دہشت گردی کے خلاف جنگ کے مشن میں ہماری فوج شام میں موجود رہے گی: امریکا

Mark Esper

Mark Esper

امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر نے کہا ہے کہ شدت پسند تنظیم ‘داعش’ کے سربراہ ابوبکر البغدادی کے قتل کے باوجود شام میں سیکیورٹی کی صورتحال پیچیدہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے مشن کے تحت شام میں امریکی فوج موجود رہےگی۔

جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیئرمین کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ایسپر نے کہا کہ شام میں امریکی فوجی دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ شمالی شام میں تیل کے ذخائر داعش کے ہاتھ لگنے سے روکنے کے لیے امریکا ان کی نگرانی جاری رکھے گا۔

انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ امریکا دیگر اتحادی ممالک کے ساتھ مل کر ‘داعش’ کو مکمل شکست سے دوچار کرنے کا مشن جاری رکھے گی۔

امریکی وزیر دفاع نے کہا کہ ہمارے پاس طاقت ، عزم اور خواہش ہے کہ جو بھی امریکی عوام کو نقصان پہنچائے کی کوشش کرتا ہے اس کا تعاقب کیا جائے گا’۔

مارک ایسپر نے کہا کہ البغدادی اس وقت ایک سرنگ میں چھپا ہوا تھا جب اس نے خود کو دھماکہ خیز بیلٹ اڑا دیا۔

اُنہوں نے اعلان کیا کہ البغدادی کے قتل کی کچھ ویڈیوز چند دن میں جاری کی جاسکتی ہیں۔

انہوں نےتصدیق کی کہ داعش کے مقتول لیڈر البغدادی باقیات مناسب طور پر ٹھکانے لگا دی گئی ہیں۔

دریں اثنا ، ایک امریکی عہدیدارنے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر گفتگو کرتے ہوئے صحافیوں کو بتایا کہ شمال مشرقی شام میں جن جیلوں میں داعش کے سرگرم کارندوں کو ڈالا گیا تھا ان میں 99 فیصد جیلیں محفوظ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آئندہ ماہ کے وسط میں امریکا کی میزبانی میں ‘داعش’ کے خلاف لائحہ عمل کے لیے بین الاقوامی وزارتی اجلاس بھی منعقد کیا جائے گا۔
پینٹاگون نے پیر کو بغدادی کے قتل کے دوران دو افراد کی گرفتاری کا اعلان کیا۔

شام میں انسانی حقوق کی صورت حال پرنظر رکھنےوالے ادارے ‘سیرین آبز ویٹری’ کے مطابق شام کے شمالی علاقے میں 500 سے زیادہ امریکی فوجی سازوسامان سمیت سوموار کو دوبارہ اپنے چھوڑے ہوئے اڈوں پرلوٹ آئے ہیں۔

برطانیہ میں قائم شامی رصدگاہ برائے انسانی حقوق نے داعش کے لیڈرابوبکر البغدادی کی ہلاکت کے ایک روز بعد ان امریکی فوجیوں کی شام میں واپسی کی اطلاع دی ہے۔ ان کا ایک فوجی اڈا شام کی ایم 4 شاہراہ پر تل تمر اور تل بیدارکے درمیان واقع ہے۔ یہ علاقہ عراق کی سرحد ،قامشیلی اور شمالی شہر حلب کے درمیان واقع ہے۔

آبزر ویٹری نے مزید اطلاع دی ہے کہ امریکی طیارے گذشتہ پانچ روز سے شام کے شہر سیرین کے ہوائی اڈے پر اتر رہے تھے۔ان طیاروں سے گاڑیاں ،فوجی سازوسامان اور آلات بھی اتارے جارہے تھے۔

ان کے علاوہ 85 گاڑیوں اور ٹرکوں پر مشتمل امریکی فوج کے دوقافلے اتوار کی شب عراق سے شامی سرزمین میں داخل ہوئے تھے۔

امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ نے دو ہفتے قبل شام سے اپنی مسلح افواج کو واپس بلانے کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ امریکی فوجی شام کے شمال مشرقی علاقے میں ترکی کی فوجی کارروائی میں حصہ نہیں لیں گے۔بعد میں امریکی صدر نے اپنے اس فیصلے کا دفاع کیا تھا ۔

وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری اسٹیفنئی گریشم نے تب ایک بیان میں کہا تھا کہ” امریکی افواج نے داعش کی علاقائی خلافت کو شکست سے دوچار کیا ہے۔ اب وہ اس علاقے میں نہیں رہیں گی۔

شام کے آبزرویٹری برائے انسانی حقوق کے مطابق ، پیر کے روز ، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس سلسلے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس فیصلے کے بعد ، شمالی شام میں تازہ ترین پیشرفتوں میں ، امریکی افواج ان اڈوں پر واپس چلی گئیں جہاں سے وہ گذشتہ چند روز کے دوران شام سے شمال اور شمال مشرق میں پیچھے ہٹ گئیں۔