا نہ جائے گا

کب تک رہو گے چپ ذرا تم غور تو کرو

ہم سے تو یہ وطن یوں لٹایا نہ جائے گا

ارشیؔ ذرا اٹھو چلو اب ہم ہی کچھ کریں

ان سے وطن کا بوجھ اٹھایا نہ جائے گا