ٹک ٹاک پر پابندی کے صدر ٹرمپ کے فیصلے کو عدالت نے معطل کر دیا

TikTok

TikTok

واشنگٹن (اصل میڈیا ڈیسک) چینی ویڈیو شیئرنگ ایپ ٹک ٹاک کو بالکل آخری لمحوں میں اس وقت عارضی راحت مل گئی جب ایک امریکی عدالت نے اس پر پابندی عائد کرنے کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے کو معطل کردیا۔

واشنگٹن کی ایک عدالت کے وفاقی جج نے تاہم مکمل پابندی کو معطل کرنے کی ٹک ٹاک کی درخواست مسترد کر دی۔ ٹک ٹاک پر یہ پابندی امریکی صدارتی انتخابات کے بعد 12 نومبر سے نافذ العمل ہونے والی ہے۔

ٹک ٹاک کو پابندی سے یہ راحت پیر کے روز نصف شب کو بالکل آخری لمحوں میں اس وقت ملی جب پابندی پر عمل درآمد ہونے ہی والا تھا۔ وفاقی عدالت کے جج کارل نکولس نے اپنے ابتدائی حکم میں ٹک ٹاک کی مالک بائٹ ڈانس کی طرف سے دائر کر دہ درخواست پر اس ویڈیو ایپ کو فی الحال دستیاب رکھنے کی اجازت دے دی۔

ٹک ٹاک پر زیادہ سخت پابندی امریکی صدارتی انتخابات کے ایک ہفتے بعد نومبر میں عائد کرنے کی تجویز ہے۔ جج نے اس پابندی کو معطل کرنے کی کمپنی کی درخواست قبول نہیں کی۔

ٹک ٹاک کے وکلاء کی دلیل تھی کہ اگر امریکی انتظامیہ ٹک ٹاک پر پابندی عائد کرتی ہے تو یہ آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی اور اس سے تجارت کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔

صدر ٹرمپ نے قومی سلامتی کو لاحق خطرات کا حوالہ دیتے ہوئے گزشتہ ماہ اگست میں ہی ٹک ٹاک اور ایک دیگر چینی ایپ وی چیٹ پر پابندی عائد کرنے کے لیے ایگزیکیوٹیو آرڈر جاری کر دیے تھے۔ وائٹ ہاوس کا کہنا ہے کہ یہ ویڈیو سروس قومی سلامتی کے لیے اس لیے خطرہ ہے کیوں کہ یہ کروڑوں امریکی شہریوں کے ذاتی اطلاعات چینی حکام کو پہنچاتی ہے۔

ٹرمپ کا مزید کہنا تھا کہ آیا ٹک ٹاک اپنے امریکی اثاثوں کو امریکی کمپنیو ں کو فروخت کردے ورنہ اسے ملک سے نکال دیا جائے گا۔ صدر ٹرمپ کے اس حکم کے بعد بائٹ ڈانس نے ٹک ٹاک گلوبل کے نام سے ایک نئی کمپنی قائم کر کے ٹک ٹاک کے مجموعی طورپر 20 فیصد اثاثے امریکی کمپنیوں اوریکل اور والمارٹ کو فروخت کرنے کا اعلان کیا تھا۔ صدر ٹرمپ نے بھی اس سودے کو منظوری دے دی تھی۔ تاہم صدر ٹرمپ نے متنبہ کیا تھا کہ اگر اوریکل کا اس کمپنی پر ‘مکمل کنٹرول‘ نہیں رہا تو وہ اپنی منظوری واپس لے سکتے ہیں۔

ٹک ٹاک کا کہنا ہے کہ اس پر یہ پابندیاں، ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں امریکا اور چین کے درمیان تعلقات میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کی وجہ سے لگائی جارہی ہیں۔ ”اس کے پیچھے کوئی حقیقی قومی سلامتی کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ آئندہ ہونے والے صدارتی انتخابات کے مدنظر ایک سیاسی فیصلہ ہے۔”