سید منور حسن کی عملی سیاست کی کچھ یادیں

Syed Munawar Hassan

Syed Munawar Hassan

تحریر : میر افسر امان

سید منور حسن پہلے اسلام مخالف گروپ کی سیاست میں تھے۔ وہاں نام اور کام میں شہرت حاصل کی۔ پھر جماعت اسلامی کی طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ میں شریک ہوئے۔ جہاں بھی کام اور نام میں عروج پر پہنچے۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے پہلے کارکن پھر کراچی کے ناظم اور آخر میں پورے پاکستان کے ناظم اعلیٰ بنے۔ کیسی صحیح ترین بات ہے کہ بہادر بہادر ہی ہوتا ہے ۔ چاہے وہ کسی بھی کیمپ میں ہو۔جماعت اسلامی میں شمولیت کے بعد حلقہ کراچی جماعت کے سیکر ٹیری رہے۔ پھر حلقہ کراچی جماعت اسلامی کے امیر بنے۔ ہم ان ہی دنوں کی یادشتوں پرسید منور حسن کے متعلق کچھ بیان کریں گے۔

قاضی حسین احمد امیر جماعت اسلامی پاکستان کے ساتھ سید منور حسن نے ایک لمبا عرصہ سیکر ٹیری جرنل رہے ۔ قاضی حسین احمد صاحب کے بعد جماعت اسلامی پاکستان کے امیر رہے ۔ سید منور حسن جہاں بھی رہے روشن چراغ کی طرح روشن رہے۔ ١٩٧٧ء کے قومی انتخابات جماعت اسلامی نے دس سے زیادہ سیٹیں جیتی تھیں۔ اس میں سیدمنور حسن صاحب نے پورے پاکستان میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کا اعزاز بھی قائم کیا تھا۔ ہم کارکن اُس زمانے میں ”صبح منور شام منور۔ روشن تیرا نام منور” کے سلوگن لگایا کرتے تھے۔ واقعی ہی سید منور حسن روش ستارہ تھے جو اب ہم میں نہیں ہیں۔روشن ستارے کی ماند ہی آپنے رب کے حضور چلے گئے۔ جو روح بھی اس دنیا میں آئی ہے اسے واپس اپنے رب کے پاس ہی جانا ہے۔اے نفس مطمئنہ چل ا پنے رب کے پاس والی بات ہے۔

پاکستان سے محبت کرنے والے اورسید منور حسن کے ہم وطن دہلی شہر کے باسی شہید حکیم محمد سعید جو پاکستان کی محبت میں ہمیشہ ١٤ اگست کی بجائے یوم پاکستان ٢٧ رمضان المبارک کومنایا کرتے تھے ،نے کسی موقعہ پر ایک تقریب میں فرمایا تھا کہ اے پاکستانیوں ،اللہ نے تمھیں ایٹم بم تشری میں رکھ کر پیش کردیا ہے۔ اب یہ تمھارا ظرف ہے کہ تم اس عصا موسوی کو کس طرح استعما ل کرتے ہو۔ ان کا اشارہ مسلم ریاست قزقستان کے طرف تھا ۔ قازقستان رشیا کی سب سے بڑی ایٹم بم رکھنے والی اسلامی ریاست تھی۔ افغانستان میں ریشیا کی شکست کے بعد آزاد ہوئی تھی۔ وسط ایشیا کو سمندر سے ملانے والی کراچی کی بندرگاہ اور عصا موسوی سے گریٹ گیم کے اہل کاروں امریکا، اسرائیل اور بھارت نے پاکستان کو فائدہ نہیں اُٹھانے دیا۔ کراچی میں مصنوعی مہاجر قومیت کے نام دہشت گرد الطاف حسین کو سامنے لائے ۔

الطاف حسین نے پاکستان کو ستر فیصد ریوینیو دینے والے کراچی شہر،جو وسط ایشیا کو ملانے والی بند گاہ اور ترقی کی نئی رائیںکھولتی، کو تیس سال تک قبضہ کر کے اسے تباہ برباد کر دیا۔یہ منور حسن تھے۔ جو مہاجر ہوتے ہوئے بھی دہشت گرد الطاف حسین کے سامنے عصا موسوی کی شکل میں ڈٹ گئے۔ ایک ظلم و ستم کی لمبی داستان ہے جس کا میں چشم دید گواہ ہوں۔یہ اس زمانے کی بات ہے کہ جب الطاف حسین فوج کی حمایت اور سندھ کے وزیر اعلی ٰغوث علی شاہ کی سرپرستی میں کراچی بلکہ پورے سندھ میںخون کی ہولی کھیل رہا تھا۔ میں نے خود دیواروں پر پنٹینگ دیکھی تھی۔ مہاجر کارکن ہاتھ میں بندق پکڑے ہوئے ہے۔ ایک طرف کٹا ہوا انسانی سر پڑا ہے۔نیچے لکھا ہوا ہے حقوق یا موت۔ یہ الطاف حسین کی اس ہدایت کے بعد ہواجب اس نے ایم کیو ایم کے مہاجروںکو ہدایت دی تھیں کہ وی سی آر اور فریج فروخت کر کے اسلحہ خریدو۔ اُس زمانے میں ساری سیاسی دینی جماعتیں دبھک کر گھروں میںبیٹھ گئیں تھیں۔ صرف سید منور حسن امیر جماعت اسلامی کراچی نے بھارتی ایجنٹ دہشت گرد فاشسٹ الطاف حسین کے سامنے آگے بڑھ کر بند باندھا تھا۔ سید اسلا م الدین صاحب جو اُس وقت کراچی ضلع جنوبی کے ایک حلقہ وسطی کے امیر ہوا کرتے تھے۔ میں ان کے گھر واقعہ شاہرہ قائدین میں بیٹھا تھا۔ ان سے ایم کیو ایم کے بارے میں سوال کر رہا تھا۔ میں نے ان سے سوال کیا ۔ ہم پہلے جی ایم سید اور ولی خان اور دوسرے قوم پرستوں کی سیاست کی مخالفت کرتے تھے۔ اب ہم ایم کیو ایم کے خلاف ہو گئے ہیں۔ کیا ہمارایہی کام ہے کہ ہر کسی سے لڑتے رہیں۔ انہوں نے مجھے جواب دیا۔ ہم کسی کے بھی مخالف نہیں ۔ صرف ان کے پاکستان مخالف نظریات کے مخالف ہیں۔ ایم کیو ایم بھی پاکستان مخالف ایجنڈہ لے کر سامنے آئی ہے اس لیے ہم اس کے مخالف ہیں۔

واحد سیدمنور حسن ہیں کہ جس نے ایم کیو ایم کو ٹف ٹائم دیا۔ شہر کراچی میں ملین مارچ کیے۔ ان ملین مارچ میںخواتین ،مرد، بچے، بوڑھے جوان شریک ہوا کرتے تھے۔ان ملین مارچ کا مقبول نعرہ ہوتا تھا۔ بھارت کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے۔ امریکا کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے۔ سیدمنور حسن اپنے مدلل تقاریر میں الطاف حسین کو چلینج کیا کرتے تھے۔سید منور حسن کی تقریر سن کر کارکنوں کا جذبہ بڑھتا تھا۔ جب قاضی حسین احمد قافلہ دعوت و محبت لے کر کراچی پہنچے۔ ناظم آباد میں جلسہ عام منعقد ہوا۔ قاضی حسین احمد نے

٢
الطاف حسین کو للکار کر کہا، کہ میں جماعت اسلامی کے دشمن جیے سندھ کے قوم پرست آریسر کے علاقے سے ہو کر کراچی آیا ہوں۔ الطاف حسین بند گلی کی سیاست سے باہر نکلو ۔ کلاشکوف کی باڑ سے باہر آئو۔ الطاف حسین میں آپ کو دعوت دیتا ہوں ۔ آپ بھی پشاور آکر اپنا جلسہ کرو اپنا نکتہ نظر بیان کرو۔تم مسلم لیگیوں کی اُولاد ہو۔ہم آپ کی حفاظت کی ذمہ داری لیتے ہیں۔ مگر اس کے جواب میں دہشت گردلطاف حسین نے اس قافلہ پر شہر میں محصوم بچوں سے پتھرائو کرایا گیا تھا۔ میںنے یہ نظارا اُس وقت دیکھا جب میں وعوت و محبت قافلے کو کوئٹہ جانے کے الواع کرنے والے جلوس میں شامل تھا۔

کراچی میں الطاف حسین نے اخبارات پر کنٹرل حاصل کر لیا تھا۔ اس کے حکم سے اخبارات سرخیاں لگتی تھیں۔ شہر میںاخبارات کا بایئکاٹ کیاجاتا۔ ایم کیو ایم کے غنڈے حاکروں سے اخبارت کے بنڈل چھین کر سرے عام آگ لگا دیتے۔ سید منور حسن کا مؤقف تھا کہ اخبارات کا کام سارے سیاسی جماعتوں کی خبریں لگانا ہوتا ہے۔ خاص کر جنگ اخبار تو ایم کیو ایم کا اخبار بن گیا۔جنگ اخبار جماعت اسلامی کے بڑے بڑے ملین مارچ کی خبریں شائع نہیں کرتا تھا۔ سیدمنور حسن نے اعلان کیا کہ اس نا انصافی کے خلاف جنگ اخبار کے دفترواقع میکلوڈ روڈ پر مظاہرہ کرنا ہے۔ کارکن جنگ اخبار کے سامنے جمع ہو گئے۔سید منور حسن ایک سوزکی پر سوار جنگ اخبار کے ایڈیٹر کو مخاطب کر کے کہا کہ اس وقت تک یہ مظاہرہ ختم نہیں کریں گے ۔ جب تک جنگ کے ایڈیٹر باہر آ کر عوام سے نہ وعدہ کریں کہ وہ سب کی خبریں لگایا کریں گے۔ کافی دیر تک ایڈیٹر جب باہر عوام کے سامنے نہیں آیا۔ ہم جنگ اخبارکے خلاف نعرہ بازی کرتے رہے۔ کچھ کارکنوں نے تنگ آکر جنگ اخبار کے دفتر پر پتھر مارنے شروع کیے ۔جب بلڈنگ کے کچھ شیشے ٹوٹے تو ایڈیٹر صاحب باہر تشریف لائے۔ کارکنوں سے وعدہ کیا کہ جماعت اسلامی کے جلسوں کی بھی خبریں بھی لگائے گا۔ایڈیٹر کے وعدے پر سید منور حسن نے احتجاجی مظاہرہ ختم کیا۔

ایم کیو ایم نے شہر کے تعلیمی اداروں میں اسلامی جمعیت کے کارکنوں پر ظلم و ستم توڑنا شروع کیا۔ ہزاروں کارکنوں کو زخمی کیا۔ صرف کراچی ضلع جنوبی کے ایک احتجاجی جلسہ میں درجوں کا رکنوں کو پیش کیا گیا۔ کسی کا سر پھٹا ہوا ہے۔ کسی کی ٹانگ ٹوٹی ہوئی ہے۔ کسی کا بازو ٹوٹا ہوا ہے اور بہت سوں کے جسموں پر زخموں کے نشان تھے۔ سید منور حسن اس ظلم کو بند کرانے کے لیے اُس وقت کے فرعون الطاف حسین کے دفتر عزیز آباد ٩٠ گئے۔ اورکہا کہ ہم نے آپ کی سیاسی آپ جیت مان لی۔پھر یہ ظلم و ستم کی چکی کیوں چلائی جا رہی ہے۔ سارے شہر کے تعلیم اداروں میں اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکنوں پر ظلم و ستم کیا جارہا ہے۔وقت کے فرعون نے کہا کہ اب آپ گھر بیٹھ جائیں۔مگر سید منور حسن نے کہا ہم نے نظریات میں تو ہار نہیں مانی ہے ۔ وہ الطاف حسین کے قومیت کے بت کا سامنے سینا تان کے گھڑے رہے۔ ایک ہی دن جماعت اسلامی کے نصف درجن کارکنوں کو شہید کیا۔ ہم صبح کسی ایک علاقہ میں کسی مظلوم کارکن کی نماز جنازہ میں شریک ہوئے۔

دوپہر کو کسی دوسرے اور رات گئے کسی تیسرے کارکن کاجنازے میں شریک ہوئے۔ قاضی حسین احمد صاحب نے یہ سارے جنازے خود پڑھائے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے ۔ آخر میں ایک کارکن کا جنازہ دہشت گرد الطاف حسین گھر کے بل لکل سامنے عزیر آباد گرائونڈ میں قاضی حسین احمد نے پڑھایا تھا۔قاضی حسین احمد صاحب نے دعا کرتے ہوئے کہا تھا کہ اے اللہ آپ نے کسی کو بھی بد دعا دینے سے منع کیا ہے۔ مگر اس ظالم نے جماعت اسلامی کے کارکنوں پر ظلم کے انتہا کر دی ہے۔ تو مظلوم کی فریاد سنتا ہے۔ تو ہی ان مظلوم کا بدلہ ظالموں سے لے۔ اس کے بعد ایم کیوایم میں اختلاف پیدا ہوئے ۔ا یجنسیوں نے بھی آفاق اور عامر کو اطاف حسین سے علیحدہ کروا دیا۔ الطاف حسین کے لالوکھیت چوک پر نصب پورٹریٹ کے گلے میں جوتوں کے ہار ڈ ال دیے۔چہرے پر پان کی پھینکیں،پھینک دی گئیں۔ شہر میں الطاف حسین را کے ایجنٹ کے بینرز لگا دیے گئے۔ آفاق اورعامر کے لانڈھی کے وائٹ ہاوس ہیڈ کواٹر اور الطاف حسین ٩٠ کے کارکنوں میں لڑائی شروع ہوئی ۔سیکڑوں بے گناہ مہاجروں کو تہ تیغ کر دیا گیا۔ الطاف حسین کا گراف گرنے لگا۔ کئی علاقوں پر مہاجر قومی موومنٹ کے کارکنوں نے ذبردستی قبضہ کر لیا۔

صاحبو! ظلم کی ایک لمبی داستان ہے جس کو سید منور حسن نے برداشت کیا۔ کس کس کو بیان کیا جائے۔ سیدمنور حسن سرخ رو ہوئے۔ الطاف حسین کو اللہ نے نشان عبرت بنا دیا۔ اب ہندو مذہب اختیار کرنے کی باتیں کرتا ہے ۔ مودی سے پناہ مانگ رہا ہے۔اس کے پرانی ساتھی وعدہ معاف گواہ بنے پر آمادہ ہو گئے ہیں۔ سید منور حسن کہا کرتے تھے ۔ظلم پھر ظلم ہے۔ بڑھتا تو مٹ جاتا ہے۔ واقعی ظلم مٹ گیا۔ اے اللہ تو سید منور حسن کی قربانیاں قبول فرما کر اُسے اپنی جنت فردوس میںجگہ دے آمین۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر : میر افسر امان