تحریر: سیدّ تابش زیدی ابو الفطرت میرزیدی دنیائے شعر وادب کی جانی پہچانی شخصیت تقسیم سے پہلے ہی میر صاحب کی قدررت کلام اور قوت سخنوی کا سکہ دنیائے ادب پر بیٹھ گیا تھا۔آپ کا پورا

کیسی تاویل مِرے دوست، بہانہ کیسا زخم جاگیرِ محبت ہیں، چُھپانا کیسا حدتِ لمس سے جلتا ہے بدن جلنے دو پہلوئے یار میں دامن کو بچانا کیسا شعر در شعر ٹپکتا ہے قلم سے میرے ڈھونڈ

تحریر : ایم سرور صدیقی اس نے کہا عجیب شعر ہے مجھ کوڈرہے چاندپر بھی آدمی منتقل ہو جائے گا طبقوں سمیت میںنے کہا ایساہونا عین ممکن ہے۔۔۔اس معاشرہ میں قدم قدم پر طبقاتی سٹیٹس موجودہے

تحریر: ایم سرور صدیقی میں نے کہا ایسا ہونا عین ممکن ہے۔۔۔اس معاشرہ میں قدم قدم پر طبقاتی سٹیٹس موجود ہے جس سے اب چھٹکارا پانا محال ہے اس نے کہا۔۔۔۔ نہیں یار کیسی بات کر

جب بھی کسی قبرستان جانے کا اتفاق ہوا شدیدحیرت میں گم ہوگیا ہوں کہ مرنے کے بعد بھی سٹیٹس انسان کا پیچھا کرتا رہتاہے ۔۔۔۔امیری ،غریبی اور طبقاتی تضاد اس جگہ بھی نمایاں ہے جہاں مٹی

وہ کانچ جیسے بدن کی گرمی وہ اُسکے لمس کی حرارتیں مجھے یاد ہیں اب بھی تمام وہ پچھلے برس کی شرارتیں تمہیں وہ منزلیں بھی بے نشاں اور راستے تھے بے بہا انہیں راستوں میں

اپنی تنہائی کے قصے ہیں آنسو گہرائی کے قصے ہیں راکھ سے پروانے کی عیاں شمع ہرجائی کے قصے ہیں میرے گھر سے اُسکے گھر تک اک سودائی کے قصے ہیں جواں سلگتی راتوں میں کچھ

پھر حریفِ بہار ہو بیٹھے جانے کس کس کو آج رو بیٹھے تھی، مگر اتنی رائیگاں بھی نہ تھی آج کچھ زندگی سے کھو بیٹھے تیرے در تک پہنچ کے لوٹ آئے عشق کی آبرو ڈبو