طالبان قیدیوں کو جیلوں میں رکھنے کی خواہش نہیں، افغان صدر

Ashraf Ghani

Ashraf Ghani

قطر (اصل میڈیا ڈیسک) افغان صدر نے واضح کیا ہے کہ وہ طالبان قیدیوں کو جلیوں میں رکھنے کی خواہش نہیں رکھتے۔ امریکا کے ساتھ امن ڈیل کے بعد طالبان نے اپنے پانچ ہزار قیدیوں کی رہائی کو اہم قرار دے رکھا ہے۔

افغان صدر اشرف غنی کا یہ بھی کہنا ہے طالبان قیدیوں کو جیلوں میں سے رہا نہ کرنے کی وجہ افغان عوام کے وہ خدشات ہیں کہ رہائی پانے والے طالبان عسکریت پسند آزادی حاصل ہونے کے بعد پھر سے پرتشدد کارروائیوں میں شامل ہو جائیں گے۔ غنی کے مطابق اس مناسبت سے عوامی تشویش کو زائل کرنے کے بعد ہی ایسے قیدیوں کو رہا کیا جائے گا۔

یہ امر بھی اہم ہے کہ طالبان کے ترجمان نے خلیجی ریاست قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امن ڈیل پر دستخط کی تقریب کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے انٹرا افغان مکالمت کے لیے ان پانچ ہزار قیدیوں کی رہائی کو بنیادی شرط قرار دیا تھا۔

انٹرا افغان مذاکرات کی طے شدہ تاریخ دس مارچ ہے۔ یہ مذاکرات ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں شروع ہوں گے۔ اس اہم مذاکراتی پیش رفت کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ کو ہٹانے کے لیے پانچ ہزار طالبان قیدیوں کی رہائی کو عسکریت پسند تنظیم کی قیادت اہم قرار دیتی ہے۔ افغان طالبان کا اصرار ہے کہ امن ڈیل میں طے شدہ قیدیوں کی رہائی سے متعلق شِق کا احترام بہت اہم ہے۔ طالبان اس پر متفق ہیں کہ وہ اپنے قیدیوں کی رہائی کے بدلے میں ایک ہزار افغان حکومتی اہلکاروں کو بھی رہا کر دیں گے۔

طالبان قیدیوں سے متعلق خیالات کا اظہار افغان صدر اشرف غنی نے نئی پارلیمنٹ کے افتتاحی اجلاس کے موقع پر کیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ قیدیوں کو شفاف اندار میں ایک انتہائی واضح اور منظم طریقہٴ کار کے تحت جیلوں سے آزاد کیا جانا چاہیے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ پہلی مارچ کو ڈیل طے ہونے کے بعد اشرف غنی نے خاصے سخت انداز میں قیدیوں کی رہائی بارے جو موقف اپنایا تھا اب اُس میں واضح نرمی پائی گئی ہے، جو حیران کن ہے۔

انٹرا افغان ڈائیلاگ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے اشرف غنی کا کہنا تھا کہ اُن کی مذاکراتی ٹیم کا انتخاب مقررہ وقت سے قبل مکمل کر لیا جائے گا۔ انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ اوسلو مذاکرات میں شہریوں کی آزادی کا حق، خواتین اور نوجوانوں کے افغان معاشرے میں حقوق و کردار کو بھی واضح انداز میں طے کیا جائے گا۔ غنی کے مطابق یہ ضروری اس لیے ہے تا کہ تا کہ اس تناظر میں کوئی ابہام نہ رہے اور ایسے بنیادی حقوق کے حوالے سے شہریوں، خواتین اور نوجوانوں کو خدشات لاحق نہ ہو سکیں۔