اسے گلے سے لگائے زمانہ ہو گیا ہے

Sad

Sad

اسے گلے سے لگائے زمانہ ہو گیا ہے

نہ جانے اب کہاں اس کا ٹھکانہ ہو گیا ہے

اسے دیدار کرائے زمانہ ہو گیا ہے

قرار آئے گا کیسے ملے بغیر اسے
اسے گلے سے لگائے زمانہ ہو گیا ہے

ابھی تو آئے ہو کچھ دیر تو ٹھہر جاؤ

معطر آج مرا آشیانہ ہو گیا ہے

کیا غلط کیا جو ان کے پہلو میں بیٹھ گیا

ذرا سی بات پہ دشمن زمانہ ہو گیا ہے

تمہارا نام جو آیا مرے فسانے میں

مزاج تمہارا بڑا جارحانہ ہو گیا ہے

ارشد ارشیؔ