ہے کوئی ایسا شاہکار

Writer

Writer

تحریر : روہیل اکبر

وائس چانسلر اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور لاہور تشریف لائے تو انہوں نے کھانے پر مدعو کرلیا کھانے کے دوران اور پھر بعد میں بھی باتیں ہوتی رہی جاتے ہوئے انہوں نے اپنی ایک کتاب بھی پیش کی ڈاکٹر اطہر محبوب واقعی قدرت کا ایک عظیم شاہکار ہیں جن سے ملنے کے بعد شائد یہی کہنا پڑتا ہے کہ ہے کوئی اس جیسا مائی کا لعل،ہے کوئی اس جیسی سوچ کا مالک،ہے کوئی ایسا درد دل رکھنے والا محب وطن، ہے کوئی ایسا پیار کرنے والا انسان اور ہاں انسانوں کی ایسی منڈی میں ہے کوئی ایسا مخلص اور باوفا انسان ہے جو پیار کرنے والا بھی ہو اور پیارا بھی ہو جی ہاں وہ انسان تو ہے ہی مگر جو انسانیت ان کے اندر بھر دی گئی ہے وہ بہت کم انسانوں میں نظر آتی ہے والدہ سے لگاؤ،والد سے پیار اور ماسٹر صاحب (دادا جان) کی تعلیم دوستی نے انہیں آج بنی نوح انسان کی خدمت کے لیے چنا ہے۔

اصل میں دنیا میں آنے والے ہر انسان کی عادت،سوچ اور کام کرنے کا اندازیک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے اور اسکے پیچھے اس وقت کی سوچ ہوتی ہے جب بچہ ابھی ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے والدین کے خیالات،جذبات اور سوچیں اسے منفرد بنانا شروع کردتی ہے اس وقت دنیا کی آبادی تقریبا 8ارب کے قریب پہنچ چکی ہے ایک کونے سے دوسری نکر تک کسی انسان کا دوسرے انسان سے ڈی این اے نہیں ملے گا ہر انسان کے اندر قدرت نے بے پناہ صلاحیتیں رکھ چھوڑی ہیں کچھ کی سمجھ آتی ہے کچھ کی نہیں آتی کچھ ظاہری ہوتی ہیں کچھ پوشیدہ بعض افراد ایسے ہوتے ہیں کہ وہ اپنی ظاہری خوبیوں سے بھی کام نہیں لے سکتے اور ساری عمر ایک دوسرے کو یا پھر اپنی قسمت کو کوستے رہتے ہیں۔

جبکہ کچھ افراد ایسے ہوتے ہیں جو اپنی ظاہری خوبیوں کے ساتھ ساتھ اپنی پوشیدہ خوبیوں کو بھی پہچان لیتے ہیں اور پھر وہ قدرت کے فیصلے کے مطابق اپنے آپ کو اشرف المخلوقات ثابت کرنے میں لگ جاتے ہیں ایک وقت آتا ہے کہ دنیا انکے کارناموں کو تسلیم کرلیتی ہے ہر انسان بظاہر اپنی شکل و صورت سے ہی اپنی پہچان بناتاہے مگر جو اپنی چھپی ہوئی صلاحیتوں کے نکھار کے بعد اپنی شناخت واضح کرتے ہیں وہ انمٹ اور ناقابل فراموش ہوتی ہے کوئی انہیں مٹا نہیں سکتا اور دنیامدتوں انہیں یاد رکھتی ہے انسانی جسم کی انگلیوں کی پوروں پر بال کی طرح باریک لکیریں ہوتی ہیں جو ہمیں ایک دوسرے سے منفرد بناتی ہیں یہ لکیریں تب نمودار ہونے لگتی ہیں جب انسان ماں کے شکم میں 4 ماہ تک پہنچتا ہے یہ لکیریں ایک ریڈیائی لہر کی صورت میں گوشت پر بننا شروع ہوتی ہیں ان لہروں کو بھی پیغامات ڈی این اے دیتا ہے مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ پڑنے والی لکیریں کسی صورت بھی اس بچے کے جد امجد اور دیگر روئے ارض پر موجود انسانوں سے میل نہیں کھاتیں گویا لکیریں بنانے والا اس قدر دانا اور حکمت رکھتا ہے کہ وہ کھربوں کی تعداد میں انسان جو اس دنیا میں ہیں اور جو دنیا میں نہیں رہے۔

ان کی انگلیوں میں موجود لکیروں کی شیپ اور ان کے ایک ایک ڈیزائن سے باخبر ہے یہی وجہ ہے کہ وہ ہر بار ایک نئے انداز کا ڈیزائن اس کی انگلیوں پر نقش کر کے یہ چیلنج کرتا ہے کہ ہے کوئی مجھ جیسا ڈیزائنر؟؟؟ ہے کوئی مجھ جیسا کاریگر؟؟؟ ہے کوئی مجھ جیسا آرٹسٹ؟؟؟ ہے کوئی مجھ جیسا مصور؟؟؟ ہے کوئی مجھ جیسا تخلیق کار؟؟؟ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اگر جلنے زخم لگنے یا کسی وجوہات کی بنیاد پر یہ فنگر پرنٹ مٹ بھی جائے تو دوبارہ ہو بہو وہی لکیریں جن میں ایک خلیے کی بھی کمی بیشی نہیں ہوتی ظاہر ہو جاتی ہیں پس ہم پر کھلتا ہے کہ پوری دنیا بھی جمع ہو کر انسانی انگلی پر کسی وجوہات کی بنیاد پر مٹ جانے والی ایک فنگر پرنٹ نہیں بنا سکتی تو جو چیز لاکھوں سائنسدانوں کی کوششوں سے نہیں بن پا رہی وہ خود سے کیسے بن سکتی ہے وہ ہی تو ہے زبردست حکمت والا اور اسی حکمت والے نے ڈاکٹر اطہرمحبوب کو عزت،شہرت اور رتبہ عطا کیا ہے ایسے لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہے صدیوں کا کام سالوں میں مکمل کرتے ہیں اور پھر صدیوں تک امر ہوجاتے ہیں جس انسان کو اللہ تعالی عزت دینے پر آئے تو پھر انکی پوشیدہ صلاحیتیں بھی کھل کر سامنے آنا شروع ہو جاتی ہے اگر تو وہ اللہ کی مخلوق کی خدمت میں لگ جائے تو پھر اس دور کا ولی بھی وہ ہوتا ہے اور سلطان بھی اور اگر کوئی اپنی ان صلاحیتوں کو انسانوں کو تکلیف پہنچانے میں لگا تا ہے تو پھر اس سے بڑا شیطان کوئی نہیں دونوں کو ہی دنیا یاد رکھتی ہے۔

ایک کو گالی کی صورت میں تو دوسرے کو دعا کی صورت میں میں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر اطہر اس وقت تعلیم کے شعبہ میں جو انقلاب برپا کرنا چاہتے ہیں وہی وزیراعظم عمران خان اور وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار کا وژن ہے یہ تینوں شخصیتیں چاہتی ہے کہ اس ملک کا غریب بچہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ڈگریاں ہاتھوں میں اٹھائے کلرکی کی نوکری نہ تلاش کرے بلکہ اپنے علم و ہنر کی بدولت نہ صرف اپنے پاؤں پر کھڑا ہو بلکہ ملک اور قوم کے لیے بھی فائدہ مند ثابت ہو ڈاکٹر اطہر محبوب ہمارے پاس اللہ کی طرف سے ایک خوبصورت انعام ہیں اپنے اندر خود ایک یونیورسٹی ہیں انکی صلاحیتوں سے جتنا ہم فائدہ اٹھا لیں کم ہے انکے بارے میں رازش لیاقت پوری کا ایک جملہ ہی کافی ہے کہ انکاذہن کمپیوٹر کی طرح اور جسم مشین کی طرح ہر وقت متحرک رہتا ہے جو بچوں میں ڈگریاں نہیں بلکہ ہنر بانٹنا چاہتے ہیں ڈاکٹر اطہر محبوب کی شخصیت کے حوالہ سے جتنا بھی لکھا جائے کم ہے اور یہ انکے کارنامے ہیں جو ہمیں لکھنے پر مجبور کرتے ہیں اگر ہمارے سبھی اساتذہ ایسے ہی بن جائیں تو پاکستان دنیا کا خوبصورت اور عظیم ترین خطہ بن جائیگا جسکے بعد ہم بلاشبہ یہ کہنے میں حق بجانب ہونگے کہ ہے کوئی ایسا شاہکار تو سامنے آئے۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر : روہیل اکبر