طالبان، پاکستان، امریکہ کی جنگ

Devil

Devil

حضرت امام فخر الدین رازی ایک معروف عالم دین گذرے ہیں۔ توحید ،اسلام اور دین کو سمجھنے کے لیئے انہوں نے تمام عمر صرف کر دی رازی صاحب سے ایک روایت منسوب ہے کہ جب ان کا آخری وقت آیا تو شیطان ان کے سامنے ظاہر ہوا اور بولا ” مولوی صاحب ! تم نے تمام عمر دین کی خوشہ چینی میں گزار دی ، زرا یہ تو بتائو کہ تم نے کیا سیکھا ؟”امام صاحب نے بمشکل پوچھا ” تمھارا اشارہ کس طرف ہے۔” اس نے کہا بتائو تم نے اللہ کو کس فلسفیانہ دلیل سے جانا پہچانا؟۔” امام صاحب نے ایک فلسفیانہ جواز پیش کر دیا۔شیطان نے اس سے بھی بھاری جواز پیش کر کے اس بات کو غلط ثابت کر دیا ۔امام صاحب نے اللہ کی معبودیت کے ثبوت کے لیے دوسری علمی دلیل پیش کی لیکن شیطان نے بڑی چالاکی سے اسے بھی ردّ کر دیا امام صاحب اپنے علمی تجربے کی بنیاد پر دلیلیں پیش کرتے رہے اور شیطان اپنے جواز پیش کر کے ایک ایک کر کے سب کو ردّ کرتا رہا …….یہاں تک کہا جاتا ہے کہ رازی صاحب نے ایک سو ایک دلیلیں دین مگر شیطان نے ان سب کو غلط ثابت کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی تاویل پیش کر دی ……… امام صاحب پریشان ہو گئے۔ان کے ذہن میں شک کے بادل اُٹھنے لگے ۔مشہور ہے کہ عین اسی وقت رازی صاحب کے روحانی استاد کسی دور دراز مقام پر بدنے(مٹی کے لوٹے ) سے وضو کر رہے تھے۔

باطنی نگاہ سے اپنے شاگرد کی یہ حالت دیکھی تو جلال میں آ گئے بدنا پھینک کر امام صاحب کو مخاطب کیا ” اس مردود سے کہہ دے میں نے اللہ کو بغیر کسی دلیل کے تسلیم کیا ہے۔”یوں امام صاحب یہ بات کہہ کر شیطانی وسوسوں سے بچ سکے اور ایمان کی سلامتی کے ساتھ اپنی جان جان آفریں کے سپرد کی ۔سوال یہ ہے کہ شیطان تو بخوبی جانتا ہے کہ اللہ موجود ہے۔قران مجید کے مطابق شیطان نے تو اللہ سے بذات خود قیامت تک کے لییلوگوں کو بہکانے اور امتحان میں ڈلنے کی مہلت مانگ لی ہے پھر اس نے امام صاحب کے دلائل کو کیوں ردّ کیا؟……دراصل شیطان کا مقصد انہیں شک میں ڈال کر اللہ تعالےٰ کی ہستی کے متعلق غفلت میں ڈالنا تھا۔اس واقعے سے ذہن یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ کہ کیا ایک واضح اور روشن حقیقت کو بھی جواز اور دلیل سے جھٹلایا جا سکتا ہے۔

جیسا کہ شیطان نے حضرت امام رازی کے ساتھ کیا اور وہ اس کی دلیل کو ردّ کرنے سے بھی قاصر ہو گئے۔اس کا آسان سا جواب ہے کہ جی ہاں!….کسی اچھی بات کو بھی دلیل کے ذریعے غلط ثابت کیا جا سکتا ہے۔ہمارے ہاں نہ جانے کتنے لوگ دانستہ یا نادانستہ طور پر غلط طرز فکر یا خیال پر کسی نہ کسی جواز کے ساتھ قائم نظر آتے ہیں۔باب العلم حضرت علی کا ارشاد گرامی ہے ” بندہ جب برا کام کرتا ہے تو پہلے اس برائی کا جواز بنا لیتا ہے۔

برصغیر میں جرم و بربریت کا نشان سمجھا جانے والا سلطانہ ڈاکو جب گرفتار ہوا تو اس نے بتایا میری مہم جاگیرداروں کے خلاف تھی ۔اور میں لٹیروں سے دولت چھین کر غریبوں میں تقسیم کیا کرتا تھا مکن ہے اس نے ایسا کیا بھی ہو لیکن غیر جانبدار ہو کر بتائیے کہ کیا اس کے اس طرز عمل سے جاگیردارانہ نظام ختم ہو گیا ؟اور کیا غریب عوام کے حالات بدلنے کے لیے سلطانہ ڈاکو کے طریقہ کار کو دنیا کا کوئی بھی قانون یا ضابطہ قابل قبول قرار دے سکتا ہے ؟ نہیں ہر گز نہیں!….. یہ درحقیقت سلطانہ ڈاکو کا حیلہ یا جواز تھا جو یقینا گمراہ کن اور غیر تعمیری تھا ۔اس سے معاشرے میں بہتری نہیں آسکتی بلکہ فتنہ و فساد کی نئی لہر دوڑ سکتی ہے ……لوٹ مار قتل و غارت گری خوف اور دہشت پھیلا کر نہ کبھی فلاح کا راستہ ملا ہے نہ ملے گا ۔یہ ایک ایسا شدید نفسیاتی مرض ہے جس میں مبتلا لوگ نہ صرف خود کو حق بجانب سمجھتے ہیں بلکہ بلکہ توجیہہ کے لیئے تاویلیں بھی گھڑتے رہتے ہیں ۔علامہ اقبال نے کیا خوبصورت شعر لکھا ہے کہ
خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں ،بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جسکو، خدا کے بندوں سے پیار ہو گا

جب ہمارے سامنے ان طالبان کی دہشت و بربریت کے شاہکار آتے ہیں تو ذہن میں کئی سوال اٹھتے ہیں ۔کیا اس ظلم کا ہاتھ روکنے والا کوئی نہیں ؟ قانون ،آئین ،حکومت فوج،ادارے سب بے بس ہیں ؟بے شک ہر ایک کے پاس اپنی بریت کا کوئی نہ کوئی جواز ضرور ہوتا ہے لیکن جس کے ساتھ خلق خدا کی امیدیں وابستہ ہوں وہ اگر ایسے جواز پیش کریں تو مایوسی اور نفرت کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہتا ۔میں نے عمران خان کو ووٹ دیا ۔اس لیئے نہیں کہ عمران خان کوئی گناہ سے پاک ولی تھا صرف اس لیئے کہ میں بھی دوسرے کروڑوں لوگوں کی طرح اس گلے سڑے سسٹم کو تبدیل ہوتے دیکھنے کی خواہش مند تھی ۔میں کسی صورت نون لیگ یا پیپلز پارٹی کو مسند اقتدار پر دیکھنے کی خواہش مند نہیں تھی حالانکہ میں جانتی تھی یہ خواہش پوری ہونا ناممکن ہے۔

Imran Khan

Imran Khan

میں نے اس پر لکھا بھی تھا کہ پھر وہی آ جائیں گے لیکن عمران خان کی وجہ سے ایک موہوم سی امید ضرور تھی کہ شائد ۔۔۔۔۔۔۔۔!شاہ محمود قریشی،اور مخدوم جاویدہاشمی دو ایسے مہرے ہیں جن کی جڑیں نون لیگ میں گہری ہیں ان کے ہوتے ہوئے عمران خان کا سسٹم کی تبدیلی کا نعرہ حیران کن تھا لیکن یہ بھی سیاست کی ایک بڑی خوبی ہے ک انسان بار بار اسی سوراخ سے ڈسا جاتا ہے ۔یہاں میں آپ کو ایک بات بتاتی ہوں۔مخدوم زادہ حسن محمود کی میرے اباجی سے گاڑھی چھنتی تھی وہ انہیں کہتے تھے۔شاہ !تم مریدوں والے ہوسیاست میں آ جائو بچ جائو گے ،ناموری ہے پیسہ ہے،یوں بیٹھ کے کھاتے رہے تو ایک دن سب ختم کر بیٹھوگے۔میرے اباجی کہتے یار! ہمارے اجداد نے انگریزوں کی دی ہوئی جاگیراورگدی چھوڑ کے فقیری اپنا لی تھی ہم انہی کی اولاد ہیں ہم سے جھوٹ کا کاروبار نہیں ہوتا ۔دس روپے سے دس لاکھ بنانا بڑے دل گردے کا کام ہے (اس دور میں لاکھوں ہی کی باتیں ہوتی ہونگی ،اب کروڑوں اربوں میں چلی گئی ہیں )ایک بنیادی سی بات ہے کہ کوئی بغیر پیسے کے ”سیاست سیاست ”نہیں کھیل سکتا۔جو پارٹی ٹکٹ بھی لاکھوں میں خریدتا ہے وہ آگے کروڑوں بنانے کو اپنا حق سمجھتا ہے۔

اور کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے ” ہمارے ملک کی سیاست کا حال مت پوچھو جیسے طوائف گھری ہوئی ہے تماش بینوں میں ” پاکستان کی سیاست عملی طور پر بٹھو کی مرہون منت ہے۔کیونکہ اس سے پہلے سیاست تو ہوگی مگر اس میں یہ تام جھام نہیں تھے یا ہمارے علم میں نہیں ۔۔۔تو اس منحوس نظام کو توڑنے کے لیے ہی عوام نے عمران خان کو ووٹ دیے تھے ۔اس میں نوجوانوں کی کثیر تعداد شامل تھی جن کو اس نظام کی ہولناکیوں کا اندازہ نہ تھا۔میڈیا کی نئی نئی آزادی بھی انہیں مہمیز کر رہی تھی کہ بدل ڈالیں گے اس نظام کو ۔۔۔۔کسی کو اندازہ بھی نہ تھا کہ میڈیا کے میرجعفر ہی ساری کسر نکال دیں گے ۔ پینتیس پنچر کیا لگے ”جیو اور جینے دو” کا سارا فلسفہ ہی تلپٹ ہو گیا ۔حیران کن طور پر پہلے عمران خان نے دھاندلی کا شور مچایا ،دھاندلی ثابت بھی ہوئی لیکن اچانک عمران خان کی ترجیحات تبدیل ہو گئیں۔بنی گالہ اور رائیونڈ کے راستے ایک ہو گئے ،مذاکرات پر بھی دونوں کی رائے ایک ہو گئی ۔اس سے پہلے زرداری پارٹی بھی اندر خانے شریفوں سے یکجان تھی ،اور بڑی خوشی کی بات ہوتی اگر تمام سیاستدان عوام کی بھلائی کے لیے ایک ہو جاتے ۔۔۔۔۔!

لیکن یہ سب ایک تو ہوئے مگر صرف اپنے مفاد کے لیے….کیا ضروری تھا کہ یہ فوج کو کریش کرنے میں سارا وقت اور طاقت صرف کرتے جو زلذلے اور سیلاب سے لیکر تھر کی بھوک تک اپنا راشن بانٹتی ہے۔جو کام پینسٹھ سال میں بھارت نہیں کر سکا وہ کام خواجہ آصف اور خواجہ سعد رفیق چند دنوں میں انجام دینا چاہتے ہیں ۔پھر کہتے ہیں فوج مداخلت کرتی ہے۔سات سالوں میں فوج نے کوئی مداخلت نہیں کی تو پاکستان کس انجام کو آپہنچا ہے۔

12 اکتوبر 1999 کی اس رات میرے جیٹھ کے بیٹے کا ولیمہ تھا۔کوئی دس بجے کے قریب دلہن کے باپ کے پاس کسی کا فون آیا دلہن کا باپ نواز شریف حکومت میں عہدیدار تھا۔ولیمہ بہاولپور میں تھا نوابزادہ نصر اللہ خان ملتان شادی میں تو شریک ہوئے ولیمے میں نہ غالباً فون انہی کا ہو ،کہ آرمی نے ٹیک اوور کر لیا ہے دبی دبی مسکراہٹوں کے ساتھ دلہن کے والد سے افسوس کا اظہار بھی کیا جانے لگا کہ ادھر بیٹی کی رخصتی ہوئی ادھر آپکی ہو گئی لیکن جب ٹی وی کی نشریات بحال ہوئیں تو لوگوں کو مٹھائیاں بانٹتے دیکھا گیا۔

Pervez Musharraf

Pervez Musharraf

ہمیں تو اس بات سے کبھی دلچسپی رہی نہ کہ حکمرانی کون کر رہا ہے۔نہ ہی اگلے روز اخبارات میں چھپنے والی جنرل مشرف کی تصویر نے (جس میں وہ کمانڈو کی وردی پہنے پسٹل ہاتھ میں لیئے کھڑے تھے ) کوئی اچھا اثر ڈالا لیکن بعد میں آنے والے وقت میں انکے عوامی بھلائی کے کاموں نے ان کا اچھا تاثر قائم کرنے میں مدد کی ،اور خاص طور پر نائن الیون کے بعد وہ پاکستان کو مستحکم کرنے میں کامیاب ہو گئے لیکن فوج سرحدوں کی حفاظت کے لیئے ہوتی ہے الیکشن بھی ضروری ہوتے ہیں اس وقت جو لوگ منتخب ہوئے یا جس طرح عدلیہ نے مشرف کے ہر اقدام کو دوام بخشا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔مشرف خود کہا کرتے تھے کہ میں ایسے اقدام کروں گا جن سے آئیندہ کے لیے مارشل لا کا راستہ رک جائے وہ ایک اچھی جمہوریت کے خواہش مند تھے جس میں یہ سسٹم بریک ہو جائے نچلی سطع پہ اختیارات کی منتقلی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔

صرف لاہور کو ترقی دینے کی نجائے پورے ملک میں دو رویہ سڑکیں بنیں ،صاف پانی کے پلانٹس لگے 1122 جیسی مفید سروس شروع ہوئی مانا کہ اس وقت بھی کرپشن ہوئی ہوگی لیکن کسی نے دو روپے کھائے تو ایک روپیہ لگایا بھی ۔۔۔آجکل کی طرح نہیں کہ صرف اپنے پیٹ بھرے جا رہے ہیں اور عوام خود کشیاں کر رہے ہیں۔سیاسی نظام میں بڑی خرابیاں ہیں ،اس میں صرف بڑے ہی نہیں چھوٹے چھوٹے بھی لا تعداد فرعون بن جاتے ہیں۔میرے پاس آجکل جو عورت کام کر رہی ہے اسکی چھ بیٹیاں ہیں ”لبانڑوں” کی بستی جو کہ نون لیگی وزیر کے حلقہ انتخاب میں آتی ہے۔اس بستی کے غریبوں کو دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل ہے کجا کہ وہ بیٹیوں کی شادیوں کا سوچیں ،اس عورت نے مجھے بتایا کہ میرا صرف ایک چھپر ہے جس میں ہم سردیاں گرمیاں گذارتے ہیں لیکن ہمیں کام کرنے کی اجازت نہیں ہمارے وڈیرے کہتے ہیں صرف کھیتوں میں کام کرو ،ہم سارا دن کھیتوں میں کھرپی مارنے کے بعد جب شام کو گھر جا کر مرچوں سے سوکھی روٹی کھاتے ہیں تہ ہمیں رونا آتا ہے تیرے گھر میں پہلی بار سالن چکھا ہے۔

مجھے بڑی حیرت ہوئی میں نے پوچھا تئمہاری اتنی بڑی بیٹیاں ہیں سب مل کے کام کرو تو کئی گھروں سے ہزاروں کما لو جبکہ زیادہ سے زیادہ تین چار گھنٹے میں کام ختم ہو جاتا ہے پانچ ہزار روپے ماہوار اور روٹی ناشتہ چائے ،کپڑے جوتی بھی میں اس کو دیتی ہوں ۔اس کے باوجود بھی وہ سکھی نہیں کہ اتنے جی کھانے والے پھر جوان ہوتی بیٹیوں کی کتنی ضروریات ہوتی ہیں ،مگر ان کے وڈیرے اسکی بیٹیوں کو کام پہ نہیں جانے دیتے اور وہ اکیلی کام کرتے کھپ جاتی ہے ۔میں سمجھی شائد وہ بھی سندھی وڈیروں جیسی کوئی چیز ہونگے ۔لیکن اس کے جواب نے مجھے حیران کر دیا ،کہ وہ حیثیت میں ان سے بس اس قدر بہتر ہیں کہ ان کا مکان پکا ہے ۔میں نے پوچھا پھر وہ تئم لوگوں پر اتنے حاوی کیوں ہیں ؟ کہ تم لوگوں کی زندگی اجیرن کی ہوئی ہے وہ بولی وہ وزیر صاحب کے خدمت گار ہیں اور پورے لبانڑوں کے ووٹ ان کو دلواتے ہیں ۔سو اگر ہم انکی حکم عدولی کریں تو ہم عورتوں کو مار پڑتی ہے بلکہ کوئی بھی الزام لگا کر ناک کان تک کاٹ دیے جاتے ہیں ہمارے مرد اس ظلم پر بولیں تو ان کا حقہ پانی بند کر دیا جاتا ہے اس لیے ہم لوگ مجبور ہیں قارئین !یہ ظلم کی ایک ادنیٰ سی تصویر ہے کہ ان لٹیروں نے اپنی کرپشن اور ایسے ظلم چھپانے کے لیے سیاسی ڈراموں کا سہارا لے رکھا ہے ۔۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ جلد ہی فوج کی طرف دیکھنے لگتے ہیں کہ صرف وہی ان کو اپنی نجات دہندہ نظر آتی ہے اگر سویلین حکومت اپنی اچھی کاکردگی دکھائے تو کوئی وجہ نہیں کہ عوام میں جڑیں رکھنے کی وجہ سے عوام کی آنکھوں کا تارا بھی بنیں مگر پچھلی حکومت اور موجودہ حکومت کی کارکردگی ایک سوالیہ نشان ہے ۔جو لوگ ہزاروں بے گناہوں کے قاتلوں سے دس دس دن کے لیے امن کی بھیک مانگتے ہیں وہ فوج کے مکمل بے دست و پا ہونے تک کیاعوام کی حفاظت کر سکیں گے ؟اس وقت تک افتخار چودھری کا کردار ختم نہیں ہوا وہ سابق ہو کر بھی ہر فیصلے کے پیچھے موجود ہیں یہاں تک کہ سابق صدر مشرف کا فیصلہ حکومت نہیں ،عدلیہ نہیں طالبان کر رہے ہیں اور سب جانتے کہ طالبان کے پیچھے کون ہے؟اس پے ہم بعد میں لکھیں گے کیونکہ جو ثبوت اب تک سامنے آچکے ہیں وہ ایک الگ کالم کے متقاضی ہیں ۔فی لحال تو مجھے عمران خان سے ایک سوال کرنا ہے کہ آپ کہتے ہیں ”طالبان پاکستان کو امریکہ کی جنگ سے نکال رہے ہیں ”آپ بتائیں پاکستانیوں کو طالبان کی دہشت سے کون بچائے گا ؟جن سے آپ ہر دس دن بعد قتل و غارت روکنے کی درخواست کرتے ہیں وہ بھی وہ اس صورت میں مانتے ہیں جب فوج انہیں ہلکا سا جھٹکا دیتی ہے اور اس کے بعد سب اپنی سیاست بچانے کے لیے ایک ہونے کا نعرہ لگاتے ہیں جس کو نوجوان بلاول اپنی ناپختگی کی وجہ سے ناکام بنا دیتا ہے یا شائد اس لیئے کہ اس کے اندر ایک محب الوطن ماں اور نانا کا خون ہے۔

میں ڈر جاتی ہوں جب ایک نوجوان لکھتا ہے میڈم صاحبہ ! آپ عدالت میں بیٹھے جج سے انصاف کی توقع کس طرح کر سکتی ہیں اس جج کے قلم کی سیاہی بھی پیسوں سے آتی ہے اور پیسے جہاں سے آتے ہیں یہ آپ کو علم ہے۔میں مایوس ہو جاتی ہوں اس سوال پر کہ آپ صحافیوں سے سچ لکھنے کی امید کیوں کرتی ہیں ایسے ملک میں جہاں بھارت کے زرخرید صحافی جھوٹ لکھ کر اربوں کماتے ہیں اور جان کی امان پاتے ہیں ،لیکن سچ لکھنے والے سڑکوں پر جوتیاں چٹخاتے ہیں اور گھروں سے اغوا کر کے مارے جاتے ہیں۔آج اس ملک میں نوکری ان کو ملتی ہے جو حاکموں کی کرپشن کہانیوں پہ آنکھیں بند کر لیں بلکہ خود بھی اس کرپشن میں حصہ دار بن جائیں ،روئوف کلاسرا کہتے ہیں نوازشریف نے تھوڑا سا حصہ دے کر عمران خان کو ساتھ ملا لیا ہے مگر دل ہے کہ مانتا ہی نہیں ،عمران بھی تھوڑے سے حصے کے لیے بک سکتا ہے ؟جس نے اپنے ملک کو ورلڈ کپ کا تحفہ دیا ،شوکت خانم جیسا ہسپتال دیا لیکن پھر سیاست کے گند کو سامنے رکھو تو یقین کرنا پڑتا ہے ،تو میں کیوں نہ مایوس ہوں میرے پاس تو وقت نہیں ہے کہ میں بیس سال مزید اس سسٹم کے بدلنے کا انتظار کروں عمران خان! تم نے اس قوم کو بہت مایوس کیا ہے۔قوم کبھی مارشل لا نہیں چاہتی ،مگر قوم دہشت گردوں کے ہاتھوں یرغمال بھی نہیں بننا چاہتی نہ ہی وہ بھارت کی طفیلی بن کے جینا چاہتی ہے۔اب قوم کو سوچنا ہے کہ فیصلہ آج کریں گے یا بک جانے کے بعد؟؟؟

Mrs. Jamshed Khakwani

Mrs. Jamshed Khakwani

تحریر : مسز جمشید خاکوانی