سپریم کورٹ نے فائز عیسیٰ کی اہلیہ کو وڈیو لنک پر بیان دینے کی اجازت دیدی

Supreme Court

Supreme Court

اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کو وڈیو لنک کے ذریعے بیان دینے کی اجازت دیدی۔

سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس سے متعلق کیس کی سماعت شروع جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی فل کورٹ کر رہا ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ہم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کے گھر پر ویڈیو لنک کے انتظامات کرا رہے ہیں، دوپہرکو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کا بیان لیں گے، ہماری درخواست ہے کہ جج صاحب کہ اہلیہ مختصر بات کریں۔

انہوں نے مزید کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ ہمارے لیے قابل احترام ہیں، ویڈیو لنک کے ذریعے بیان دیتے وقت مناسب الفاظ کا استعمال کریں، جج صاحب کی اہلیہ عدالتی ڈیکورم کا خیال رکھیں، جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی اہلیہ ہمارے سامنے فریق نہیں ہے۔

فروغ نسیم نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ بدنیتی پر فائنڈنگ دینے پرکونسل کے سامنے کوئی چیز مانع نہیں، جوڈیشل کونسل بدنیتی کے ساتھ نیک نیتی کا بھی جائزہ لے سکتی ہے، جوڈیشل کونسل کے سامنے تمام فریقین ایک جیسے ہوتے ہیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدلیہ پر چیک موجود ہے، کسی جگہ بدنیتی ہو تو عدالت جائزہ لینے کے لیے بااختیار ہے، عدالت اپنے اختیارات پر سمجھوتہ نہیں کرے گی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا عدالت اورکونسل کے بدنیتی کے تعین کے نتائج ایک جیسے ہوں گے؟

بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ کونسل بدنیتی پر آبزرویشن دے سکتی ہے، عدالت کو بدنیتی پر فائنڈنگ دینے کا اختیار ہے۔

جسٹس مقبول باقر نے استفسار کیا کہ کیا کونسل صدرمملکت کے کنڈکٹ کا جائزہ لے سکتی ہے؟ جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ کونسل کسی کے کنڈکٹ کا بھی جائزہ لے سکتی ہے، کونسل کے پاس ہر اتھارٹی ہے۔

جسٹس سجادعلی شاہ نے پوچھا کہ کیا عدالت عظمیٰ کے بدنیتی کے معاملے کا جائزہ لینے میں کوئی رکاوٹ ہے؟ جس پر حکومتی وکیل نے کہا کہ عدالت عظمیٰ کے راستے میں بدنیتی کا جائزہ لینے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔

فروغ نسیم نے کہا کہ شوکاز نوٹس میں 3 نکتے جوڈیشل کونسل نے شامل کیے، جوڈیشل کونسل نے ریفرنس کا جائزہ لیکر الزام کے تین نکات نکالے، عدلیہ کو شوکاز نوٹس کے مواد کو بھی دیکھنا ہوتا ہے۔

جسٹس عمرعطا بندیال نے استفسار کیا کہ اس دلیل کی سپورٹ میں آرمی چیف کیس کا حوالہ کیوں دیا؟ جس پر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ آرمی چیف کا مقدمہ درخواست واپس لینے کی استدعا کے باوجود بھی چلا۔

جسٹس عمرعطابندیال نے ریمارکس دیے کہ یہ آرڈر 23 کا اصول ہے کہ درخواست عدالت کی اجازت کےبغیر نہیں لی جا سکتی، کیا ریفرنس کالعدم ہوجائے تو پھر بھی اپنی جگہ زندہ رہے گا؟

فروغ نسیم نے کہا کہ میری بصیرت کےمطابق یہی دلیل ہے کہ ریفرنس کے بعد بھی شوکاز ختم نہیں ہوتا، سپریم کورٹ نے ازخودنوٹس کا حکم پاس نہیں کیا لیکن آرمی چیف کا مقدمہ چلا۔

انہوں نے کہا کہ جوڈیشل کونسل تمام 28 سوالات پر آبزرویشن دینے کی مجاز ہے، صدر مملکت کی رائے کا کونسل جائزہ لے سکتی ہے، صدر مملکت کی رائے کسی عدالت میں چیلنج نہیں ہوتی۔

جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ اعتراض یہ ہے کہ ریفرنس میں قانونی نقائص اور بدنیتی ہے، جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ قانون کہتا ہے کہ کم معیار کے ساتھ بھی کام چلایا جا سکتا ہے۔

جسٹس عمرعطابندیال نے کہا کہ آپ کے مطابق عدالت عظمیٰ کے جج کے ساتھ کم معیار کے ساتھ کام چلایا جائے، جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ آرٹیکل 209 میں شاہد کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ جج کو ہٹانے کی کارروائی میں شواہد کامعیار دیوانی مقدمات جیسا نہیں ہونا چاہیے، جج کے خلاف مس کنڈکٹ کی کارروائی کے لیے ٹھوس شواہد ہونے چاہئیں۔

انہوں نے حکومتی وکیل سے کہا کہ برائے مہربانی مثال دیتے ہوئے احتیاط کریں، عدالت یہاں آئینی معاملے کا جائزہ لے رہی ہے۔

فروغ نسیم نے کہا کہ کونسل نے بھی اپنا مائنڈ اپلائی کر کے شوکاز نوٹس کیا، جج نےتحریری جواب دیکر جوڈیشل کونسل کے سامنے سرنڈر کر دیا، ریفرنس کےمعاملے پر صدر کے بعد جوڈیشل کونسل اپنا ذہن اپلائی کرتی ہے، کونسل شوکاز نوٹس کرنے سے پہلے اور بعد میں بھی ریفرنس کا جائزہ لیتی ہے۔