شاہ بانو میر اصل کامیابی

The success

The success

دن مہینوں میں مہینے سالوں میں بدلے اور آخر کار پاکستان کی طرف سفر کا آغاز ہوا ـ آسمان کی لا محدود وسعتوں میں جہاز نامی یہ پرندہ اپنی طویل پروں کو پھیلائے بیکراں وسعتوں کو چِیرتا ہوا اپنے لئے راستہ بناتا ہوا سبک خرامی سے تیرتا جا رہا تھا ـ فرانس سے دور اور دور پاکستان کے قریب اور قریب ـ

میرے سامنے اٹھکیلیاں کرتےنیلے رنگ کے بادل تھے جو نچلی سِمت خوبصورت چادر کی طرح بچھے ہوئے دکھائی دے رہے تھے ـ اور تاحدِ نظر رب ذوالجلال کی شان بکھری ہوئی تھی بے ساختہ میری نگاہیں آسمان کی جانب بلند ہوئیں اور دل سے صدا بلند ہوئی ـ

سُورة الْفَاتِحَة

1. الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَO

1. سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کی پرورش فرمانے والا ہےo

2. الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِO

2. نہایت مہربان بہت رحم فرمانے والا ہےo

3. مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِO

3. روزِ جزا کا مالک ہےo

4. إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُO

4. (اے اللہ!) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور ہم تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیںo

5. اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَO

5. ہمیں سیدھا راستہ دکھاo

6. صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْO

6. ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایاo

7. غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَO

7. ان لوگوں کا نہیں جن پر غضب کیا گیا ہے اور نہ (ہی) گمراہوں کاO

(عرفان القرآن )

یہ دعا یہ صدا شائد وقتِ قبولیت پوری سچائی کے ساتھ دل سے نکلی تھی ـ جس کو رب پاک نے شرف قبولیت عطا کر دیا ـ تمام راستے میں اللہ سے باتیں کرتی رہی ـ راستے کا متلاشی مسافر راستے کی کھوج میں رہتا ہےـ مگر جب ہم اپنے اصل سے بہت عرصہ دور رہتے ہیں تو ہم اپنے اصل کو بھولنے لگتے ہیں ـ گہما گہمی والی دنیا ہجوم کی اس دوڑ میں ہر ایک کی دوڑ لگی ہے ایک دوسرے کو پیچھے دھکیل کر خود کو سب سے آگے لانے کیلیۓ مجھے یہاں کا سفر اب صرف”” میں “”کا سفر لگتا ہے جس کا کوئی آخر نہیں ہے ـ صرف بے مقصد دوڑ ہے ـ

یہ”” میں”” کیا ہے؟

ہماری اصل اوقات کیا ہے؟

ایک حادثہ اور آخری خبر

آخری نیند اور دوسرے سفر کا آغاز

“” میں””

کی اس دوڑ میں نجانے ہم کتنے لوگوں کا استحصال کرتے ہیں ـ

نجانے کتنوں کی خواہشات کو پائمال کرتے ہیں ـ

دوڑ لڑائی کشمکش صرف اگلے لمحے ہی ختم ہو سکتی ہے ـ

اور

پھر جو سفر شروع ہونا ہوگا اسکے لیۓ ساتھ کیا لائۓ ؟؟؟

کچھ نہیں

کچھ بھی نہیں

ابھی وقت ہے ہمارے پاس سوچنے کیلیۓ

غلاظت سے باہر نکلنے کیلیۓ

خود کو گمراہی کے اس بدبودار جوہڑ سے نکالنے کیلیۓ

میرا یہ سفر پاکستان کا سفر نہیں یوں لگا حج کا سفر بن گیا ـ

پاکستان

میں جا کر رہ کر وہ عمل ملا جو سال ہا سال یہاں رہ کر کہیں گم کر چکی تھی ـ

اپنے خاندان میں واپس آکر پھر سے وہ انداز وہ پاکیزگی وہ توانائی سچائی محسوس کی جو یورپ کی یخ بستہ ہواؤں میں اور اور اس “”میں”” کی دوڑ میں میں خود کوسوں دور چھوڑ آئی تھی ـ میں شاہ بانو میر اپنا اصل اس بھاگ دوڑ میں کہیں کھو چکی تھی وہ ” اصل “” سب کے ساتھ رہ کر پھر سے واپسی کے سفر کا متقاضی لگا ـ قلمی سفر کا آغاز کیا تو مجھے یاد ہے کہ

آغاز روایتی خواتین کی طرح افسانوں سے تھا ـ

پھر بات ناولوں تک آئی

شہرت مل رہی تھی نام بن رہا تھا ـ کام پسند کیا جا رہا تھا ـ

لیکن

اندر

کہیں پیاس تھی کہ بجھنے کا نام نہیں لے رہی تھی کوئی بیچینی کوئی کشمکش مسلسل موجود تھی ـ

پھر چیف جسٹس کا تاریخی سانحہ ہوا

قلم مچلا ایک تحریر مکمل ہوئی اس تحریر کو پزیرائی ملی تو سکون ملا ـ

اندازہ ہوا کہ سفر تعمیری جانب گامزن ہو چکا ـ

پھر قلم کا سفر تھا حق بات تھی اور پاکستان کیلیۓ کچھ کر گزرنے کا جذبہ

کب پل منٹ میں منٹ گھنٹوں میں گھنٹے دنوں میں اور دن ہفتوں کی سطح عبور کرتے ہوئے مہینوں کا سفر سالوں تک لے گئے پتہ ہی نہیں چلا

درمیان میں دشوار گزار راستے آئے دل چاہا کچھ سستا لیا جائے

لیکن

ذمہ داری کا خود ساختہ احساس مسلسل کام پے اصرار کرتا رہا ـ

ایک کے بعد دوسری دوسری کے بعد تیسری پھر چوتھی پانچویں چھٹی ساتویں آٹھویں اور الحمد لِلہ نویں کتاب نجانے کن دعاؤں کی وساطت سے پایہ تکمیل کو پہنچیں ـ

پھر پڑاؤ آیا پیارے پاکستان کیلیۓ عملی جد وجہد کا

ایک کے بعد دوسرا سانحہ رو پزیر ہونے لگا ـ

تب بے کلی پھر بڑہنے لگی ـ

سفر میں کہیں ٹھہراؤ آنے لگا تسلسل ٹوٹنے لگا ـ

کئی قریبی لوگ بہت دور محسوس ہوئے اور بہت دور لگنے والے بہت قریب لگے ـ

اس پڑاؤ میں کئی دلخراش واقعات رو پزیر ہوئے جن کے نہ ہونے کی صورت شائد سفر کی نوعیت تبدیل ہونے میں مزید وقت لگتا ـ

احساس کشمکش روپ بہروپ کے اس دور میں بار بار ایک ہی بات سامنے آئی کہ دنیا لوگ ناقابل یقین ہیں ـ کردار افعال اعمال صورتحال کے ساتھ تبدیل ہوتے ہیں ـ

اور

اگر ایسا نہ ہو تو حقیقی سفر میں مزید تاخیر ہوتی ہے ـ

حقیقت اپنے آپ کو خود منواتی ہے ارد گرد بھیڑ بھاڑ ہو ہجوم ہو سچائی روزِ ازل سے منافقت کے پردے چاک کر کےخود کو خود منواتی ہے ـ

سچائی شیشے کی طرح شفاف اور ہمیشہ رہنے والی ہے ـ

ہم اس سے کتنا بھی خود کو دور کر لیں لیکن نہیں کر سکتے ـ

ذہن کے دور گوشوں میں بچپن میں ماں کی سادہ سی لوری گود میں سُلاتے ہوئے

اللہ ہُو

کی وہ مدُھر آواز وقت کے تیز رفتار راستے میں کھو گئی ہو تو اسی تیز رفتار وقت کی چِیرہ دستیاں واپس اسی آواز کو کانوں میں رس گھولنے پے مجبور کر دیتی ہیں ـ

خاندان کی اساس اسلام پے ہے وقتی طرز عمل ہمیں اس سے غافل کر دیتا ہے ـ

لیکن

جب جب

راستے نوکیلے پتھروں سے آراستہ کر دیے جائیں تو اللہ رب العزت خود کو نمایاں کرتے ہوئے بندے کو یاد دلاتا ہےـ

کہ

کامیابی کا سفر صرف تصاویر نہیں ـ

صرف تحریر نہیں

صرف ذات کی خود نمائی نہیں ـ

بلکہ

اصل کی طرف واپسی ہی اصل کامیابی ہے ـ

تحریر کا حسن پاکیزگی میں ڈھل جاتا ہے ـ

تحریر اس پاک ذات کی صفات کو جب جب بیان کرتی ہے تو روح با وضو ہو کر خیالات کو مشغول عبادت کرتی دکھائی دیتی ہے

بے چینی کا نیا سفر

نجانے کب سے اصل کی تلاش میں تھا ـ

اس بیچینی کو انوکھا قرار ملا

سکونِ قلب کی دولت اصل میں ہے صرف میں کی اس بھاگتی دوڑتی تھکا دینے والی تشنج زدہ زندگی میں نہیں ـ

دعا کی قبولیت کے ثمرات مجھے پاکستان میں دکھائی دئے ـ

پاکستان پہنچی تو اسی موضوع پے بات کرتےہوئے بہن سے بحث ہو گئی ـ یہ میری پیاری بہن بچپن سے ہی اللہ والی ہے ـ اب تو ماشاءاللہ مکمل پردہ اور سادگی کا عملی نمونہ کہ رشک آتا ہے

دنیا کی ہر آسائش کے ہوتے ہوئے صرف عبادت صرف سچائی صرف سادگی کا پیکرکہ دیکھ کر رشک آتا ہے ـ روحانی مذہبی تعلیمات جن سے حاصل کر رہی تھی ان کا نام سنا تو ورطہ حیرت میں ڈوب گئی ـ استاد وہ ہستی تھیں کہ جن کو کالج میں دیکھ کر لبوں پے مسکراہٹ آجاتی تھی اتنا مزاح اتنا کھلنڈرا پن ان کی ذات میں تھا ـ

آج بیس سال بعد وہ اسلامی تعلیمات کا معتبر نام ہیں ـ اعتماد کا نشان ہیں ـ گھر گھر خواتین ان کی شاگردوں کی صورت ان سے حاصل کردہ علم کو اپنے اپنے طریقہ کار کے مطابق بڑہا رہی ہیں ـ

اللہ ھو اکبر

تو جسے چاہے نواز دے بے شک ـ

استاد ِمحترم سے بات ہوئی تو وہ سمجھانے لگیں کہ ـ

شاہ بانو

آپ پاکستان کو کیسے بدل سکتی ہیں؟

بغیر خود کو بدلے؟

اپنے کام کی نوعیت کو بدلیں اپنے خیالات کو رب کریم کے تابع کریں پھر اس سے مدد لیں ـ

پاکستان کا استحکام آپ اور آپ جیسے لاکھوں لوگ مل کر بھی نہیں کر سکتے خواہ دن رات محنت کر لیں ـ

لوٹیں اپنے اصل کی جانب

اپنے رب کی جانب

اپنے اعمال کو شریعت کے مطابق ڈھالیں

قرآن پاک کو اپنا استاد مان کر اسکو سمجھ کر مشن کا آغاز کریں ـ

کامیابی کی ضمانت ہے یہ سفر ـ

شیریں اندازِ بیاں حلاوت سے مزین لہجہ کیسے اندر کی پیاس کو ختم کر رہا تھا ـ

یوں لگ رہا تھا کہ جیسے اسی اصل کی متلاشی تھی لیکن شائد سمجھتے سمجھتے دیر کر دی ـ

ایک ایک حرف میرے جلتے وجود کو جیسے سیراب کرتے ہوئے مجھے بچپن میں سلانے والی خوبصورت پاکیزہ “” اللہ ھُو “” کی یاد دلاتا رہا ـ سکون کی عجب کیفیت تھی ـ یوں لگا جیسے وہ اصرار جو کئی سالوں سے دوستوں کی جانب سے تھا ـ اس نے حتمی صورت آج اختیار کی ـ

ٌ وہ فیصلہ جوکشمکش کے درمیان کئی سالوں سے معلق تھا جو پل بھر میں ہو گیا ـ

مکمل کامیاب فیصلہ اس دنیا میں رہ کر اس پاکستان کو استحکام رب ذوالجلال کے توسط سے دیا جا سکتا ہے دوسری کوئی صورت نہیں ـ

آئیے

نئے پاکستان کیلیۓ نئی سوچ نئی جدو جہد کا آغاز سب سے پہلے اپنے آپ سے کریں ـ

خود کو قرآن کی تعلیمات سے آراستہ کر کے عملی طور پے اپنے آپ کو پاکستان کی خدمت کیلیۓ پیش کریں ـ

تا کہ بیرون ممالک میں زائل شدہ تاثر کو نئی ،جہت دیں ـ نئے انداز میں اصل اسلام کو قرآنی تعلیمات کے مطابق پھیلائیں ـ

کہ

یہی مستقبل کے کامیاب روشن پاکستان کا اصل ہے ـ

ورنہ تو سالوں سے بے بنیاد طریقہ کار سے ہر حربہ اہل سیاست نے آزما کر دیکھ لیا ـ

دل کا سکون روح کا اطمینان اور ملک کی بقا کیلیۓ آئیے اکٹھے چلیں اور کامیاب نسل کیلیۓ آج سے قرآن پاک کی تعلیمات ترجمے تلاوت سے گھروں کو قبرستان بننے سے بچائیں ـ

خود اپنے بچوں کو اہل خانہ کو دعوتِ فکر و عمل دیں ـ

مگر

ضروری ہے کہ یہ سب لکھنے کہنے سنانے سے پہلے اپنے کردار کو اعمال کو افعال کو درست کر لیا جائے ـ

ورنہ بے عمل کردار سے ہم مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکیں گے ـ

مجھے آج نجانے کیوں وہ بادلوں سے بلندی پر مانگی ہوئی دعا یاد آ رہی ہے جو شائد رب کعبہ نے قبول کر لی جس میں میں نے سچ میں یہ کہا تھا اللہ سے بار بار

آج دی رات میں کلم کلی کوئی نہ میرے کول

آج دی رات تے میرے ربا نیڑے ہو کے بول