تھائی لینڈ میں ایمرجنسی قوانین کے باوجود مظاہروں کا سلسلہ جاری

Protesters

Protesters

تھائی لینڈ (اصل میڈیا ڈیسک) تھائی لینڈ میں جمہوریت نواز احتجاجی مظاہرین حکومت کی جانب سے مظاہروں پر عائد پابندی کو نظرانداز کرتے ہوئے بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکلے۔ وہ وزيراعظم کے استعفے کے اپنے مطالبے پر قائم ہیں۔

تھائی لینڈ میں حکومت کی جانب سے مظاہروں پر پابندی کے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جمعرات کو بھی ہزاروں افراد بطور احتجاج سڑکوں پر نکلے۔ حکام نے مظاہروں کی شدت کو دیکھتے ہوئے امتناعی احکامات کے تحت عوامی اجتماعات پر پابندی عائد کردی تھی تاہم اس سخت قانون کے باوجود جمعرات کی شام کو بینکاک میں تقریبا 10 ہزار افراد حکومت کے خلاف احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکلے۔

شام چھ بجے کرفیو کے خاتمے کے بعد بڑی تعداد میں مظاہرین پرجوش انداز میں نعرے بازی کرتے ہوئے سڑکوں اور گلیوں سے گزرے اور پھر پر امن طور پر منتشر ہوگئے۔ مظاہرے میں شامل 26 سالہ تھنپو ڈیج کنچن کا کہنا تھا، ”ایمرجنسی نافذ ہو یا نا ہو، میں خوفزدہ نہیں ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ ملک میں آزادی برقرار رہے۔ میں ملک کو ان شیطانی فتنوں سے آزاد دیکھنا چاہتا ہوں۔”

تھائی لینڈ میں جمہوریت کے حامی مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ ملک کے آئین میں فوری طور پر اصلاحات کی جائیں اور بادشاہ کو حکومتی عمل دخل میں جو اختیارات حاصل ہیں اس کو درست کیا جائے۔ وہ وزیراعظم پرایوتھ چن اوچھا کے استعفے کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں جن پر جمہوری حکومت کوگرانے کے بعد عام انتخابات میں دھاندلی کر کے اقتدار حاصل کرنے کا الزام ہے۔ حکام نے مظاہروں کی قیادت کرنے والے اب تک تقریباً 40 رہنماؤں کو گرفتار کیا ہے۔ جمہوریت نواز کارکنان کا مطالبہ ہے کہ انہیں فوری طور پر جیلوں سے رہا کیا جائے۔

اس سے قبل تھائی لینڈ کے وزیر اعظم پرایوتھ چن اوچھا نے امتناعی احکامات کا اعلان کیا تھا جس کے تحت پانچ سے زیادہ افراد کے اجتماع پر پابندی عائد کردی گئی تھی اور عوامی نقل و حرکت کو محدود کرنے کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ پر بھی جزوی بندشیں عائد کر دی گئی تھیں۔ اس ایمرجنسی فرمان میں ”حساس نوعیت کی خبروں ” کی اشاعت پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے جبکہ پولیس اور فوج کو ہنگامی صورتحال” سے بذات خود نمٹنے کا اختیار دیا گیا ہے۔

بدھ کی شب کو دارالحکومت بینکا ک میں حکومت مخالف زبردست مظاہرے ہوئے تھے جس کے بعد وزیراعظم پرایوتھ نے ”جارحیت ریاستی استحکام کو متاثر کر رہی ہے” کا حوالہ دیتے ہوئے یہ نیا فرمان جاری کیا تھا۔ اس حکم کے فوری بعد جہاں پر بھی مظاہرین جمع ہوئے تھے وہاں کے راستوں اور گلیوں پر پولیس قابض ہوگئی تھی۔ لیکن حکومت کی ان تمام کوششوں کے باوجود مظاہرین اپنے مطالبات کے ساتھ سڑکوں پر نکلے۔

نوجوانوں کی قیادت میں چلنے والی اس تحریک کا آغاز گزشتہ جولائی میں ہوا تھا جب حکومت اور آئین میں اصلاحات کے لیے چھوٹی چھوٹی ریلیاں شروع ہوئی تھیں۔ مظاہرین ملک میں ایک نئے آئین کا مطالبہ کرنے کے ساتھ ہی انسانی حقوق کے علمبرداروں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا خاتمہ چاہتے ہیں۔

اب مظاہرین کے مطالبات میں مزید اضافہ ہوگیا ہے اور وہ تھائی لینڈ کی بادشاہت میں اصلاحات پر زور دے رہے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ بادشاہ کے اختیارات میں فوری طور پر کمی کی ضرورت ہے۔ تھائی لینڈ میں بادشاہت کو ایک طویل عرصے سے ملک کی ایک مقدس شناخت کے طور دیکھا جاتا رہا ہے۔ بادشاہ کو فوج کے ایک حصے پر بھی کافی کنٹرول حاصل ہے اور ناقدین اسے بھی واپس لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

لیکن شاہی خاندان عوام کے ان مطالبات پر توجہ دینے کے بجائے انہیں ہمیشہ مسترد کرتا رہا ہے۔ تھائی لینڈ کے قوانین کے مطابق بادشاہ تنقید سے بھی بالا تر ہے اور اس پر نکتہ چینی کرنے والوں کو 15 برس تک قید کی سزا ہوسکتی ہے۔ تھائی لینڈ کے باد شاہ مہا وجیرا لونگ کورن اکثر ملک کے باہر، خاص طور پر جرمنی میں، اپنا وقت گزارتے ہیں۔ یہ پہلا موقع ہے کہ ان کے خلاف احتجاجی مظاہرے ایسے وقت ہورہے ہیں جب وہ تھائی لینڈ میں موجود ہیں۔

ملک میں ہونے والے موجودہ مظاہروں کے تعلق سے شاہی محل کے حکام نے کسی بھی طرح کے تبصرے سے انکار کیا ہے تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ امن و قانون کی بحالی کے لیے ایمرجنسی قوانین کا نفاذ بہت ضروری تھا۔