شام کا اسرائیلی میزائل حملہ ناکام بنانے کا دعوی

Israeli Missile Attack in Syria

Israeli Missile Attack in Syria

شام (اصل میڈیا ڈیسک) شامی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے ان بیشتر اسرائیلی میزائلوں کو مار گرایا جو گولان کی پہاڑیوں کی طرف سے اس پر فائر کیے گئے تھے۔

شام کے سرکاری میڈیا کا دعوی ہے کہ اس نے اتوار 28 فروری کی شب دمشق پر اسرائیل کی جانب سے کئے گئے میزائل حملے کو نا کام بنا دیا۔

شام کی سرکاری میڈیا ایس اے این اے نے ایک فوجی عہدیدار کے حوالے سے بتایا، ”مقامی وقت کے مطابق رات دس بجکر 16 منٹ پر دشمن اسرائیل نے مقبوضہ شامی گولان پہاڑیوں کی جانب سے دمشق کے بعض علاقوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی۔”

دفاعی ذرائع کے مطابق، ”ہمارے فضائی دفاعی نظام نے ان میزائیلوں کا مقابلہ کیا اور ان میں سے بیشتر کو مار گرایا۔” ان حملوں میں ہلاکتوں یا پھر دیگر نقصان سے متعلق فوری طور پر کوئی اطلاع نہیں مل سکی۔

سن 2011 میں خانہ جنگی کی شروعات کے بعد سے ہی اسرائیل شام میں موجود ایران سے وابستہ تنصیبات، جنگجووں اور لبنان کے حزب اللہ گروپوں کو مسلسل نشانہ بناتا رہا ہے۔

شام میں انسانی حقوق پر نظر رکھنے والی برطانیہ میں موجود تنظیم ‘سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس’ کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حملے میں جنوبی دمشق کا اس علاقے کو نشانہ بنایا گیا جہاں پر ایرانی پاسداران انقلاب اور حزب اللہ کے جنگجو موجود تھے۔

ادھر ایک اسرائیلی فوجی ترجمان سے جب اس بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں اس پر کچھ بھی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔

اسرائیل کے سرکاری نشریاتی ادارے کان نے اطلاع دی ہے کہ اس ہفتے کے اوائل میں خلیج عمان میں ایک اسرائیلی جہاز پر مبینہ ایرانی حملے پر تبادلہ خیال کے لیے ملک کے اعلی سکیورٹی حکام نے اتوار کی شام کو میٹنگ کی۔

اسرائیلی وزیر دفاع بینی گانٹز نے سنیچر کے روز کہا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ ایم وی ہیلیوس رے نامی جہاز، جو سعودی عرب کی دمام بندرگاہ سے سنگار پور کے لیے جا رہا تھا، پر ہونے والے دھماکے میں ایران کا ہاتھ ہے۔

گانٹز نے جمعے کے روز ایک پریس بریفنگ کے دوران اپنے پارٹی کے حامیوں سے کہا تھا کہ اسرائیل شام میں ایرانی مداخلت کو روکنے کے لیے ”تقریبا ہر ہفتے” کارروائی کر رہا ہے۔ حالانکہ انہوں نے اس بارے میں کوئی تفصیلات نہیں بتائیں تاہم ان کا اتنا سا بیان ہی اس بات کا اعتراف ہے کہ اسرائیل نے شام میں کارروائی کی ہے۔

افغانستان نے اسرائیل کے قیام سے لے کر اب تک نہ تو اسرائیل کو تسلیم کیا ہے اور نہ ہی دونوں ممالک کے مابین سفارتی تعلقات ہیں۔ سن 2005 میں اُس وقت کے افغان صدر حامد کرزئی نے عندیہ دیا تھا کہ اگر الگ فلسطینی ریاست بننے کا عمل شروع ہو جائے تو اس کے بعد اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ممکن ہیں۔

اسرائیل کے لیے شام میں ایران کی موجودگی سرخ لکیر ہے اور شام میں ایرانی حمایت یافتہ فورسز کو پیر جمانے سے روکنے کے لیے وہ کارروائیاں بھی کرتا رہا ہے۔ مغربی ممالک کی انٹیلیجنس ایجنسیز کے ذرائع اسے ایران کے اثر و رسوخ کم کرنے کی درپردہ جنگ بتاتے ہیں۔

اتوار کے روز شام پر اسرائیل کے میزائل حملے ایک ایسے وقت ہوئے ہیں جب گزشتہ جمعرات کو ہی امریکا نے بھی شام میں ایرانی حمایت یافتہ عراقی جنگجووں پر فضائی حملہ کیا تھا۔ پینٹا گون کا کہنا ہے کہ اس نے یہ حملے عراق میں امریکی ٹھکانوں پر حملوں کے جواب میں کیا تھا۔